Translation of the Meanings of the Noble Qur'an - Urdu translation - Muhammad Junagarhi

Page Number:close

external-link copy
82 : 6

اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْۤا اِیْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَهُمْ مُّهْتَدُوْنَ ۟۠

جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے، ایسوں ہی کے لئے امن ہے اور وہی راه راست پر چل رہے ہیں۔(1) info

(1) آیت میں یہاں ظلم سے مراد شرک ہے جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ (رضي الله عنهم) نے ظلم کا عام مطلب (کوتاہی، غلطی، گناہ، زیادتی وغیرہ) سمجھا، جس سے وہ پریشان ہوگئے اور رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کی خدمت میں آ کر کہنے لگے أَيُّنَا لَمْ يَظْلِمْ نَفْسَه ہم میں سے کون شخص ایسا ہے جس نے ظلم نہ کیا ہو؟ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا اس سے وہ ظلم مراد نہیں ہے جو تم سمجھ رہے ہو بلکہ اس سے مراد شرک ہے۔ جس طرح حضرت لقمان (عليه السلام) نے اپنے بیٹے کو کہا تھا ”إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ“ (لقمان: 13) ”یقیناً شرک ظلم عظیم ہے“۔ (صحيح بخاري ، تفسير سورة الأنعام)۔

التفاسير:

external-link copy
83 : 6

وَتِلْكَ حُجَّتُنَاۤ اٰتَیْنٰهَاۤ اِبْرٰهِیْمَ عَلٰی قَوْمِهٖ ؕ— نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآءُ ؕ— اِنَّ رَبَّكَ حَكِیْمٌ عَلِیْمٌ ۟

اور یہ ہماری حجت تھی وه ہم نے ابراہیم(1) (علیہ السلام) کو ان کی قوم کے مقابلے میں دی تھی ہم جس کو چاہتے ہیں مرتبوں میں بڑھا دیتے ہیں۔ بےشک آپ کا رب بڑا حکمت واﻻ بڑا علم واﻻ ہے۔ info

(1) یعنی توحید الٰہی پر ایسی حجت اور دلیل، جس کا کوئی جواب ابراہیم (عليه السلام) کی قوم سے نہ بن پڑا۔ اور وہ بعض کے نزدیک یہ قول تھا، ”وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُمْ بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالأَمْنِ“ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے اس قول کی تصدیق فرمائی اور کہا «الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ»۔

التفاسير:

external-link copy
84 : 6

وَوَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ ؕ— كُلًّا هَدَیْنَا ۚ— وَنُوْحًا هَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّیَّتِهٖ دَاوٗدَ وَسُلَیْمٰنَ وَاَیُّوْبَ وَیُوْسُفَ وَمُوْسٰی وَهٰرُوْنَ ؕ— وَكَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ۟ۙ

اور ہم نے ان کو اسحاق دیا اور یعقوب(1) ہر ایک کو ہم نے ہدایت کی اور پہلے زمانہ میں ہم نے نوح کو ہدایت کی اور ان کی اوﻻد میں سے(2) داؤد کو اور سلیمان کو اور ایوب کو اور یوسف کو اور موسیٰ کو اور ہارون کو اور اسی طرح ہم نیک کام کرنے والوں کو جزا دیا کرتے ہیں۔ info

(1) یعنی بڑھاپے میں، جب کہ وہ اولاد سے ناامید ہوگئے تھے، جیسا کہ سورۂ ہود،آیت 73،72 میں ہے، پھر بیٹے کے ساتھ ایسے پوتے کی بھی بشارت دی جو یعقوب (عليه السلام) ہوگا، جس کے معنی میں یہ مفہوم شامل ہے کہ اس کے بعد ان کی اولاد کا سلسلہ چلے گا، اس لئے کہ یہ عقب (پیچھے) سے مشتق ہے۔
(2) ”ذُرِّيَّتِهِ“ میں ضمیر کا مرجع بعض مفسرین نے حضرت نوح (عليه السلام) کو قرار دیا ہے کیونکہ وہی اقرب ہیں۔ یعنی حضرت نوح (عليه السلام) کی اولاد میں سے داود اور سلیمان علیہما السلام کو۔ اور بعض نے حضرت ابراہیم (عليه السلام) کو۔ اس لئے کہ ساری گفتگو ان ہی کے ضمن میں ہو رہی ہے۔ لیکن اس صورت میں یہ اشکال پیش آتا ہے کہ پھر لوط (عليه السلام) کا ذکر اس فہرست میں نہیں آنا چاہیئے تھا کیونکہ وہ ذریت ابراہیم (عليه السلام) میں سے نہیں ہیں۔ وہ ان کے بھائی ہاران بن آزر کے بیٹے یعنی ابراہیم (عليه السلام) کے بھتیجے ہیں۔ اور ابراہیم (عليه السلام) ، لوط (عليه السلام) کے باپ نہیں، چچا ہیں۔ لیکن بطور تغلیب انہیں بھی ذریت ابراہیم (عليه السلام) میں شمار کر لیا گیا ہے۔ اس کی ایک اور مثال قرآن مجید میں ہے۔ جہاں حضرت اسماعیل (عليه السلام) کو اولاد یعقوب (عليه السلام) کے آبا میں شمار کیا گیا ہے جب کہ وہ ان کے چچا تھے۔ (دیکھیے سورۂ بقرۃ آیت 133)

التفاسير:

external-link copy
85 : 6

وَزَكَرِیَّا وَیَحْیٰی وَعِیْسٰی وَاِلْیَاسَ ؕ— كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ ۟ۙ

اور (نیز) زکریا کو اور یحيٰ کو اور عیسیٰ(1) کو اور الیاس کو، سب نیک لوگوں میں سے تھے۔ info

(1) عیسیٰ (عليه السلام) کا ذکر حضرت نوح (عليه السلام) یا حضرت ابراہیم (عليه السلام) کی اولاد میں اس لئے کیا گیا ہے (حالانکہ ان کا باپ نہیں تھا) کہ لڑکی کی اولاد بھی ذریت رجال میں ہی شمار ہوتی ہے۔ جس طرح نبی (صلى الله عليه وسلم) نے حضرت حسن (رضي الله عنه) (اپنی بیٹی حضرت فاطمہ (رضی الله عنها) کے صاحبزادے) کو اپنا بیٹا فرمایا ”إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللهَ أنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ، مِنَ الْمُسْلِمِينَ“ صحيح بخاري ، كتاب الصلح، باب قول النبي للحسن بن علي، ابني هذا سيد ( تفصیل کے لئے دیکھیئے تفسیر ابن کثیر)

التفاسير:

external-link copy
86 : 6

وَاِسْمٰعِیْلَ وَالْیَسَعَ وَیُوْنُسَ وَلُوْطًا ؕ— وَكُلًّا فَضَّلْنَا عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ۟ۙ

اور نیز اسماعیل کو اور یسع کو اور یونس کو اور لوط کو اور ہر ایک کو تمام جہان والوں پر ہم نے فضیلت دی۔ info
التفاسير:

external-link copy
87 : 6

وَمِنْ اٰبَآىِٕهِمْ وَذُرِّیّٰتِهِمْ وَاِخْوَانِهِمْ ۚ— وَاجْتَبَیْنٰهُمْ وَهَدَیْنٰهُمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ۟

اور نیز ان کے کچھ باپ دادوں کو اور کچھ اوﻻد کو اور کچھ بھائیوں کو(1) ، اور ہم نے ان کو مقبول بنایا اور ہم نے ان کو راه راست کی ہدایت کی۔ info

آباء سے اصول اور ذریات سے فروع مراد ہیں۔ یعنی ان کے اصول وفروع اور اخوان میں سے بھی بہت سوں کو ہم نے مقام اجتبا اور ہدایت سے نوازا اجْتِبَاءٌ کے معنی ہیں چن لینا اور اپنے خاﺹ بندوں میں شمار کرنا اور ان کے ساتھ ملا لینا۔ یہجَبَيْتُ الْمَاءَ فِي الحَوْضِ( میں نے حوض میں پانی جمع کرلیا) سے مشتق ہے۔ پس اجْتِبَاءٌکا مطلب ہوا اپنے خاص بندوں میں ملا لینا۔اصْطِفَاءٌتخلیص اور اختیار بھی اسی معنی میں مستعمل ہے۔ جس کا مفعول مصطفیٰ (مجتبیٰ) مخلص اور مختار ہے۔ (فتح القدیر)

التفاسير:

external-link copy
88 : 6

ذٰلِكَ هُدَی اللّٰهِ یَهْدِیْ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ ؕ— وَلَوْ اَشْرَكُوْا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ۟

اللہ کی ہدایت ہی ہے جس کے ذریعے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے اس کی ہدایت کرتا ہے اور اگر فرضاً یہ حضرات بھی شرک کرتے تو جو کچھ یہ اعمال کرتے تھے وه سب اکارت ہوجاتے۔(1) info

(1) اٹھارہ انبیاء کے اسمائے گرامی ذکر کرکے اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے، اگر یہ حضرات بھی شرک کا ارتکاب کرلیتے تو ان کے سارے اعمال برباد ہوجاتے۔ جس طرح دوسرے مقام پر نبی (صلى الله عليه وسلم) سے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ“ (الزمر: 65) ”اے پیغمبر! اگر تو نے بھی شرک کیا تو تیرے سارے عمل برباد ہوجائیں گے“۔ حالانکہ پیغمبروں سے شرک کا صدور ممکن نہیں۔ مقصد امتوں کو شرک کی خطرناکی اور ہلاکت خیزی سے آگاہ کرنا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
89 : 6

اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ۚ— فَاِنْ یَّكْفُرْ بِهَا هٰۤؤُلَآءِ فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّیْسُوْا بِهَا بِكٰفِرِیْنَ ۟

یہ لوگ ایسے تھے کہ ہم نے ان کو کتاب اور حکمت اور نبوت عطا کی تھی سو اگر یہ لوگ نبوت کا انکار کریں(1) تو ہم نے اس کے لئے ایسے بہت سے لوگ مقرر کردیئے ہیں جو اس کے منکر نہیں ہیں۔(1) info

(1) اس سے مراد رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کے مخالفین، مشرکین اور کفار ہیں۔
(2) اس سے مراد مہاجرین وانصار اور قیامت تک آنے والے ایماندار ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
90 : 6

اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ هَدَی اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ ؕ— قُلْ لَّاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا ؕ— اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٰی لِلْعٰلَمِیْنَ ۟۠

یہی لوگ ایسے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی تھی، سو آپ بھی ان ہی کے طریق پر چلیئے(1) آپ کہہ دیجیئے کہ میں تم سے اس پر کوئی معاوضہ نہیں چاہتا(2) یہ تو صرف تمام جہان والوں کے واسطے ایک نصیحت ہے۔(3) info

(1) اس سے مراد انبیا مذکورین ہیں۔ ان کی اقتدا کا حکم مسئلہ توحید میں اور ان احکام وشرائع میں ہے جو منسوخ نہیں ہوئے۔ (فتح القدیر) کیونکہ اصول دین تمام شریعتوں میں ایک ہی رہے ہیں، گو شرائع اور مناہج میں کچھ کچھ اختلاف رہا۔ جیسا کہ آیت ”شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا“ (الشورى: 3) سے واضح ہے۔
(2) یعنی تبلیغ ودعوت کا، کیونکہ مجھے اس کا وہ صلہ ہی کافی ہے جو آخرت میں عنداللہ ملے گا۔
(3) جہان والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔ پس یہ قرآن انہیں کفر وشرک کے اندھیروں سے نکال کر ہدایت کی روشنی عطا کرے گا اور ضلالت کی پگڈنڈیوں سے نکال کر ایمان کی صراط مستقیم پر گامزن کردے گا۔ بشرطیکہ کوئی اس سے نصیحت حاصل کرنا چاہے، ورنہ ع دیدۂ کور کو کیا نظر آئے کیا دیکھیے۔ والا معاملہ ہوگا۔

التفاسير: