Translation of the Meanings of the Noble Qur'an - Urdu translation - Muhammad Junagarhi

شوریٰ

external-link copy
1 : 42

حٰمٓ ۟ۚ

حٰم. info
التفاسير:

external-link copy
2 : 42

عٓسٓقٓ ۟

عسق. info
التفاسير:

external-link copy
3 : 42

كَذٰلِكَ یُوْحِیْۤ اِلَیْكَ وَاِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكَ ۙ— اللّٰهُ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ ۟

اللہ تعالیٰ جو زبردست ہے اور حکمت واﻻ ہے اسی طرح تیری طرف اور تجھ سے اگلوں کی طرف وحی بھیجتا رہا.(1) info

(1) یعنی جس طرح یہ قرآن تیری طرف نازل کیا گیا ہے اسی طرح تجھ سے پہلے انبیا پر صحیفے اور کتابیں نازل کی گئیں۔ وحی، اللہ کا وہ کلام ہے جو فرشتے کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کے پاس بھیجتا رہا ہے۔ ایک صحابی نے رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) سے وحی کی کیفیت پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ کبھی تو یہ میرے پاس گھنٹی کی آواز کی مثل آتی ہے اور یہ مجھ پر سب سے سخت ہوتی ہے، جب یہ ختم ہوجاتی ہے تو مجھے یاد ہوچکی ہوتی ہے اور کبھی فرشتہ انسانی شکل میں آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے اور وہ جو کہتا ہے میں یاد کرلیتا ہوں۔ حضرت عائشہ (رضی الله عنها) فرماتی ہیں، میں نے سخت سردی میں مشاہدہ کیا جب وحی کی کیفیت ختم ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پسینے میں شرابور ہوتے اور آپ کی پیشانی سے پسینے کے قطرے گر رہے ہوتے۔ (صحیح بخاری، باب بدء الوحی)۔

التفاسير:

external-link copy
4 : 42

لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ؕ— وَهُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ ۟

آسمانوں کی (تمام) چیزیں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے وه برتر اور عظیم الشان ہے. info
التفاسير:

external-link copy
5 : 42

تَكَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْ فَوْقِهِنَّ وَالْمَلٰٓىِٕكَةُ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِمَنْ فِی الْاَرْضِ ؕ— اَلَاۤ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ۟

قریب ہے آسمان اوپر سے پھٹ پڑیں(1) اور تمام فرشتے اپنے رب کی پاکی تعریف کے ساتھ بیان کر رہے ہیں اور زمین والوں کے لیے استغفار کر رہے ہیں(2)۔ خوب سمجھ رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہی معاف فرمانے واﻻ رحمت واﻻ ہے.(3) info

(1) اللہ کی عظمت وجلال کی وجہ سے۔
(2) یہ مضمون سورۂ مؤمن کی آیت 7 میں بھی بیان ہوا ہے۔
(3) اپنے دوستوں اور اہل طاعت کے لیے یا تمام ہی بندوں کے لیے، کیونکہ کفار اور نافرمانوں کی فوراً گرفت نہ کرنا بلکہ انہیں ایک وقت معین تک مہلت دینا، یہ بھی اسی کی رحمت ومغفرت ہی کی قسم سے ہے۔

التفاسير:

external-link copy
6 : 42

وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءَ اللّٰهُ حَفِیْظٌ عَلَیْهِمْ ۖؗ— وَمَاۤ اَنْتَ عَلَیْهِمْ بِوَكِیْلٍ ۟

اور جن لوگوں نے اس کے سوا دوسروں کو کارساز بنالیا ہے اللہ تعالیٰ ان پر نگران(1) ہے اور آپ ان کے ذمہ دار نہیں ہیں.(2) info

(1) یعنی ان کے عملوں کو محفوظ کررہا ہے تاکہ اس پر ان کو جزا دے۔
(2) یعنی آپ اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ ان کو ہدایت کے راستے پر لگادیں یا ان کے گناہوں پر ان کا مواخذہ فرمائیں، بلکہ یہ کام ہمارے ہیں، آپ کا کام صرف ابلاغ (پہنچا دینا) ہے۔

التفاسير:

external-link copy
7 : 42

وَكَذٰلِكَ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا لِّتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰی وَمَنْ حَوْلَهَا وَتُنْذِرَ یَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَیْبَ فِیْهِ ؕ— فَرِیْقٌ فِی الْجَنَّةِ وَفَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِ ۟

اسی طرح ہم نے آپ کی طرف عربی قرآن کی وحی کی ہے(1) تاکہ آپ مکہ والوں کو اور اس کے آس پاس کے لوگوں کو خبردار کردیں(2) اور جمع ہونے کے دن سے جس(3) کے آنے میں کوئی شک نہیں ڈرا دیں۔ ایک گروه جنت میں ہوگا اور ایک گروه جہنم میں ہوگا.(4) info

(1) یعنی جس طرح ہم نے ہر رسول اس کی قوم کی زبان میں بھیجا، اسی طرح ہم نے آپ پر عربی زبان میں قرآن نازل کیا ہے، کیونکہ آپ کی قوم یہی زبان بولتی اور سمجھتی ہے۔
(2) أُمّ الْقُرَى، مکے کا نام ہے۔ اسے بستیوں کی ماں اس لیے کہا گیا کہ یہ عرب کی قدیم ترین بستی ہے۔ گویا یہ تمام بستیوں کی ماں ہے جنہوں نے اسی سے جنم لیا ہے۔ مراد اہل مکہ ہیں۔ وَمَنْ حَوْلَهَا میں اس کے شرق و غرب کے تمام علاقے شامل ہیں۔ ان سب کو ڈرائیں کہ اگر وہ کفر و شرک سے تائب نہ ہوئے تو عذاب الٰہی کے مستحق قرار پائیں گے۔
(3) قیامت والے دن کو جمع ہونے والا دن اس لیے کہا کہ اس میں اگلے پچھلے تمام انسان جمع ہوں گے علاوہ ازیں ظالم مظلوم اور مومن وکافر سب جمع ہوں گے اور اپنے اپنے اعمال کے مطابق جزا وسزا سے بہرہ ور ہوں گے۔
(4) جو اللہ کے حکموں کو بجالایا ہوگا اور اس کی منہیات ومحرمات سے دور رہا ہوگا وہ جنت میں اور اس کی نافرمانی اور محرمات کا ارتکاب کرنے والا جہنم میں ہوگا۔ یہی دو گروہ ہوں گے۔ تیسرا گروہ نہیں ہوگا۔

التفاسير:

external-link copy
8 : 42

وَلَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَهُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلٰكِنْ یُّدْخِلُ مَنْ یَّشَآءُ فِیْ رَحْمَتِهٖ ؕ— وَالظّٰلِمُوْنَ مَا لَهُمْ مِّنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیْرٍ ۟

اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان سب کو ایک ہی امت کا بنا دیتا(1) لیکن وه جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرلیتا ہے اور ﻇالموں کا حامی اور مددگار کوئی نہیں. info

(1) اس صورت میں قیامت والے دن صرف ایک ہی گروہ ہوتا یعنی اہل ایمان اور اہل جنت کا لیکن اللہ کی حکمت و مشیت نے اس جبر کو پسند نہیں کیا بلکہ انسانوں کو آزمانے کے لیے اس نے انسانوں کو ارادہ و اختیار کی آزادی دی، جس نے اس آزادی کا صحیح استعمال کیا، وہ اللہ کی رحمت کا مستحق ہوگیا،اور جس نے اس کا غلط استعمال کیا، اس نے ظلم کا ارتکاب کیا کہ اللہ کی دی ہوئی آزادی اور اختیار کو اللہ ہی کی نافرمانی میں استعمال کیا۔ چنانچہ ایسے ظالموں کا قیامت والے دن کوئی مددگار نہیں ہوگا۔

التفاسير:

external-link copy
9 : 42

اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءَ ۚ— فَاللّٰهُ هُوَ الْوَلِیُّ وَهُوَ یُحْیِ الْمَوْتٰی ؗ— وَهُوَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ۟۠

کیا ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کارساز بنالیے ہیں، (حقیقتاً تو) اللہ تعالیٰ ہی کارساز ہے وہی مُردوں کو زنده کرے گا اور وہی ہر چیز پر قادر ہے.(1) info

(1) جب یہ بات ہے تو پھر اللہ تعالیٰ ہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کو ولی اور کارساﺯ مانا جائے نہ کہ ان کو جن کے پاس کوئی اختیاری ہی نہیں ہے، اور جو سننے اور جواب دینے کی طاقت رکھتے ہیں، نہ نفع ونقصان پہنچانے کی صلاحیت۔

التفاسير:

external-link copy
10 : 42

وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْهِ مِنْ شَیْءٍ فَحُكْمُهٗۤ اِلَی اللّٰهِ ؕ— ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبِّیْ عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ ۖۗ— وَاِلَیْهِ اُنِیْبُ ۟

اور جس جس چیز میں تمہارا اختلاف ہو اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہے(1) ، یہی اللہ میرا رب ہے جس پر میں نے بھروسہ کر رکھا ہے اور جس کی طرف میں جھکتا ہوں. info

(1) اس اختلاف سے مراد دین کا اختلاف ہے جس طرح یہودیت، عیسائیت اور اسلام وغیرہ میں آپس میں اختلافات ہیں اور ہر مذہب کا پیروکار دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا دین سچا ہے، دراں حالیکہ سارے دین بیک وقت صحیح نہیں ہوسکتے۔ سچا دین تو صرف ایک ہی ہے اور ایک ہی ہوسکتا ہے۔ دنیا میں سچا دین اور حق کا راستہ پہچاننے کے لیے اللہ تعالیٰ کا قرآن موجود ہے۔ لیکن دنیا میں لوگ اس کلام الٰہی کو اپنا حکم اور ثالث ماننے کے لیے تیار نہیں۔ بالآخر پھر قیامت کا دن ہی رہ جاتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ ان اختلافات کا فیصلہ فرمائے گا اور سچوں کو جنت میں اور دوسروں کو جہنم میں داخل فرمائے گا۔

التفاسير: