(1) یعنی خود آسمانوں کو یا ان میں آباد فرشتوں کو مخصوص کاموں اور اورادوظائف کا پابند کر دیا۔
(2) یعنی شیطان سے نگہبانی، جیساکہ دوسرے مقام پر وضاحت ہے، ستاروں کا ایک تیسرا مقصد دوسری جگہ اھتداء (راستہ معلوم کرنا) بھی بیان کیا گیا ہے (النحل: 16)۔
(1) یعنی چونکہ تم ہماری طرح ہی کے انسان ہو، اس لیے ہم تمہیں نبی نہیں مان سکتے۔ اللہ تعالیٰ کو نبی بھیجنا ہوتا تو فرشتوں کو بھیجتا نہ کہ انسانوں کو۔
(1) اس فقرے سے ان کا مقصودیہ تھا کہ وہ عذاب روک لینےپرقادر ہیں، کیونکہ وہ دراز قد اور نہایت زورآور تھے۔ یہ انہوں نے اس وقت کہا جب ان کے پیغمبر حضرت ہود (عليه السلام) نے ان کو انذار وتنبیہ کے لیے عذاب الٰہی سے ڈرایا۔
(2) یعنی کیا وہ اللہ سےبھی زیادہ زور آور ہیں، جس نے انہیں پیدا کیااور انہیں قوت و طاقت سے نوازا۔ کیا ان کو بنانے کے بعد اس کی اپنی قوت و طاقت ختم ہو گئی ہے؟ یہ استفہام، استنکار اور توبیخ کےلیے ہے۔
(3) ان معجزات کا جو انبیا کو ہم نے دیئے تھے، یا ان دلائل کاجو پیغمبروں کےساتھ نازل کیے تھے یا ان آیات تکوینیہ کا جو کائنات میں پھیلی اور بکھری ہوئی ہیں۔
(1) صَرْصَرٍ صُرَّةٌ (آواز) سے ہے یعنی ایسی ہوا جس میں سخت آواز تھی۔ یعنی نہایت تند اور تیز ہوا، جس میں آواز بھی ہوتی ہے۔ بعض کہتے ہیں یہ صرسے ہے، جس کے معنی برد (ٹھنڈک) کے ہیں۔ یعنی ایسی پالے والی ہوا جو آگ کی طرح جلا ڈالتی ہے۔ امام ابن کثیر فرماتےہیں وَالْحَقُّ أَنَّهَا مُتَّصِفَةٌ بِجَمِيعِ ذَلِكَ، وہ ہوا ان تمام ہی باتوں سے متصف تھی۔
(2) نَحِسَاتٌ کا ترجمہ، بعض نے متواتر پے در پے کا کیا ہے۔ کیونکہ یہ ہوا سات راتیں اور آٹھ دن مسلسل چلتی رہی بعض نے سخت، بعض نے گرد وغبار والے اور بعض نے نحوست والے کیا ہے، آخری ترجمہ کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ ایام جن میں ان پر سخت ہوا کا طوفان جاری رہا، ان کے لیے منحوس ثابت ہوئے۔ یہ نہیں کہ ایام ہی مطلقاً منحوس ہیں۔
(1) یعنی ان کو توحید کی دعوت دی، اس کے دلائل ان کےسامنے واضح کیے اور ان کے پیغمبر حضرت صالح (عليه السلام) کے ذریعے سے ان پر حجت تمام کی۔
(2) یعنی انہوں نے مخالفت اور تکذیب کی، حتیٰ کہ اس اونٹنی تک کو ذبح کر ڈالا جو بطور معجزہ، ان کی خواہش پر چٹان سے ظاہر کی گئی تھی اورپیغمبر کی صداقت کی دلیل تھی۔
(3) صَاعِقَةٌ، عذاب شدید کو کہتے ہیں، ان پریہ سخت عذاب چنگھاڑ اور زلزلے کی صورت میں آیا، جس نے انہیں ذلت و رسوائی کے ساتھ تباہ وبر باد کر دیا۔
(1) یہاں اذْكُرْ محذوف ہے، وہ وقت یاد کرو جب اللہ کے دشمنوں کو جہنم کے فرشتے جمع کریں گے یعنی اول سے آخر تک کے دشمنوں کا اجتماﻉ ہو گا۔
(2) أَيْ: يُحْبَسُ أَوَّلُهُم عَلَى آخِرِهِمْ لِيُلاحِقُوا(فتح القدیر) یعنی ان کو روک روک کر اول و آخر کو باہم جمع کیا جائے گا۔ (اس لفظ کی مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورۃ النمل آیت نمبر 17 کا حاشیہ)۔
(1) یعنی جب وہ اس بات سے انکار کریں گے کہ انہوں نے شرک کا ارتکاب کیا، تو اللہ تعالیٰ ان کےمونہوں پر مہر لگا دے گا اور ان کے اعضاء بول کر گواہی دیں گے کہ یہ فلاں فلاں کام کرتے رہے إِذَا مَا جَاءُواهَا میں مَا زائد ہے تاکید کے لیے . انسان کے اندر پانچ حواس ہیں۔ یہاں دو کا ذکر ہے۔ تیسری جلد (کھال) کا ذکر ہے جو مس یا لمس کا آلہ ہے۔ یوں حواس کی تین قسمیں ہو گئیں۔ باقی دو حواس کا ذکر اس لیے نہیں کیا کہ ذوق (چکھنا) بوجوہ لمس میں داخل ہے، کیونکہ یہ چکھنا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اس شے کو زبان کی جلد پر نہ رکھا جائے۔ اسی طرح سونگھنا (شم) اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وہ شئے ناک کی جلد پر نہ گزرے۔ اس اعتبار سے جلود کے لفظ میں تین حواس آجاتے ہیں۔ (فتح القدیر)