(1) یعنی جسے مانے اور جس پر ایمان لائے بغیر چارہ نہ ہوتا۔ لیکن اس طرح جبر کا پہلو شامل ہو جاتا، جب کہ ہم نے انسان کو ارادہ واختیار کی آزادی دی ہے تاکہ اس کی آزمائش کی جائے۔ اس لیے ہم نے ایسی نشانی بھی اتارنے سے گریز کیا، جس سے ہمارا یہ قانون متاثر ہو۔ اور صرف انبیا ورسل بھیجنے اور کتابیں نازل کرنے پر ہی اکتفا کیا۔
(1) یعنی تکذیب کے نتیجے میں ہمارا عذاب عنقریب انہیں اپنی گرفت میں لے لے گا، جسے وہ ناممکن سمجھ کر استہزا ومذاق کرتے ہیں۔ یہ عذاب دنیا میں بھی ممکن ہے، جیسا کہ کئی قومیں تباہ ہوئیں، بصورت دیگرآخرت میں تو اس سےکسی صورت چھٹکارا نہیں ہوگا۔ «مَا كَانُوا عَنْهُ مُعْرِضِين» َ نہیں کہا بلکہ «مَا كَانُوا بِه يَسْتَهْزِءُونَ» کہا۔ کیوں کہ استہزا ایک تو اعراض و تکذیب کوبھی مستلزم ہے۔ دوسرے، یہ اعراض و تکذیب سے زیادہ بڑاجرم ہے (فتح القدیر)
(1) زَوْجٌ کے دوسرے معنی یہاں صنف اور نوع کے کیے گئے ہیں۔ یعنی ہر قسم کی چیزیں ہم نے پیدا کیں جو کریم ہیں یعنی انسان کےلیے بہتر اور فائدے مند ہیں جس طرح غلہ جات ہیں، پھل میوےہیں اور حیوانات وغیرہ ہیں۔
(1) یعنی جب اللہ تعالیٰ مردہ زمین سے یہ چیزیں پیدا کرسکتا ہے، تو کیا وہ انسانوں کو دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا۔
(2) یعنی اس کی یہ عظیم قدرت دیکھنے کے باوجود اکثر لوگ اللہ اور رسول کی تکذیب ہی کرتے ہیں، ایمان نہیں لاتے۔
(1) یہ رب کی اس وقت کی ندا ہے جب حضرت موسیٰ (عليه السلام) مدین سے اپنی اہلیہ کے ہمراہ واپس آرہے تھے، راستے میں انہیں حرارت حاصل کرنے کے لیے آگ کی ضرورت محسوس ہوئی تو آگ کی تلاش میں کوہ طور پہنچ گئے، جہاں ندائے غیبی نے ان کااستقبال کیا اورانہیں نبوت سے سرفراز کردیاگیا اور ظالموں کواللہ کاپیغام پہنچانے کا فریضہ ان کو سونپ دیاگیا۔
(1) اس خوف سے کہ وہ نہایت سرکش ہے، میری تکذیب کرے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ طبعی خوف انبیا کو بھی لاحق ہوسکتا ہے۔
(2) یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ حضرت موسیٰ (عليه السلام) زیادہ فصیح اللسان نہیں تھے۔ یا اس طرف کہ زبان پر انگارہ رکھنے کی وجہ سے لکنت پیدا ہوگئی تھی، جسے اہل تفسیر بیان کرتےہیں۔
(3) یعنی ان کی طرف جبرائیل (عليه السلام) کو وحی دے کر بھیج اور انہیں بھی وحی و نبوت سے سرفراز فرما کر میرا معاون بنا۔
(1) یہ اشارہ ہے اس قتل کی طرف، جو حضرت موسیٰ (عليه السلام) سے غیر ارادی طور پر ہوگیا تھا اور مقتول قبطی یعنی فرعون کی قوم سے تھا، اس لیے فرعون اس کےبدلے میں حضرت موسیٰ (عليه السلام) کو قتل کرنا چاہتا تھا، جس کی اطلاع پاکر حضرت موسیٰ (عليه السلام) مصر سے مدین چلے گئے تھے۔ اس واقعے پر اگرچہ کئی سال گزر چکے تھے، مگر فرعون کے پاس جانے میں واقعی یہ امکان موجود تھا کہ فرعون ان کو اس جرم میں پکڑ کر قتل کی سزا دینےکی کوشش کرے۔ اس لیے یہ خوف بھی بلا جواز نہیں تھا۔
(1) اللہ تعالیٰ نےتسلی دی کہ تم دونوں جاؤ، میرا پیغام اس کو پہنچاؤ، تمہیں جو اندیشے لاحق ہیں ان سے ہم تمہاری حفاظت کریں گے۔ آیات سے مراد وہ دلائل و براہین ہیں جن سے ہر پیغمبر کو آگاہ کیا جاتا ہے یا وہ معجزات ہیں جو حضرت موسیٰ (عليه السلام) کو دیئے گئے تھے، جیسے یدبیضا اور عصا۔
(2) یعنی تم جو کچھ کہو گے اور اس کے جواب میں وہ جو کچھ کہے گا، ہم سن رہے ہوں گے۔ اس لیے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہم تمہیں فریضۂ رسالت سونپ کر تمہاری حفاظت سے بے پرواہ نہیں ہو جائیں گے۔ بلکہ ہماری مدد تمہارے ساتھ ہے۔ معیت کامطلب مصاحبت نہیں، بلکہ نصرت و معاونت ہے۔
(1) یعنی ایک بات یہ کہو کہ ہم تیرے پاس اپنی مرضی سے نہیں آئے بلکہ رب العالمین کے نمائندے اور اس کے رسول کی حیثیت سے آئے ہیں اور دوسری بات یہ کہ تو نے (چار سو سال سے) بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے، ان کو آزاد کردے تاکہ میں انہیں شام کی سرز مین پر لے جاؤں، جس کا اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہوا ہے۔
(1) فرعون نے حضرت موسیٰ (عليه السلام) کی دعوت اور مطالبے پر غور کرنے کے بجائے ، ان کی تحقیر و تنقیص کرنی شروع کر دی اور کہا کہ کیا تو وہی نہیں ہے جو ہماری گود میں اور ہمارے گھر میں پلا ، جب کہ ہم بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کر ڈالتے تھے؟
(2) بعض کہتے ہیں کہ 18 سال فرعون کے محل میں بسر کیے، بعض کے نزدیک 30 اور بعض کے نزدیک چالیس سال۔ یعنی اتنی عمر ہمارے پاس گزارنے کے بعد، چند سال ادھر ادھر رہ کر اب تو نبوت کا دعویٰ کرنے لگا ہے؟