(1) وقت حساب سے مراد قیامت ہے جو ہر گھڑی قریب سے قریب تر ہو رہی ہے۔ اور وہ ہرچیز جو آنے والی ہے، قریب ہے۔ اور ہر انسان کی موت بجائے خود اس کے لئے قیامت ہے۔ علاوہ ازیں گزرے ہوئے زمانے کے لحاظ سے بھی قیامت قریب ہے کیونکہ جتنا زمانہ گزر چکا ہے۔ باقی رہ جانے والا زمانہ اس سے کم ہے۔
(2) یعنی اس کی تیاری سے غافل، دنیا کی زینتوں میں گم اور ایمان کے تقاضوں سے بےخبر ہیں۔
(1) یعنی قرآن جو وقتاً فوقتاً حسب حالات و ضروریات نیا نیا اترتا رہتا ہے، وہ اگرچہ انہی کی نصیحت کے لئے اترتا ہے، لیکن وہ اسے اس طرح سنتے ہیں جیسے وہ اس سے استہزاء مذاق اور کھیل کر رہے ہوں یعنی اس میں تدبر و غور و فکر نہیں کرتے۔
(1) یعنی نبی کا بشر ہونا ان کے لئے ناقابل قبول ہے پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ تم دیکھ نہیں رہے کہ یہ تو جادوگر ہے، تم اس کے جادو میں دیکھتے بھالتے کیوں پھنستے ہو۔
(1) وہ تمام بندوں کی باتیں سنتا ہے اور سب کے اعمال سے واقف ہے، تم جو جھوٹ بکتے ہو، اسے سن رہا ہے اور میری سچائی کو اور جو دعوت تمہیں دے رہا ہوں، اس کی حقیقت کو خوب جانتا ہے۔
(1) ان سرگوشی کرنے والے ظالموں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ کہا کہ یہ قرآن تو پریشان خواب کی طرح حیران کن افکار کا مجموعہ، بلکہ اس کا اپنا گھڑا ہوا ہے، بلکہ یہ شاعر ہے اور یہ قرآن کتاب ہدایت نہیں، شاعری ہے۔ یعنی کسی ایک بات پر ان کو قرار نہیں ہے۔ ہر روز ایک نیا پینترا بدلتے اور نئی سے نئی الزام تراشی کرتے ہیں۔
(2) یعنی جس طرح ثمود کے لئے اونٹنی، موسیٰ (عليه السلام) کے لئے عصا اور ید بیضا وغیرہ۔
(1) یعنی ان سے پہلے جتنی بستیاں ہم نے ہلاک کیں، یہ نہیں ہوا کہ ان کی حسب خواہش معجزہ دکھلانے پر ایمان لے آئی ہوں، بلکہ معجزہ دیکھ لینے کے باوجود وہ ایمان نہیں لائیں، جس کے نتیجے میں ہلاکت ان کا مقدر بنی تو کیا اگر اہل مکہ کو ان کی خواہش کے مطابق کوئی نشانی دکھلا دی جائے، تو وہ ایمان لے آئیں گے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ یہ بھی تکذیب و عناد کے راستے پر ہی بدستور گامزن رہیں گے۔
(1) یعنی تمام نبی مرد انسان تھے، نہ کوئی غیر انسان کبھی نبی آیا اور نہ غیر مرد، گویا نبوت انسانوں کے ساتھ اور انسانوں میں بھی مردوں کے ساتھ ہی خاص رہی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی عورت نبی نہیں بنی۔ اس لئے نبوت بھی ان کے فرائض میں سے ہے جو عورت کو طبعی اور فطری دائرہ عمل سے خارج ہے۔
(2) أَهْلَ الذِّكْرِ (اہل علم) سے مراد اہل کتاب ہیں، جو سابقہ آسمانی کتابوں کا علم رکھتے تھے، ان سے پوچھ لو کہ پچھلے انبیاء جو بھی گزرے ہیں، وہ انسان تھے یا غیر انسان؟ وہ تمہیں بتلائیں گے کہ تمام انبیاء انسان ہی تھے۔ اس سے بعض حضرات ”تقلید“ کا اثبات کرتے ہیں، جو غلط ہے۔ ”تقلید“ یہ ہے کہ ایک معین شخص، اور اس کی طرف منسوب ایک معین فقہ کو مرجع بنایا جائے اور اسی پر عمل کیا جائے۔ دوسرا، یہ کہ بغیر دلیل کے اس بات کو تسلیم کیا جائے جب کہ آیت میں اہل الذکر سے مراد کوئی متعین شخص نہیں ہے۔ بلکہ ہر وہ عالم ہے جو تورات و انجیل کا علم رکھتا تھا۔ اس سے تو تقلید شخصی کی نفی ہوتی ہے۔ اس میں تو علماء کی طرف رجوع کرنے کی تاکید ہے، جو عوام کے لئے ناگزیر ہے، جس سے کسی کو مجال انکار نہیں ہے۔ نہ کہ کسی ایک ہی شخصیت کا دامن پکڑ لینے کا حکم ۔ علاوہ ازیں تورات و انجیل، منصوص کتابیں تھیں یا انسانوں کی خود ساختہ فقہیں؟ اگر وہ آسمانی کتابیں تھیں تو مطلب یہ ہوا کہ علماء کے ذریعے سے نصوص شریعت معلوم کریں، جو آیت کا صحیح مفہوم ہے۔
(1) بلکہ وہ کھانا بھی کھاتے تھے اور موت سے بھی ہم کنار ہو کر مسافر عالم بقاء بھی ہوئے، یہ انبیاء کی بشریت ہی کی دلیل دی جا رہی ہے۔
(1) یعنی وعدے کے مطابق نبیوں کو اور اہل ایمان کو نجات عطا کی اور حد سے تجاوز کرنے والے یعنی کفار و مشرکین کو ہم نے ہلاک کر دیا۔