Translation of the Meanings of the Noble Qur'an - Urdu translation - Muhammad Junagarhi

طٰہ

external-link copy
1 : 20

طٰهٰ ۟

طٰہٰ. info
التفاسير:

external-link copy
2 : 20

مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤی ۟ۙ

ہم نے یہ قرآن تجھ پر اس لئے نہیں اتارا کہ تو مشقت میں پڑ جائے.(1) info

(1) اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے قرآن اس لئے نہیں اتارا کہ تو ان کے کفر پر کثرت افسوس اور ان کے عدم ایمان پر حسرت سے اپنے آپ کو مشقت میں ڈال لے اور غم میں پڑ جائے جیسا کہ اس آیت میں اشارہ ہے۔ «فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا» (الكهف ۔6) ”پس اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو کیا ان کے پیچھے اسی رنج میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے“، بلکہ ہم نے تو قرآن کو نصیحت اور یاد دہانی کے لیے اتارا ہے تاکہ ہر انسان کے تحت الشعور میں ہماری توحید کا جو جذبہ چھپا ہوا ہے۔ واضح اور نمایاں ہو جائے گویا یہاں شَقَاءٌ عَنَاءٌ اور تَعَبٌ کے معنی میں ہے یعنی تکلیف اور تھکاوٹ۔

التفاسير:

external-link copy
3 : 20

اِلَّا تَذْكِرَةً لِّمَنْ یَّخْشٰی ۟ۙ

بلکہ اس کی نصیحت کے لئے جو اللہ سے ڈرتا ہے. info
التفاسير:

external-link copy
4 : 20

تَنْزِیْلًا مِّمَّنْ خَلَقَ الْاَرْضَ وَالسَّمٰوٰتِ الْعُلٰی ۟ؕ

اس کا اتارنا اس کی طرف سے ہے جس نے زمین کو اور بلند آسمانوں کو پیدا کیا ہے. info
التفاسير:

external-link copy
5 : 20

اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی ۟

جو رحمٰن ہے، عرش پر قائم ہے.(1) info

(1) بغیر کسی حد بندی اور کیفیت بیان کرنے کے، جس طرح کہ اس کی شان کے لائق ہے یعنی اللہ تعالٰی عرش پر قائم ہے، لیکن کس طرح اور کیسے؟ یہ کیفیت کسی کو معلوم نہیں۔

التفاسير:

external-link copy
6 : 20

لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّرٰی ۟

جس کی ملکیت آسمانوں اور زمین اور ان دونوں کے درمیان اور (کرہٴ خاک) کے نیچے کی ہر ایک چیز پر ہے.(1) info

(1) ثَرَى ٰ کے معنی ہیں اسفل السافلین یعنی زمین کا سب سے نچلا حصہ۔

التفاسير:

external-link copy
7 : 20

وَاِنْ تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَاِنَّهٗ یَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰی ۟

اگر تو اونچی بات کہے تو وه تو ہر ایک پوشیده، بلکہ پوشیده سے پوشیده تر چیز کو بھی بخوبی جانتا ہے.(1) info

(1) یعنی اللہ کا ذکر یا اس سے دعا اونچی آواز میں کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہ پوشیدہ سے پوشیدہ تر بات کو بھی جانتا ہے یا أَخْفَىٰ کے معنی ہیں کہ اللہ تو ان باتوں کو بھی جانتا ہے جن کو اس نے تقدیر میں لکھ دیا اور ابھی تک لوگوں سے مخفی رکھا ہے۔ یعنی قیامت تک وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا اسے علم ہے۔

التفاسير:

external-link copy
8 : 20

اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ؕ— لَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی ۟

وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، بہترین نام اسی کے ہیں.(1) info

(1) یعنی معبود وہی ہے جو مذکورہ صفات سے متصف ہے اور بہترین نام بھی اسی کے ہیں جن سے اس کو پکارا جاتا ہے۔ نہ معبود اس کے سوا کوئی اور ہے اور نہ اس کے اسمائے حسنٰی ہی کسی کے ہیں۔ پس اسی کی صحیح معرفت حاصل کر کے اُسی سے ڈرایا جائے، اسی سے محبت رکھی جائے، اسی پر ایمان لایا جائے اور اسی کی اطاعت کی جائے۔ تاکہ انسان جب اس کی بارگاہ میں واپس جائے تو وہاں شرمسار نہ ہو بلکہ اس کی رحمت و مغفرت سے شاد کام اور اس کی رضا سے سعادت مند ہو۔

التفاسير:

external-link copy
9 : 20

وَهَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ مُوْسٰی ۟ۘ

تجھے موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ بھی معلوم ہے؟ info
التفاسير:

external-link copy
10 : 20

اِذْ رَاٰ نَارًا فَقَالَ لِاَهْلِهِ امْكُثُوْۤا اِنِّیْۤ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّیْۤ اٰتِیْكُمْ مِّنْهَا بِقَبَسٍ اَوْ اَجِدُ عَلَی النَّارِ هُدًی ۟

جبکہ اس نے آگ دیکھ کر اپنے گھر والوں سے کہا کہ تم ذرا سی دیر ٹھہر جاؤ مجھے آگ دکھائی دی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ میں اس کا کوئی انگارا تمہارے پاس ﻻؤں یا آگ کے پاس سے راستے کی اطلاع پاؤں.(1) info

(1) یہ اس وقت کا واقعہ ہے۔ جب موسیٰ (عليه السلام) مدین سے اپنی بیوی کے ہمراہ (جو ایک قول کے مطابق حضرت شعیب عليه السلام کی دختر نیک اختر تھیں) اپنی والدہ کی طرف سے واپس جا رہے تھے، اندھیری رات تھی اور راستہ بھی نامعلوم۔ بعض مفسرین کے بقول بیوی کی زچگی کا وقت بالکل قریب تھا اور انہیں حرارت کی ضرورت تھی۔ یا سردی کی وجہ سے گرمی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اتنے میں دور سے انہیں آگ کے شعلے بلند ہوتے ہوئے نظر آئے۔ گھر والوں سے یعنی بیوی سے (یا بعض کہتے ہیں خادم اور بچہ بھی تھا اس لئے جمع کا لفظ استعمال فرمایا) کہا تم یہاں ٹھہرو! شاید میں آگ کا کوئی انگارا وہاں سے لے آؤں یا کم از کم وہاں سے راستے کی نشان دہی ہو جائے۔

التفاسير:

external-link copy
11 : 20

فَلَمَّاۤ اَتٰىهَا نُوْدِیَ یٰمُوْسٰی ۟ؕ

جب وه وہاں پہنچے تو آواز دی گئی(1) اے موسیٰ! info

(1) موسیٰ (عليه السلام) جب آگ والی جگہ پہنچے تو وہاں ایک درخت سے (جیسا کہ سورہ قصص: 30 میں صراحت ہے) آواز آئی۔

التفاسير:

external-link copy
12 : 20

اِنِّیْۤ اَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَیْكَ ۚ— اِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًی ۟ؕ

یقیناً میں ہی تیرا پروردگار ہوں تو اپنی جوتیاں اتار دے(1) ، کیونکہ تو پاک میدان طویٰ میں ہے.(2) info

(1) جوتیاں اتارنے کا حکم اس لئے دیا کہ اس میں تواضع کا اظہار اور شرف و تکریم کا پہلو زیادہ ہے، بعض کہتے ہیں کہ وہ ایسے گدھے کی کھال کی بنی ہوئی تھی جو غیر مدبوغ تھی۔ کیوں کہ جانور کی کھال دباغت کے بعد ہی پاک ہوتی ہے، مگر یہ قول محل نظر ہے۔ دباغت کے بغیر جوتیاں کیوں کر بن سکتی ہیں؟ یا وادی کی پاکیزگی اس کا سبب تھا، جیسا کہ قرآن کے الفاظ سے واضح ہوتا ہے۔ تاہم اس کے دو پہلو ہیں۔ یہ حکم وادی کی تعظیم کے لئے تھا یا اس لئے کہ وادی کی پاکیزگی کے اثرات ننگے پیر ہونے کی صورت میں موسیٰ (عليه السلام) کے اندر زیادہ جذب ہو سکیں۔ واللہ اعلم۔
(2) طُوًى وادی کا نام ہے، اسے بعض نے منصرف اور بعض نے غیر منصرف کہا ہے (فتح القدیر)

التفاسير: