(1) یعنی ان کی پیدائش کا اصل مقصد اور فائدہ تو ان پر سواری کرنا ہے تاہم زینت کا بھی باعث ہیں، گھوڑے خچر، اور گدھوں کے الگ ذکر کرنے سے بعض فقہاء نے استدلال کیا ہے کہ گھوڑا بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح گدھا اور خچر۔ علاوہ ازیں کھانے والے چوپاؤں کا پہلے ذکر آ چکا ہے۔ اس لئے اس آیت میں جن تین جانوروں کا ذکر ہے، یہ صرف رکوب (سواری) کے لئے ہے۔ لیکن یہ استدلال اس لئے صحیح نہیں کہ صحیح احادیث سے گھوڑے کی حلت ثابت ہے۔ حضرت جابر (رضي الله عنه) روایت کرتے ہیں کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے گھوڑوں کا گوشت کھانے کی اجازت دی ہے۔ ”أَذِنَ فِي لُحُومِ الْخَيْلِ“ (صحيح بخاري، كتاب الذبائح، باب لحوم الخيل، ومسلم كتاب الصيد، باب في أكل لحوم الخيل) علاوہ ازیں صحابہ کرام (رضي الله عنهم) نے نبی (صلى الله عليه وسلم) کی موجودگی میں خیبر اور مدینہ میں گھوڑا ذبح کرکے اس کا گوشت پکایا اور کھایا۔ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے منع نہیں فرمایا (ملاحظہ ہو صحيح مسلم، باب مذكور ومسند أحمد، ج 3 ص 356، أبو داود كتاب الأطعمة، باب في أكل لحوم الخيل) اسی لئے جمہور علماء اور سلف و خلف کی اکثریت گھوڑے کی حلت کی قائل ہے۔ (تفسیر ابن کثیر)۔ یہاں گھوڑے کا ذکر محض سواری کے ضمن میں اس لئے کیا گیا ہے کہ اس کا غلب ترین استعمال اسی مقصد کے لئے ہے، وہ ساری دنیا میں ہمیشہ اتنا گراں اور قیمتی ہوا کرتا ہے کہ خوراک کے طور پر اس کا استعمال بہت ہی نادر ہے۔ بھیڑ بکری کی طرح اس کو خوراک کے لئے ذبح نہیں کیا جاتا۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ اس کو بلا دلیل حرام ٹھہرادیا جائے۔ (2) زمین کے زیریں حصے میں، اسی طرح سمندر میں، اور بے آب وگیاہ صحراؤں اور جنگلوں میں اللہ تعالٰی مخلوق پیدا فرماتا رہتا ہے جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں اور اسی میں انسان کی بنائی ہوئی وہ چیزیں بھی آ جاتی ہیں جو اللہ کے دیئے ہوئے دماغ اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اسی کی پیدا کردہ چیزوں کو مختلف انداز میں جوڑ کر تیار کرتا ہے، مثلاً بس، کار، ریل گاڑی، جہاز اور ہوائی جہاز اور اس طرح کی بیشمار چیزیں اور جو مستقبل میں متوقع ہیں۔
(1) اس کے ایک دوسرے معنی ہیں ”اور اللہ ہی پر ہے سیدھی راہ“ یعنی اس کا بیان کرنا۔ چنانچہ اس نے اسے بیان فرما دیا اور ہدایت اور ضلالت دونوں کو واضح کر دیا، اسی لئے آگے فرمایا کہ بعض راہیں ٹیڑھی ہیں یعنی گمراہی کی ہیں۔
(2) لیکن اس میں چوں کہ جبر ہوتا اور انسان کی آزمائش نہیں ہوتی، اس لئے اللہ نے اپنی مشیت سے سب کو مجبور نہیں کیا، بلکہ دونوں راستوں کی نشاندہی کر کے، انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دی ہے۔
(1) اس میں بارش کے وہ فوائد بیان کئے گئے ہیں، جو ہر مشاہدے اور تجربے کا حصہ ہیں وہ محتاج وضاحت نہیں۔ نیز ان کا ذکر پہلے آ چکا ہے۔
(1) کس طرح رات اور دن چھوٹے بڑے ہوتے ہیں، چاند اور سورج کس طرح اپنی اپنی منزلوں کی طرف رواں دواں رہتے ہیں اور ان میں کبھی فرق واقع نہیں ہوتا، ستارے کس طرح آسمان کی زینت اور رات کے اندھیروں میں بھٹکے ہوئے مسافروں کے لئے دلیل راہ ہیں۔ یہ سب اللہ تعالٰی کی قدرت کاملہ اور سلطنت عظیمہ پر دلالت کرتے ہیں۔
(1) یعنی زمین میں اللہ نے جو معدنیات، نباتات، جمادات اور حیوانات اور ان کے منافع اور خواص پیدا کئے ہیں، ان میں بھی نصیحت حاصل کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔
(1) اس میں سمندری تلاطم خیز موجوں کو انسان کے تابع کر دینے کے بیان کے ساتھ، اس کے تین فوائد بھی ذکر کئے ہیں۔ ایک یہ کہ تم اس سے مچھلی کی شکل میں تازہ گوشت کھاتے ہو (مچھلی مردہ بھی ہو تب بھی حلال ہے)۔ علاوہ ازیں حالت احرام میں بھی اس کو شکار کرنا حلال ہے۔ دوسرا، اس سے تم موتی، سیپیاں اور جواہر نکالتے ہو، جن سے تم زیور بناتے ہو۔ تیسرا، اس میں تم کشتیاں اور جہاز چلاتے ہو، جن کے ذریعے سے تم ایک ملک سے دوسرے ملک میں جاتے ہو، تجارتی سامان بھی لاتے ہو، لے جاتے ہو، جس سے تمہیں اللہ کا فضل حاصل ہوتا ہے جس پر تمہیں اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیئے۔