(1) ستر کا عدد مبالغے اور تکثیر کے لئے ہے۔ یعنی تو کتنی ہی کثرت سے ان کے لئے استغفار کر لے اللہ تعالٰی انہیں ہرگز معاف نہیں فرمائے گا۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ ستر مرتبہ سے زائد استغفار کرنے پر ان کو معافی مل جائے گی۔
(2) یہ عدم مغفرت کی علت بیان کر دی گئی ہے تاکہ لوگ کسی کی سفارش کی امید پر نہ رہیں بلکہ ایمان اور عمل صالح کی پونجی لے کر اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوں۔ اگر یہ زاد آخرت کسی کے پاس نہیں ہوگا تو ایسے کافروں اور نافرمانوں کی کوئی شفاعت ہی نہیں کرے گا، اس لئے اللہ تعالٰی ایسے لوگوں کے لئے شفاعت کی اجازت ہی نہیں دے گا۔
(3) اس ہدایت سے مراد وہ ہدایت ہے جو انسان کو مطلوب (ایمان) تک پہنچا دیتی ہے ورنہ ہدایت بمعنی رہنمائی یعنی راستے کی نشان دہی۔ اس کا اہتمام تو دنیا میں ہر مومن و کافر کے لیے کر دیا گیا ہے «اِنَّا هَدَيْنٰهُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا» (الدہر: 3) «وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ» (البلد: 10) ”اور ہم نے اس کو (خیروشر کے) کے دونوں راستے دکھا دیئے ہیں“۔
(1) یہ ان منافقین کا ذکر ہے جو تبوک میں نہیں گئے اور جھوٹے عذر پیش کر کے اجازت حاصل کرلی۔ خلاف کے معنی ہیں پیچھے یا مخالفت۔ یعنی رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کے جانے کے بعد آپ کے پیچھے یا آپ کی مخالفت میں مدینہ میں بیٹھے رہے۔
(2) یعنی اگر ان کو یہ علم ہوتا کہ جہنم کی آگ کی گرمی کے مقابلے میں، دنیا کی گرمی کوئی حیثیت نہیں رکھتی، تو وہ کبھی پیچھے نہ رہتے۔ حدیث میں آتا ہے کہ دنیا کی یہ آگ جہنم کی آگ کا 70 واں حصہ ہے۔ یعنی جہنم کی آگ کی شدت دنیا کی آگ سے 69 حصے زیادہ ہے۔ (صحيح بخاري- بدء الخلق باب صفة النار) اللهم احفظنا منها
(1) قَلِيلا اور كَثِيرًا ٍیا تو مصدریت (یعنی ضِحْكًا قَلِيلا اور بُكَاءً كَثِيرًا) یا ظرفیت یعنی (زَمَانًا قَلِيلا وَزَمَانًا كَثِيرًا) کی بنیاد پر منصوب ہے اور امر کے دونوں صیغے بمعنی خبر ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہنسیں گے تو تھوڑا اور روئیں گے بہت زیادہ۔
(1) منافقین کی جماعت مراد ہے۔ یعنی اگر اللہ تعالٰی آپ کو صحیح سلامت تبوک سے مدینہ واپس لے آئے جہاں یہ پیچھے رہ جانے والے منافقین بھی ہیں۔
(2) یعنی کسی اور جنگ کے لئے، ساتھ جانے کی خواہش ظاہر کریں۔
(3) یہ آئندہ ساتھ نہ لے جانے کی علت ہے کہ تم پہلی مرتبہ ساتھ نہیں گئے۔ لہذا اب تم اس لائق نہیں کہ تمہیں کسی بھی جنگ میں ساتھ لے جایا جائے۔
(4) یعنی اب تمہاری اوقات یہی ہے کہ تم عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے ساتھ ہی بیٹھے رہو، جو جنگ میں شرکت کرنے کے بجائے گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں، نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کو یہ ہدایت اس لئے دی گئی ہے تاکہ ان کے اس ہم و غم اور حسرت میں اور اضافہ ہو جو انہیں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے تھا۔ (اگر تھا)
(1) یہ آیت اگرچہ رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی کے بارے میں نازل ہوئی۔ لیکن اس کا حکم عام ہے ہر شخص جس کی موت کفر و نفاق پر ہو وہ اس میں شامل ہے۔ اس کا شان نزول یہ ہے کہ جب عبد اللہ بن ابی کا انتقال ہوگیا تو اس کے بیٹے عبد اللہ (جو مسلمان اور باپ ہی کا ہم نام تھے) رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ آپ (بطور تبرک) اپنی قمیص عنایت فرما دیں تاکہ میں اپنے باپ کو کفنا دوں۔ دوسرا آپ اس کی نماز جنازہ پڑھا دیں۔ آپ نے قمیص بھی عنایت فرما دی اور نماز جنازہ پڑھانے کے لئے تشریف لے گئے۔ حضرت عمر (رضي الله عنه) نے آپ (صلى الله عليه وسلم) سے کہا کہ اللہ تعالٰی نے ایسے لوگوں کی نماز جنازہ پڑھانے سے روکا ہے، آپ کیوں اس کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں؟ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ”اللہ تعالٰی نے مجھے اختیار دیا ہے“ یعنی روکا نہیں ہے۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ ”اگر تو ستر مرتبہ بھی ان کے لئے استغفار کرے گا تو اللہ تعالٰی انہیں معاف نہیں فرمائے گا، تو میں ستر مرتبہ سے زیادہ ان کے لئے استغفار کرلوں گا“، چنانچہ آپ نے نماز جنازہ پڑھا دی۔ جس پر اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرما کر آئندہ کے لئے منافقین کے حق میں دعائے مغفرت کی قطعی ممانعت فرما دی (صحيح بخاري- تفسير سورة براءت ومسلم كتاب صفات المنافقين وأحكامهم)
(2) یہ نماز جنازہ اور دعائے مغفرت نہ کرنے کی علت ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے جن لوگوں کا خاتمہ کفر و فسق پر ہو، ان کی نہ نماز جنازہ پڑھنی چاہے اور نہ ان کے لئے مغفرت کی دعا کرنا جائز ہے۔ ایک حدیث میں تو یہاں تک آتا ہے کہ جب نبی (صلى الله عليه وسلم) قبرستان پہنچے تو معلوم ہوا کہ عبد اللہ بن ابی کو دفنایا جا چکا ہے، چنانچہ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے اسے قبر سے نکلوایا اور اپنے گھٹنوں پر رکھ کراس پر اپنا لعاب دہن تھوکا، اپنی قمیص اسے پہنائی (صحيح بخاري كتاب اللباس - باب لبس القميص وكتاب الجنائز- صحيح مسلم ، كتاب صفات المنافقين وأحكامهم) جس سے معلوم ہوا کہ جو ایمان سے محروم ہوگا اسے دنیا کی بڑی سے بڑی شخصیت کی دعائے مغفرت اور کسی کی شفاعت بھی کوئی فائدہ نہ پہنچاسکے گی۔
(1) یہ انہیں منافقین کا ذکر ہے۔ جنہوں نے حیلے تراش کر پیچھے رہنا پسند کیا۔ أُولُو الطَّوْلِ سے مراد ہے صاحب حیثیت، مال دار طبقہ۔ یعنی اس طبقے کو پیچھے نہیں رہنا چاہیے تھا، کیونکہ ان کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ موجود تھا، قَاعِدِينَ سے مراد بعض مجبوریوں کے تحت گھروں میں رک جانے والے افراد ہیں، جیسا کہ اگلی آیت میں ان کو خَوَالِفُ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے خَالِفَةٌ ، کی جمع ہے۔ یعنی پیچھے رہنے والی عورتیں۔