(1) اس کا مطلب ہے کہ نرم زمین سے مٹی لے لے کر اینٹیں تیار کرتے ہو اور ان اینٹوں سے محل، جیسے آج بھی بھٹوں پر اسی طرح مٹی سے اینٹیں تیار کی جاتی ہیں ۔
(2) یہ ان کی قوت، صلابت بدن اور مہارت فن کا اظہار ہے ۔
(3) یعنی ان نعمتوں پر اللہ کا شکر کرو اور اس کی اطاعت کا راستہ اختیا رکرو، نہ کہ کفران نعمت اور معصیت کا ارتکاب کر کے فساد پھیلاؤ ۔
(1) یعنی جو دعوت توحید وہ لے کر آئے ہیں، وہ چونکہ فطرت کی آواز ہے، ہم تو اس پر ایمان لے آئے ہیں ۔ باقی رہی یہ بات کہ صالح واقعی اللہ کے رسول ہیں؟ جو ان کا سوال تھا، اس سے ان اہل ایمان نے تعرض ہی نہیں کیا ۔ کیونکہ ان کے رسول من اللہ ہونے کو وہ بحث کے قابل ہی نہیں سمجھتے تھے ۔ ان کےنزدیک ان کی رسالت ایک مسلمہ حقیقت وصداقت تھی ۔ جیسا کہ فی الواقع تھی ۔
(1) یہاں ”رَجْفَةٌ“ (زلزلے) کا ذکر ہے ۔ دوسرے مقام پر صَيْحَةٌ ( چیخ ) کا ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں قسم کا عذاب ان پر آیا ۔ اوپر سے سخت چیخ اور نیچے سے زلزلہ ۔ ان دونوں عذابوں نے انہیں تہس نہس کرکے رکھ دیا ۔
(1) یہ یا تو ہلاکت سے قبل کا خطاب ہے یا پھر ہلاکت کے بعد اسی طرح کا خطاب ہے جس طرح رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) نے جنگ بدر ختم ہونے کے بعد قلیب بدر میں مشرکین کی لاشوں سے خطاب فرمایا تھا ۔
(1) حضرت لوط (عليه السلام) ، حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے بھتیجے تھے اور حضرت ابراہیم (عليه السلام) پر ایمان لانے والوں میں سے تھے پھر خود ان کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایک علاقے میں نبی بناکر بھیجا ۔ یہ علاقہ اردن اور بیت المقدس کے درمیان تھا جسے سدوم کہا جاتا ہے ۔ یہ زمین سرسبز وشاداب تھی اور یہاں ہر طرح کے غلے اور پھلوں کی کثرت تھی ۔ قرآن نے اس جگہ کو مُؤْتَفِكَةٌ یا مُؤْتَفِكَاتٌ کے الفاظ سے ذکر کیا ہے ۔ حضرت لوط (عليه السلام) نے غالباً سب سے پہلے یا دعوت توحید کے ساتھ ہی، ( جو ہر نبی کی بنیادی دعوت تھی اور سب سے پہلے وہ اسی کی دعوت اپنی قوم کو دیتے تھے ۔ جیسا کہ پچھلے نبیوں کے حالات میں، جن کا ذکر ابھی گذرا ہے، دیکھا جاسکتا ہے) جو دوسری بڑی خرابی مردوں کے ساتھ بدفعلی، قوم لوط میں تھی، اس کی شناعت وقباحت بیان فرمائی ۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ ایک ایسا گناہ ہے جسے دنیا میں سب سے پہلے اسی قوم لوط نے کیا، اس گناہ کا نام ہی لواطت پڑگیا ۔ اس لئے مناسب سمجھا گیا کہ پہلے قوم کو اس جرم کی خطرناکی سے آگاہ کیا جائے ۔ علاوہ ازیں حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے ذریعے دعوت توحید بھی یہاں پہنچ چکی ہوگی ۔ لواطت کی سزا میں ائمہ کے درمیان اختلاف ہے ۔ بعض ائمہ کے نزدیک اس کی وہی سزا ہے جو زنا کی ہے یعنی مجرم اگر شادی شدہ ہو تو رجم، غیرشادی شدہ ہو تو سو کوڑے ۔ بعض کے نزدیک اس کی سزا ہی رجم ہے چاہے مجرم کیسا بھی ہو اور بعض کے نزدیک فاعل اور مفعول بہ دونوں کو قتل کر دینا چاہئے ۔ البتہ امام ابوحنیفہ صرف تعزیری سزا کے قائل ہیں، حد کے نہیں (تحفة الأحوذي جلد 5 ص17)
(1) یعنی مردوں کے پاس تم اس بے حیائی کے کام کے لئے محض شہوت رانی کی غرض سے آتے ہو، اس کے علاوہ تمہاری اور کوئی غرض ایسی نہیں ہوتی جو موافق عقل ہو ۔ اس لحاظ سے وہ بالکل بہائم کی طرح تھے جو محض شہوت رانی کے لئے ایک دوسرے پر چڑھتے ہیں ۔
(2) جو قضائے شہوت کا اصل محل اور حصول لذت کی اصل جگہ ہے ۔ یہ ان کی فطرت کے مسخ ہونے کی طرف اشارہ ہے، یعنی اللہ نے مرد کی جنسی لذت کی تسکین کے لئے عورت کی شرم گاہ کو اس کا محل اور موضع بنایا ہے اور ان ظالموں نے اس سے تجاوز کرکے مرد کی دبر کو اس کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا ۔
(3) لیکن اب اسی فطرت صحیحہ سے انحراف اور حدود الٰہی سے تجاوز کو مغرب کی (مہذب) قوموں نے اختیار کرلیا ہے تو یہ انسانوں کا (بنیادی حق) قرار پاگیا ہے جس سے روکنے کا کسی کو حق حاصل نہیں ہے ۔ چنانچہ اب وہاں لواطت کو قانونی تحفظ حاصل ہوگیا ہے ۔ اور یہ سرے سے جرم ہی نہیں رہا ۔ فَإِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.