Übersetzung der Bedeutungen von dem heiligen Quran - Die Übersetzung in Urdu - Muhammad Jonakari.

Nummer der Seite:close

external-link copy
101 : 3

وَكَیْفَ تَكْفُرُوْنَ وَاَنْتُمْ تُتْلٰی عَلَیْكُمْ اٰیٰتُ اللّٰهِ وَفِیْكُمْ رَسُوْلُهٗ ؕ— وَمَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللّٰهِ فَقَدْ هُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ۟۠

﴿گو یہ ظاہر ہے کہ﴾ تم کیسے کفر کر سکتے ہو؟ باوجود یہ کہ تم پر اللہ تعالیٰ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور تم میں رسول اللہ ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ موجود ہیں۔ جو شخص اللہ تعالیٰ (کے دین) کو مضبوط تھام لے(1) تو بلاشبہ اسے راه راست دکھادی گئی. info

(1) اعْتِصام باللہ کے معنی ہیں۔ اللہ کے دین کو مضبوطی سے تھام لینا اور اس کی اطاعت میں کوتاہی نہ کرنا۔

التفاسير:

external-link copy
102 : 3

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ۟

اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہئیے(1) اور دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا. info

(1) اس کا مطلب ہے کہ اسلام کے احکام وفرائض پورے طور پر بجا لائے جائیں اور منہیات کے قریب نہ جایا جائے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس آیت سے صحابہ (رضي الله عنهم) پریشان ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آیت «فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ» ”اللہ سے اپنی طاقت کے مطابق ڈرو نازل فرما دی“۔ لیکن اسے ناسخ کی بجائے اس کی مُبَيّنٌ (بیان وتوضیح کرنے والی) قرار دیا جائے تو زیادہ صحیح ہے، کیونکہ نسخ وہیں ماننا چاہئے جہاں دونوں آیتوں میں جمع وتطبیق ممکن نہ ہو اور یہاں تطبیق ممکن ہے۔ معنی یہ ہوں گے «اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَاتِهِ مَا اسْتَطَعْتُمْ» ”اللہ سے اس طرح ڈرو جس طرح اپنی طاقت کے مطابق ڈرنے کا حق ہے“ (فتح القدير)

التفاسير:

external-link copy
103 : 3

وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ۪— وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖۤ اِخْوَانًا ۚ— وَكُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْهَا ؕ— كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ ۟

اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھام لو(1) اور پھوٹ نہ ڈالو(2)، اور اللہ تعالیٰ کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی، پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اس نے تمہیں بچا لیا۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح تمہارے لئے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ. info

(1) تقویٰ کے بعد اعْتِصَام بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا ”سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں“ کا درس دے کر واضح کر دیا کہ نجات بھی انہی دو اصولوں میں ہے اور اتحاد بھی انہی پر قائم ہو سکتا اور رہ سکتا ہے۔
(2) وَلا تَفَرَّقُوا (اور پھوٹ نہ ڈالو) کے ذریعے فرقہ بندی سے روک دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مذکورہ دو اصولوں سے انحراف کرو گے تو تمہارے درمیان پھوٹ پڑ جائے گی اور تم الگ الگ فرقوں میں بٹ جاؤ گے،چنانچہ فرقہ بندی کے تاریخ دیکھ لیجئے، یہی چیز نمایاں ہو کر سامنے آئے گی، قرآن وحدیث کے فہم اور اس کی توضیح وتعبیر میں کچھ باہم اختلاف، فرقہ بندی کا سبب نہیں ہے۔ یہ اختلاف تو صحابہ کرام (رضي الله عنهم) وتابعین کے عہد میں بھی تھا لیکن مسلمان فرقوں اور گروہوں میں تقسیم نہیں ہوئے۔ کیونکہ اس اختلاف کے باوجود سب کا مرکز اطاعت اور محور عقیدت ایک ہی تھا قرآن اور حدیث رسول (صلى الله عليه وسلم) لیکن جب شخصیات کے نام پر دبستان فکر معرض وجود میں آئے تو اطاعت وعقیدت کے یہ مرکز ومحور تبدیل ہوگئے۔ اپنی اپنی شخصیات اور ان کے اقوال وافکاراولین حیثیت کے اور اللہ رسول اور ان کے فرمودات ثانوی حیثیت کے حامل قرار پائے۔ اور یہیں سے امت مسلمہ کے افتراق کے المیئے کا آغاز ہوا جو دن بدن بڑھتا ہی چلاگیا اورنہایت مستحکم ہوگیا۔

التفاسير:

external-link copy
104 : 3

وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ؕ— وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۟

تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے، اور یہی لوگ فلاح ونجات پانے والے ہیں. info
التفاسير:

external-link copy
105 : 3

وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْبَیِّنٰتُ ؕ— وَاُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ۟ۙ

تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں آ جانے کے بعد بھی تفرقہ ڈاﻻ(1) ، اور اختلاف کیا، انہیں لوگوں کے لئے بڑا عذاب ہے. info

(1) روشن دلیلیں آجا نے کے بعد تفرقہ ڈالا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہود ونصاریٰ کے باہمی اختلاف وتفرقہ کی وجہ یہ نہ تھی کہ انہیں حق کا پتہ نہ تھا۔ اور وہ اس کے دلائل سے بے خبر تھے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے سب کچھ جانتے ہوئے محض اپنے دنیاوی مفاد اور نفسانی اغراض کے لئے اختلاف وتفرقہ کی راہ پکڑی تھی اور اس پر جمے ہوئے تھے۔ قرآن مجید نے مختلف اسلوب اور پیرائے سے بار بار اس حقیقت کی نشاندہی کی ہے اور اس سے دور رہنے کی تاکید فرمائی ہے۔ مگر افسوس کہ اس امت کے تفرقہ بازوں نے بھی ٹھیک یہی روش اختیار کی کہ حق اور اس کی روشن دلیلیں انہیں خوب اچھی طرح معلوم ہیں۔ مگر وہ اپنی فرقہ بندیوں پر جمے ہوئے ہیں اور پنی عقل وذہانت کا سارا جوہر ہر سابقہ امتوں کی طرح تاویل وتحریف کے مکروہ شغل میں ضائع کر رہے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
106 : 3

یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْهٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ ۚ— فَاَمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْهُهُمْ ۫— اَكَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ ۟

جس دن بعض چہرے سفید ہوں گے اور بعض سیاه(1) ، سیاه چہرے والوں (سے کہا جائے گا) کہ کیا تم نے ایمان ﻻنے کے بعد کفر کیا؟ اب اپنے کفر کا عذاب چکھو. info

(1) حضرت ابن عباس (رضي الله عنه) نے اس سے اہل سنت والجماعت اور اہل بدعت وافتراق مراد لئے ہیں۔ (ابن كثير وفتح القدير) جس سے معلوم ہوا کہ اسلام وہی ہے جس پر اہل سنت وجماعت عمل پیرا ہیں اور اہل بدعت واہل افتراق اس نعمت اسلام سے محروم ہیں جو ذریعہ نجات ہے۔

التفاسير:

external-link copy
107 : 3

وَاَمَّا الَّذِیْنَ ابْیَضَّتْ وُجُوْهُهُمْ فَفِیْ رَحْمَةِ اللّٰهِ ؕ— هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ ۟

اور سفید چہرے والے اللہ تعالیٰ کی رحمت میں داخل ہوں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے. info
التفاسير:

external-link copy
108 : 3

تِلْكَ اٰیٰتُ اللّٰهِ نَتْلُوْهَا عَلَیْكَ بِالْحَقِّ ؕ— وَمَا اللّٰهُ یُرِیْدُ ظُلْمًا لِّلْعٰلَمِیْنَ ۟

اے نبی! ہم ان حقانی آیتوں کی تلاوت آپ پر کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا اراده لوگوں پر ﻇلم کرنے کا نہیں. info
التفاسير: