Übersetzung der Bedeutungen von dem heiligen Quran - Die Übersetzung in Urdu - Muhammad Jonakari.

Nummer der Seite:close

external-link copy
65 : 19

رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهٖ ؕ— هَلْ تَعْلَمُ لَهٗ سَمِیًّا ۟۠

آسمانوں کا، زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب وہی ہے تو اسی کی بندگی کر اور اس کی عبادت پر جم جا۔ کیا تیرے علم میں اس کا ہمنام ہم پلہ کوئی اور بھی ہے؟(1) info

(1) یعنی نہیں ہے، جب اس کی مثل کوئی اور نہیں تو پھر عبادت بھی کسی اور کی جائز نہیں۔

التفاسير:

external-link copy
66 : 19

وَیَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ءَاِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَیًّا ۟

انسان کہتا(1) ہے کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا پھر زنده کر کے نکالا جاؤں گا؟(2) info

(1) انسان سے مراد یہاں کافر باحیثیت جنس کے ہے، جو قیامت کے وقوع اور بعث بعد الموت کے قائل نہیں۔
(2) استفہام، انکار کے لئے ہے۔ یعنی جب میں بوسیدہ اور مٹی میں رل مل جاؤں گا، تو مجھے دوبارہ کس طرح نیا وجود عطا کر دیا جائے گا؟ یعنی ایسا ممکن نہیں۔

التفاسير:

external-link copy
67 : 19

اَوَلَا یَذْكُرُ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ یَكُ شَیْـًٔا ۟

کیا یہ انسان اتنا بھی یاد نہیں رکھتا کہ ہم نے اسے اس سے پہلے پیدا کیا حاﻻنکہ وه کچھ بھی نہ تھا.(1) info

- اللہ تعالٰی نے جواب دیا کہ جب پہلی مرتبہ بغیر نمونے کے ہم نے انسان پیدا کر دیا، تو دوبارہ پیدا کرنا ہمارے لئے کیوں کر مشکل ہوگا؟ پہلی مرتبہ پیدا کرنا مشکل ہے یا دوبارہ اسے پیدا کرنا؟ انسان کتنا نادان اور خود فراموش ہے اسی خود فراموشی نے اسے خدا فراموش بنا دیا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
68 : 19

فَوَرَبِّكَ لَنَحْشُرَنَّهُمْ وَالشَّیٰطِیْنَ ثُمَّ لَنُحْضِرَنَّهُمْ حَوْلَ جَهَنَّمَ جِثِیًّا ۟ۚ

تیرے پروردگار کی قسم! ہم انہیں اور شیطانوں کو جمع کر کے ضرور ضرور جہنم کے اردگرد گھٹنوں کے بل گرے ہوئے حاضر کر دیں گے.(1) info

(1) جِثِيٌّ, جَاثٍ کی جمع ہے جَثَا يَجْثُو سے۔ جَاثٍ گھٹنوں کے بل گرنے والے کو کہتے ہیں۔ یہ حال ہے یعنی ہم دوبارہ انہیں کو نہیں بلکہ ان شیاطین کو بھی زندہ کر دیں گے جنہوں نے ان کو گمراہ کیا تھا یا جن کی وہ عبادت کرتے تھے پھر ان سب کو اس حال میں جہنم کے گرد جمع کر دیں گے کہ یہ محشر کی ہولناکیوں اور حساب کے خوف سے گھٹنوں کے بل بیٹھے ہونگے،حدیث قدسی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”ابن آدم میری تکذیب کرتا ہے۔ حالانکہ یہ اس کے لائق نہیں۔ ابن آدم مجھے ایذا پہنچاتا ہے حالانکہ اسے یہ زیب نہیں دیتا۔ اس کا میری تکذیب کرنا تو یہ ہے کہ وہ میری بابت یہ کہتا ہے کہ اللہ مجھے ہرگز اس طرح دوبارہ زندہ نہیں کرے گا جس طرح اس نے مجھے پہلی مرتبہ پیدا کیا حالانکہ میرے لئے پہلی مرتبہ پیدا کرنا دوسری مرتبہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان نہیں ہے (یعنی مشکل اگر ہے تو پہلی مرتبہ پیدا کرنا نہ کہ دوسری مرتبہ) اور اس کا مجھے ایذا پہنچانا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے میری اولاد ہے، حالانکہ میں ایک ہوں، بےنیاز ہوں نہ میں نے کسی کو جنا اور نہ خود جنا گیا ہوں میرا کوئی ہمسر نہیں ہے“۔ (صحیح بخاری۔ تفسیر سورہ اخلاص)۔

التفاسير:

external-link copy
69 : 19

ثُمَّ لَنَنْزِعَنَّ مِنْ كُلِّ شِیْعَةٍ اَیُّهُمْ اَشَدُّ عَلَی الرَّحْمٰنِ عِتِیًّا ۟ۚ

ہم پھر ہر ہر گروه سے انہیں الگ نکال کھڑا کریں گے جو اللہ رحمنٰ سے بہت اکڑے اکڑے پھرتے تھے.(1) info

(1) عِتِيًّا, بھی عَتَا يَعْتُو سےعَاتٍ کی جمع ہے۔ اس کے معنی ہیں بہت سرکش اور متمرد۔ مطلب یہ ہے کہ ہر گمراہ فرقے کے بڑے بڑے سرکشوں اور لیڈروں کو ہم الگ کرلیں گے اور ان کو اکٹھا کر کے جہنم میں پھینک دیں گے۔ کیونکہ یہ قائدین دوسرے جہنمیوں کے مقابلے میں سزا وعقوبت کے زیادہ سزا وار ہیں، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔

التفاسير:

external-link copy
70 : 19

ثُمَّ لَنَحْنُ اَعْلَمُ بِالَّذِیْنَ هُمْ اَوْلٰی بِهَا صِلِیًّا ۟

پھر ہم انہیں بھی خوب جانتے ہیں جو جہنم کے داخلے کے زیاده سزاوار ہیں.(1) info

(1) صِلِيًّا مصدر سماعی ہے صَلَى يَصْلِي کا،معنی ہیں داخل ہونا۔ یعنی جہنم میں داخل ہونے اور اس میں جلنے کے کون زیادہ مستحق ہیں، ہم ان کو خوب جانتے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
71 : 19

وَاِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا ۚ— كَانَ عَلٰی رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِیًّا ۟ۚ

تم میں سے ہر ایک وہاں ضرور وارد ہونے واﻻ ہے، یہ تیرے پروردگار کے ذمے قطعی، فیصل شده امر ہے. info
التفاسير:

external-link copy
72 : 19

ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّنَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْهَا جِثِیًّا ۟

پھر ہم پرہیزگاروں کو تو بچالیں گے اور نافرمانوں کو اسی میں گھٹنوں کے بل گرا ہوا چھوڑ دیں گے.(1) info

(1) اس کی تفسیر صحیح حدیث میں اس طرح بیان کی گئی ہے کہ جہنم کے اوپر پل بنایا جائے گا جس میں ہر مومن وکافر کو گزرنا ہوگا۔ مومن تو اپنے اعمال کے مطابق جلد یا بدیر گزر جائیں گے، کچھ تو پلک جھپکنے میں، کچھ بجلی اور کچھ ہوا کی طرح، کچھ پرندوں کی طرح اور کچھ عمدہ گھوڑوں اور دیگر سواریوں کی طرح گزر جائیں گے یوں کچھ بالکل صحیح سالم، کچھ زخمی تاہم پل عبور کرلیں گے کچھ جہنم میں گر پڑیں گے جنہیں بعد میں شفاعت کے ذریعے سے نکال لیا جائے گا۔ لیکن کافر اس پل کو عبور کرنے میں کامیاب نہیں ہونگے اور سب جہنم میں گر پڑیں گے۔ اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں آتا ہے کہ جس کے تین بچے بلوغت سے پہلے وفات پا گئے ہوں، اسے آگ نہیں چھوئے گی مگر صرف قسم حلال کرنے کے لئے۔ (البخاري- كتاب الجنائز، ومسلم كتاب البر) یہ قسم وہی ہے جسے اس آیت میں حَتْمًا مَقْضِيًّا (قطعی فیصل شدہ امر) کہا گیا ہے، یعنی اس کا ورود جہنم میں صرف پل پر گزرنے کی حد تک ہی ہوگا۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے ابن کثیر وایسر التفاسیر)

التفاسير:

external-link copy
73 : 19

وَاِذَا تُتْلٰی عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا ۙ— اَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ خَیْرٌ مَّقَامًا وَّاَحْسَنُ نَدِیًّا ۟

جب ان کے سامنے ہماری روشن آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں تو کافر مسلمانوں سے کہتے ہیں بتاؤ ہم تم دونوں جماعتوں میں سے کس کا مرتبہ زیاده ہے؟ اور کس کی مجلس شاندار ہے؟(1) info

(1) یعنی قرآنی دعوت کا مقابلہ یہ کفار مکہ فقراء مسلمین اور اغنیائے قریش اور ان کی مجلسوں اور مکانوں کے باہمی موازنے سے کرتے ہیں، کہ مسلمانوں میں عمار، بلال، صہیب (رضي الله عنهم) جیسے فقیر لوگ ہیں، انکا دار الشوریٰ ”دار ارقم“ ہے۔ جب کہ کافروں میں ابو جہل، نضر بن حارث، عتبہ، شیبہ وغیرہ جیسے رئیس اور ان کی عالی شان کوٹھیاں اور مکانات ہیں، ان کی اجتماع گاہ (دارالندوہ) بہت عمدہ ہے۔

التفاسير:

external-link copy
74 : 19

وَكَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْنٍ هُمْ اَحْسَنُ اَثَاثًا وَّرِﺋْﻴًﺎ ۟

ہم تو ان سے پہلے بہت سی جماعتوں کو غارت کر چکے ہیں جو ساز وسامان اور نام ونمود میں(1) ان سے بڑھ چڑھ کر تھیں. info

(1) اللہ تعالٰی نے فرمایا، دنیا کی یہ چیزیں ایسی نہیں ہیں کہ ان پر فخر اور ناز کیا جائے، یا ان کو دیکھ کر حق وباطل کا فیصلہ کیا جائے۔ یہ چیزیں تو تم سے پہلی امتوں کے پاس تھیں، لیکن تکذیب حق کی پاداش میں انہیں ہلاک کر دیا گیا، دنیا کا یہ مال واسباب انہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکا۔

التفاسير:

external-link copy
75 : 19

قُلْ مَنْ كَانَ فِی الضَّلٰلَةِ فَلْیَمْدُدْ لَهُ الرَّحْمٰنُ مَدًّا ۚ۬— حَتّٰۤی اِذَا رَاَوْا مَا یُوْعَدُوْنَ اِمَّا الْعَذَابَ وَاِمَّا السَّاعَةَ ؕ۬— فَسَیَعْلَمُوْنَ مَنْ هُوَ شَرٌّ مَّكَانًا وَّاَضْعَفُ جُنْدًا ۟

کہہ دیجئے! جو گمراہی میں ہوتا ہے رحمنٰ اس کو خوب لمبی مہلت دیتا ہے، یہاں تک کہ وه ان چیزوں کو دیکھ لیں جن کا وعده کیے جاتے ہیں یعنی عذاب یا قیامت کو، اس وقت ان کو صحیح طور پر معلوم ہو جائے گا کہ کون برے مرتبے والا اور کس کا جتھا کمزور ہے.(1) info

(1) علاوہ ازیں یہ چیزیں گمراہوں اور کافروں کو مہلت کے طور پر بھی ملتی ہیں، اس لئے یہ کوئی معیار نہیں۔ اصل اچھے برے کا پتہ تو اس وقت چلے گا، جب مہلت عمل ختم ہو جائے گی اور اللہ کا عذاب انہیں آ گھیرے گا یا قیامت برپا ہو جائے گی۔ لیکن اس وقت کا علم، کوئی فائدہ نہیں دے گا، کیونکہ وہاں ازالے اور تدارک کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔

التفاسير:

external-link copy
76 : 19

وَیَزِیْدُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اهْتَدَوْا هُدًی ؕ— وَالْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّخَیْرٌ مَّرَدًّا ۟

اور ہدایت یافتہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت میں بڑھاتا ہے(1) ، اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک ﺛواب کے لحاظ سے اور انجام کے لحاظ سے بہت ہی بہتر ہیں.(2) info

(1) اس میں ایک دوسرے اصول کا ذکر ہے جس طرح قرآن سے، جن کے دلوں میں کفر اور شرک وضلالت کا روگ ہے۔ ان کی بدبختی و ضلالت میں اور اضافہ ہو جاتا ہے، اسی طرح اہل ایمان کے دل ایمان وہدایت میں اور پختہ ہو جاتے ہیں۔
(2) اس میں فقرا مسلمین کو تسلی ہے کہ کفار ومشرکین جن مال واسباب پر فخر کرتے ہیں، وہ سب فنا کے گھاٹ اتر جائیں گے اور تم جو نیک اعمال کرتے ہو، یہ ہمیشہ باقی رہنے والے ہیں۔ جن کا اجر وثواب تمہیں اپنے رب کے ہاں ملے گا۔ اور ان کا بہترین صلہ اور نفع تمہاری طرف لوٹے گا۔

التفاسير: