(1) یہ عرصہ محشر میں پل صراط میں ہوگا، یہ نور ان کے ایمان اور عمل صالح کا صلہ ہوگا، جس کی روشنی میں وہ جنت کا راستہ آسانی سے طے کرلیں گے۔ امام ابن کثیر اور امام ابن جریر وغیر ہ ما نے وَبِأَيْمَانِهِمْ کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ ان کے دائیں ہاتھوں میں ان کے اعمال نامے ہوں گے۔
(2) یہ وہ فرشتے کہیں گے جو ان کے استقبال اور پیشوائی کےلیے وہاں ہوں گے۔
(1) یہ منافقین کچھ فاصلے تک اہل ایمان کے ساتھ ان کی روشنی میں چلیں گے، پھر اللہ تعالیٰ منافقین پر اندھیرا مسلط فرما ئےگا، اس وقت وہ اہل ایمان سے یہ کہیں گے۔
(2) اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جا کر اسی طرح ایمان اور عمل صالح کی پونجی لے کر آؤ، جس طرح ہم لائے ہیں۔ یا استہزا کے طور پراہل ایمان کہیں گےکہ پیچھے جہاں سے ہم یہ نور لائے تھے وہیں جا کر اسے تلاش کرو۔
(3) یعنی مومنین اور منافقین کے درمیان۔
(4) اس سے مراد جنت ہے جس میں اہل ایمان داخل ہو چکےہوں گے۔
(5) یہ وہ حصہ ہے جس میں جہنم ہوگی۔
(1) یعنی دیوارحائل ہونے پر منافقین مسلمانوں سے کہیں گے کہ دنیا میں ہم تمہارے ساتھ نمازیں نہیں پڑھتے تھے ، اور جہاد وغیرہ میں حصہ نہیں لیتے تھے؟
(2) کہ تم نے اپنے دلوں میں کفر اور نفاق چھپا رکھا تھا۔
(3) کہ شایدمسلمان کسی گردش کا شکار ہو جائیں۔
(4) دین کے معاملے میں، اسی لیے قرآن کو مانا نہ دلائل ومعجزات کو۔
(5) جس میں تمہیں شیطان نے مبتلا کیے رکھا۔
(6) یعنی تمہیں موت آ گئی، یا مسلمان بالآخر غالب رہے اور تمہاری آرزوں پر پانی پھیر گیا۔
(7) یعنی اللہ کے حلم اور اس کے قانون امہال (مہلت دینے) کی وجہ سے تمہیں شیطان نےدھوکےمیں ڈالے رکھا۔
(1) مولیٰ اسے کہتے ہیں جوکسی کے کاموں کا متولی یعنی ذمےدار بنے۔ گویا اب جہنم ہی اس بات کی ذمےدار ہے کہ انہیں سخت سے سخت تر عذاب کا مزا چکھائے۔ بعض کہتے ہیں کہ ہمیشہ ساتھ رہنے والے کو بھی مولیٰ کہہ لیتے ہیں، یعنی اب جہنم کی آگ ہی ان کی ہمیشہ کی ساتھی اور رفیق ہوگی۔ بعض کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جہنم کو بھی عقل وشعور عطا فرمائے گا پس وہ کافروں کے خلاف غیظ وغضب کا اظہار کرے گی۔ یعنی ان کی والی بنے گی اور انہیں عذاب الیم سے دو چار کرے گی۔
(1) خطاب اہل ایمان کو ہے۔ اور مطلب ان کو اللہ کی یاد کی طرف مزید متوجہ اور قرآن کریم سے کسب ہدایت کی تلقین کرنا ہے۔ خشوع کے معنی ہیں، دلوں کا نرم ہو کر اللہ کی طرف جھک جانا، حق سے مراد قرآن کریم ہے۔
(2) جیسے یہود ونصاریٰ ہیں۔ یعنی تم ان کی طرح نہ ہو جانا۔
(3) چنانچہ انہوں نے اللہ کی کتاب میں تحریف اور تبدیلی کر دی، اس کے عوض دنیاکا ثمن قلیل حاصل کرنے کو انہوں نے شعار بنا لیا، اس کے احکام کو پس پشت ڈال دیا، اللہ کے دین میں لوگوں کی تقلید اختیار کرلی اور ان کو اپنا رب بنا لیا،مسلمانوں کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ تم یہ کام مت کرو ورنہ تمہارے دل بھی سخت ہو جائیں گے اور پھر یہی کام جو ان پر لعنت الٰہی کا سبب بنے، تمہیں اچھے لگیں گے۔
(4) یعنی ان کے دل فاسد اوراعمال باطل ہیں۔ دوسرے مقام پر اللہ نےفرمایا: «فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ وَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ» (المائدة: 13)۔
(1) یعنی ایک کے بدلے میں کم از کم دس گنا اور اس سے زیادہ سات سو گناہ بلکہ اس سے بھی زیادہ تک۔ یہ زیادتی اخلاص نیت، حاجت وضرورت اور مکان وزمان کی بنیاد پر ہو سکتی ہے۔ جیسے پہلے گزرا کہ جن لوگوں نے فتح مکہ سےقبل خرچ کیا، وہ اجر وثواب میں ان سے زیادہ ہوں گے، جنہوں نے اس کے بعد خرچ کیا۔
(2) یعنی جنت اور اس کی نعمتیں، جن کو کبھی زوال اورفنا نہیں۔ آیت میں مُصَّدِّقِينَ اصل میں مُتَصَدِّقِينَ ہے۔ تاکوصادمیں مدغم کر دیا گیا۔