(1) مشرکین نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کی رسالت میں شک کرتے تھے، اس لئے آپ (صلى الله عليه وسلم) کی رسالت کا انکار کرتے اور کہتے تھے، لَسْتَ مُرْسَلا (الرعد: 43) ”تو تو پیغمبر ہی نہیں ہے“۔ اللہ نے ان کے جواب میں قرآن حکیم کی قسم کھا کر کہا کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) یقیناً اس کے پیغمبروں میں سے ہیں۔ اس میں آپ (صلى الله عليه وسلم) کے شرف وفضل کا اظہار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی رسول کی رسالت کے لئے قسم نہیں کھائی یہ بھی آپ (صلى الله عليه وسلم) کے امتیازات اور خصائص میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلى الله عليه وسلم) کی رسالت کے اثبات کے لئے قسم کھائی۔
(1) یعنی اس اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے جو عزیز ہے یعنی اس کا انکار اور اس کے رسول کی تکذیب کرنے والے سے انتقام لینے پر قادر ہے رحیم ہے یعنی جو اس پر ایمان لائے گا اور اس کا بندہ بن کر رہے گا، اس کے لئے نہایت مہربان ہے۔
(1) یعنی آپ (صلى الله عليه وسلم) کو رسول اس لئے بنایا ہے اور یہ کتاب اس لئے نازل کی ہے تاکہ آپ (صلى الله عليه وسلم) اس قوم کو ڈرائیں جن میں آپ (صلى الله عليه وسلم) سے پہلے کوئی ڈرانے والانہیں آیا، اس لئے ایک مدت سے یہ لوگ دین حق سے بےخبر ہیں۔ یہ مضمون پہلے بھی کئی جگہ گزرچکا ہے کہ عربوں میں حضرت اسماعیل (عليه السلام) کے بعد، نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) سے پہلے براہ راست کوئی نبی نہیں آیا۔ یہاں بھی اسی چیز کو بیان کیا گیا ہے۔
(1) جیسے ابوجہل، عتبہ، شیبہ وغیرہ۔ بات ثابت ہونے کا مطلب، اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ ”میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سے بھر دوں گا“۔ (الم السجدۃ: 13) شیطان سے بھی خطاب کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا تھا ”میں جہنم کو تجھ سے اور تیرے پیروکاروں سے بھر دوں گا“۔ (ص: 84) یعنی ان لوگوں نے شیطان کے پیچھے لگ کر اپنےآپ کو جہنم کا مستحق قرار دے لیا، کیونکہ اللہ نے تو ان کو اختیار وحریت ارادہ سے نوازا تھا، لیکن انہوں نے اس کا استعمال غلط کیا اور یوں جہنم کا ایندھن بن گئے۔ یہ نہیں کہ اللہ نے جبراً ان کو ایمان سے محروم رکھا، کیونکہ جبر کی صورت میں تو وہ عذاب کے مستحق ہی قرار نہ پاتے۔
(1) جس کی وجہ سے وہ ادھر ادھر دیکھ سکتے ہیں، نہ سر جھکا سکتے ہیں، بلکہ وہ سر اوپر اٹھائے اور نگاہیں نیچی کئے ہوئے ہیں۔ یہ ان کے عدم قبول حق کی اور عدم انفاق کی تمثیل ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ان کی سزائے جہنم کی کیفیت کا بیان ہو۔ (ایسرالتفاسیر)۔
(1) یعنی دنیا کی زندگی ان کے لئے مزین کر دی گئی، یہ گویا ان کے سامنے کی آڑ ہے، جس کی وجہ سے وہ لذائذ دنیا کے علاوہ کچھ نہیں دیکھتے اور یہی چیز ان کے اور ایمان کے درمیان مانع اور حجاب ہے اور آخر کا تصور ان کے ذہنوں میں ناممکن الوقوع کردیا گیا، یہ گویا ان کے پیچھے کی آڑ ہے جس کی وجہ سے وہ توبہ کرتے ہیں نہ نصیحت حاصل کرتے ہیں، کیونکہ آخرت کا کوئی خوف ہی ان کے دلوں میں نہیں ہے۔
(2) یا ان کی آنکھوں کو ڈھانک دیا یعنی رسول (صلى الله عليه وسلم) سے عداوت اور اس کی دعوت حق سے نفرت نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی، یا انہیں اندھا کردیا ہے جس سے وہ دیکھ نہیں سکتے۔ یہ ان کے حال کی دوسری تمثیل ہے۔
(1) یعنی انذار سے صرف اس کو فائدہ پہنچتا ہے۔
(1) یعنی قیامت والے دن۔ یہاں احیائے موتی کے ذکر سے یہ اشارہ کرنا بھی مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں میں سے جس کا دل چاہتا ہے، زندہ کردیتا ہے جو کفروضلالت کی وجہ سے مردہ ہوچکے ہوتے ہیں۔ پس وہ ہدایت اور ایمان کو اپنا لیتے ہیں۔
(2) مَا قَدَّمُوا سے وہ اعمال مراد ہیں جو انسان خود اپنی زندگی میں کرتا ہے اور آثَارَهُمْ سے وہ اعمال جن کے عملی نمونے (اچھے یا برے) وہ دنیا میں چھوڑ جاتا ہے اور اس کے مرنے کے بعد اس کی اقتدا میں لوگ وہ اعمال بجا لاتے ہیں۔ جس طرح حدیث میں ہے ”جس نےاسلام میں کوئی نیک طریقہ جاری کیا، اس کے لئے اس کا اجر بھی ہے اور اس کا بھی ہے جو اس کے بعد اس پر عمل کرے گا۔ بغیر اس کے کہ ان میں سے کسی کے اجر میں کمی ہو اور جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا، اس پر اس کے اپنے گناہ کا بھی بوجھ ہوگا اور اس کا بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کرے گا، بغیر اس کے کہ ان میں کسی کے بوجھ میں کمی ہو“۔ (صحيح مسلم، كتاب الزكاة ، باب الحث على الصدقة ولو بشق تمرة) اسی طرح یہ حدیث ہے ”جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے۔ سوائے تین چیزوں کے۔ ایک علم، جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں (2) نیک اولاد جو مرنے والے کے لئے دعا کرے (3) یا صدقہ جاریہ، جس سے اس کے مرنے کے بعد بھی لوگ فیض یاب ہوں“۔ (صحيح مسلم، كتاب الوصية، باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعد وفاته) دوسرا مطلب آثَارَهُمْ کا نشانات قدم ہے۔ یعنی انسان نیکی یا بدی کے لئے جو سفر کرتا اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتا ہے تو قدموں کے یہ نشانات بھی لکھے جاتے ہیں۔ جیسے عہد رسالت میں مسجد نبوی کے قریب کچھ جگہ خالی تھی تو بنوسلمہ نے ادھر منتقل ہونے کا ارادہ کیا، جب نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کے علم میں یہ بات آئی تو آپ (صلى الله عليه وسلم) نے انہیں مسجد کے قریب منتقل ہونے سے روک دیا اور فرمایا : «دَيَاركُمْ تُكْتَبْ آثَارُكُمْ» (دو مرتبہ فرمایا) یعنی تمہارے گھر اگرچہ دور ہیں، لیکن وہیں رہو، جتنے قدم تم چل کر آتے ہو، وہ لکھے جاتے ہیں۔ (صحيح مسلم، كتاب المساجد، باب فضل كثرة الخطى إلى المساجد) امام ابن کثیر فرماتے ہیں۔ دونوں مفہوم اپنی جگہ صحیح ہیں، ان کے درمیان منافات نہیں ہے۔ بلکہ اس دوسرے مفہوم میں سخت تنبیہ ہے، اس لئے کہ جب قدموں کے نشانات تک لکھے جاتے ہیں، تو انسان جو اچھا یا برا نمونہ چھوڑ جائے جس کی لوگ بعد میں پیروی کریں تو وہ بطریق ادنیٰ لکھے جائیں گے۔
(3) اس سے مراد لوح محفوظ ہے اور بعض نے صحائف اعمال مراد لئے ہیں۔