Prijevod značenja časnog Kur'ana - Prijevod na urdu jezik - Muhammed Gunakry

سجدہ

external-link copy
1 : 32

الٓمّٓ ۟ۚ

الم. info
التفاسير:

external-link copy
2 : 32

تَنْزِیْلُ الْكِتٰبِ لَا رَیْبَ فِیْهِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۟ؕ

بلاشبہ اس کتاب کا اتارنا تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے ہے.(1) info

(1) مطلب یہ ہے کہ یہ جھوٹ، جادو، کہانت اور من گھڑت قصے کہانیوں کی کتاب نہیں ہے بلکہ رب العالمین کی طرف سے صحیفہ ہدایت ہے۔

التفاسير:

external-link copy
3 : 32

اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ ۚ— بَلْ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّاۤ اَتٰىهُمْ مِّنْ نَّذِیْرٍ مِّنْ قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ یَهْتَدُوْنَ ۟

کیا یہ کہتے ہیں کہ اس نے اسے گھڑ لیا ہے(1) ۔ (نہیں نہیں) بلکہ یہ تیرے رب تعالیٰ کی طرف سے حق ہے تاکہ آپ انہیں ڈرائیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے واﻻ نہیں آیا(2)۔ تاکہ وه راه راست پر آجائیں.(3) info

(1) یہ بطور توبیخ ہے کہ کیا رب العالمین کے نازل کردہ اس کلام بلاغت نظام کی بابت یہ کہتے ہیں کہ اسے خود (محمد صلى الله عليه وسلم نے) گھڑ لیا ہے؟
(2) یہ نزول قرآن کی علت ہے۔ اس سے بھی معلوم ہوا (جیسا کہ پہلے بھی وضاحت گزر چکی ہے) کہ عربوں میں نبی (صلى الله عليه وسلم) پہلے نبی تھے۔ بعض لوگوں نے حضرت شعیب (عليه السلام) کو بھی عربوں میں مبعوث نبی قرار دیا ہے۔ واللہ اعلم۔ اس اعتبار سے قوم سے مراد پھر خاص قریش ہوں گے جن کی طرف کوئی نبی آپ (صلى الله عليه وسلم) سے پہلے نہیں آیا۔

التفاسير:

external-link copy
4 : 32

اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَا فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ ؕ— مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا شَفِیْعٍ ؕ— اَفَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ ۟

اللہ تعالیٰ وه ہے جس نے آسمان وزمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو چھ دن میں پیدا کر دیا پھر عرش پر قائم ہوا(1) ، تمہارے لئے اس کے سوا کوئی مددگار اور سفارشی نہیں(2)۔ کیا پھر بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرتے.(3) info

(1) اس کے لئے دیکھئے سورۂ اعراف 54 کا حاشیہ۔ یہاں اس مضمون کو دہرانے سے مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت اور عجائب صنعت کے ذکر سے شاید وہ قرآن کو سنیں اور اس پر غور کریں۔
(2) یعنی وہاں کوئی ایسا دوست نہیں ہوگا، جو تمہاری مدد کر سکے اور تم سے اللہ کے عذاب کو ٹال دے، نہ وہاں کوئی سفارشی ہی ایسا ہوگا جو تمہاری سفارش کر سکے۔ (3) یعنی اے غیر اللہ کے پجاریو اور دوسروں پر بھروسہ کرنے والو! کیا پھر بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟

التفاسير:

external-link copy
5 : 32

یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الْاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْهِ فِیْ یَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗۤ اَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ ۟

وه آسمان سے لے کر زمین تک (ہر) کام کی تدبیر کرتا ہے(1) ۔ پھر (وه کام) ایک ایسے دن میں اس کی طرف چڑھ جاتا ہے جس کا اندازه تمہاری گنتی کے ایک ہزار سال کے برابر ہے.(2) info

(1) آسمان سے، جہاں اللہ کا عرش اور لوح محفوظ ہے، اللہ تعالیٰ زمین پر احکام نازل فرماتا یعنی تدبیر کرتا اور زمین پر ان کا نفاذ ہوتا ہے۔ جیسے موت اور زندگی، صحت اور مرض، عطا اور منع، غنا اور فقر، جنگ اور صلح، عزت اور ذلت، وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر سے اپنی تقدیر کے مطابق یہ تدبیریں اور تصرفات کرتا ہے۔
(2) یعنی پھر اس کی یہ تدبیر یا امر اس کی طرف واپس لوٹتا ہے ایک ہی دن میں، جسےفرشتے لے کر جاتے ہیں اور صعود (چڑھنے) کا یا آنےجانے کا فاصلہ اتنا ہے کہ غیر فرشتہ ہزار سال میں طے کرے۔ یا اس سے قیامت کا دن مراد ہے کہ اس دن انسانوں کے سارے اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوں گے۔ اس (یوم) کی تعیین وتفسیر میں مفسرین کے درمیان بہت اختلاف ہے۔ امام شوکانی نے 16،15 اقوال اس ضمن میں ذکر کیے ہیں اس لئے حضرت ابن عباس نے اس کے بارے میں توقف کو پسند فرمایا اور اس کی حقیقت کو اللہ کے سپرد کر دیا ہے۔ صاحب ایسر التفاسیر کہتے ہیں کہ قرآن میں یہ تین مقامات پر آیا ہے اور تینوں جگہ الگ الگ دن مراد ہے۔ سورۂ حج (آیت۔ 47) میں ”یوم“ کا لفظ عبارت ہے اس زمانہ اور مدت سے جو اللہ کے ہاں ہے اور سورۂ معارج میں، جہاں یوم کی مقدار پچاس ہزار سال بتلائی گئی ہے، یوم حساب مراد ہے اور اس مقام (زیر بحث) میں یوم سے مراد دنیا کا آخری دن ہے، جب دنیا کے تمام معاملات فنا ہو کر اللہ کی طرف لوٹ جائیں گے۔

التفاسير:

external-link copy
6 : 32

ذٰلِكَ عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّهَادَةِ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ ۟ۙ

یہی ہے چھپے کھلے کا جاننے واﻻ، زبردست غالب بہت ہی مہربان. info
التفاسير:

external-link copy
7 : 32

الَّذِیْۤ اَحْسَنَ كُلَّ شَیْءٍ خَلَقَهٗ وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍ ۟ۚ

جس نے نہایت خوب بنائی جو چیز بھی بنائی(1) اور انسان کی بناوٹ مٹی سے شروع کی.(2) info

(1) یعنی جو چیز بھی اللہ نے بنائی ہے، وہ چوں کہ اس کی حکمت ومصلحت کا اقتضا ہے، اس لئے اس میں اپنا ایک حسن اور انفرادیت ہے۔ یوں اس کی بنائی ہوئی ہر چیز حسین ہے اور بعض نے أَحْسَنَ کے معنی أَتْقَنَ وَأَحْكَمَ کے کیے ہیں، یعنی ہر چیز مضبوط اور پختہ بنائی۔ بعض نے اسے الھم کے مفہوم میں لیا ہے، یعنی ہر مخلوق کو ان چیزوں کا الہام کر دیا جس کی وہ محتاج ہے۔
(2) یعنی انسان اول (آدم عليه السلام) کو مٹی سے بنایا، جن سے انسانوں کا آغاز ہوا۔ اور اس کی زوجہ حضرت حوا کو آدم (عليه السلام) کی بائیں پسلی سے پیدا کر دیا جیسا کہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
8 : 32

ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهٗ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّآءٍ مَّهِیْنٍ ۟ۚ

پھر اس کی نسل ایک بے وقعت پانی کے نچوڑ سے چلائی.(1) info

(1) یعنی منی کے قطرے سے۔ مطلب یہ ہے کہ ایک انسانی جوڑا بنانے کے بعد، اس کی نسل کے لئے ہم نے یہ طریقہ مقرر کر دیا کہ مرد اور عورت آپس میں نکاح کریں، ان کے جنسی ملاپ سے جو قطرۂ آب، عورت کے رحم میں جائے گا، اس سے ہم ایک انسانی پیکر تراش کر باہر بھیجتے رہیں گے۔

التفاسير:

external-link copy
9 : 32

ثُمَّ سَوّٰىهُ وَنَفَخَ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِهٖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْـِٕدَةَ ؕ— قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ ۟

جسے ٹھیک ٹھاک کر کے اس میں اپنی روح پھونکی(1) ، اسی نے تمہارے کان آنکھیں اور دل بنائے(2) (اس پر بھی) تم بہت ہی تھوڑا احسان مانتے ہو.(3) info

(1) یعنی اس بچے کی، ماں کے پیٹ میں نشوونما کرتے، اس کے اعضا بناتے، سنوارتے ہیں اور پھر اس میں روح پھونکتے ہیں۔
(2) یعنی یہ ساری چیزیں پیدا کیں تاکہ وہ اپنی تخلیق کی تکمیل کر دے، پس تم ہر سننے والی بات کو سن سکو، دیکھنے والی چیز کو دیکھ سکو اور ہر عقل وفہم میں آنے والی بات کو سمجھ سکو۔
(3) یعنی اتنے احسانات کے باوجود انسان اتنا ناشکرا ہے کہ وہ اللہ کا شکر بہت ہی کم ادا کرتا ہے یا شکر کرنے والے آدمی بہت تھوڑے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
10 : 32

وَقَالُوْۤا ءَاِذَا ضَلَلْنَا فِی الْاَرْضِ ءَاِنَّا لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ ؕ۬— بَلْ هُمْ بِلِقَآءِ رَبِّهِمْ كٰفِرُوْنَ ۟

انہوں نے کہا کیا جب ہم زمین میں مل جائیں(1) گے کیا پھر نئی پیدائش میں آجائیں گے؟ بلکہ (بات یہ ہے) کہ وه لوگ اپنے پروردگار کی ملاقات کے منکر ہیں. info

(1) جب کسی چیز پر کوئی دوسری چیز غالب آجائے اور پہلی کے تمام اثرات مٹ جائیں تو اس کی ضلالت (گم ہو جانے) سے تعبیر کرتے ہیں ضَلَلْنَا فِي الأَرْضِ کے معنی ہوں گے کہ جب مٹی میں مل کر ہمارا وجود زمین میں غائب ہو جائے گا۔

التفاسير:

external-link copy
11 : 32

قُلْ یَتَوَفّٰىكُمْ مَّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِیْ وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ اِلٰی رَبِّكُمْ تُرْجَعُوْنَ ۟۠

کہہ دیجئے! کہ تمہیں موت کا فرشتہ فوت کرے گا جو تم پر مقرر کیا گیا ہے(1) . پھر تم سب اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے. info

(1) یعنی اس کی ڈیوٹی ہی یہ ہے کہ جب تمہاری موت کا وقت آجائے تو وہ آکر روح قبض کر لے۔

التفاسير: