Prijevod značenja časnog Kur'ana - Prijevod na urdu jezik - Muhammed Gunakry

Broj stranice:close

external-link copy
7 : 29

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ وَلَنَجْزِیَنَّهُمْ اَحْسَنَ الَّذِیْ كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ۟

اور جن لوگوں نے یقین کیا اور مطابق سنت کام کیے ہم ان کے تمام گناہوں کو ان سے دور کر دیں گے اور انہیں ان کے نیک اعمال کے بہترین بدلے دیں گے.(1) info

(1) یعنی باوجود اس بات کے کہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوق سے بے نیاز ہے، وہ محض اپنے فضل وکرم سے اہل ایمان کو ان کے عملوں کی بہترین جزا عطا فرمائے گا۔ اور ایک ایک نیکی پر کئی کئی گنا اجر وثواب دے گا۔

التفاسير:

external-link copy
8 : 29

وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْنًا ؕ— وَاِنْ جٰهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ؕ— اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ۟

ہم نے ہر انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی نصیحت کی ہے(1) ہاں اگر وه یہ کوشش کریں کہ آپ میرے ساتھ اسے شریک کرلیں جس کا آپ کو علم نہیں تو ان کا کہنا نہ مانیئے(2)، تم سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے پھر میں ہر اس چیز سے جو تم کرتے تھے تمہیں خبر دوں گا. info

(1) قرآن کریم کے متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید وعبادت کا حکم دینے کے ساتھ والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی ہے جس سے اس امر کی وضاحت ہوتی ہے کہ ربوبیت (الہٰ واحد) کے تقاضوں کو صحیح طریقے سے وہی سمجھ سکتا اور انہیں ادا کرسکتا ہے جو والدین کی اطاعت وخدمت کے تقاضوں کو سمجھتا اور ادا کرتا ہے۔ جو شخص یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ دنیا میں اس کا وجود والدین کی باہمی قربت کا نتیجہ اور اس کی تربیت وپرداخت، ان کی غایت مہربانی اور شفقت کا ثمرہ ہے۔ اس لیے مجھے ان کی خدمت میں کوئی کوتاہی اور ان کی اطاعت سے سرتابی نہیں کرنی چاہیے۔ وہ یقیناً خالق کائنات کو سمجھنے اور اس کی توحید وعبادت کے تقاضوں کی ادائیگی سے بھی قاصر رہے گا۔ اسی لیے احادیث میں بھی والدین کے ساتھ حسن سلوک کی بڑی تاکید آئی ہے۔ ایک حدیث میں والدین کی رضامندی کو اللہ کی رضا اور ان کی ناراضی کو رب کی ناراضی کا باعث قرار دیا گیا ہے۔
(2) یعنی والدین اگر شرک کا حکم دیں (اور اسی میں دیگر معاصی کا حکم بھی شامل ہے) اور اس کے لیے خاص کوشش بھی کریں۔ (جیسا کہ مجاہدہ کے لفظ سے واضح ہے) تو ان کی اطاعت نہیں کرنی چاہیئے۔ کیونکہ «لا طَاعَةَ لأَحَدٍ فِي مَعْصِيَةِ اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى» (مسند أحمد5/66 والصحيحة للألباني، نمبر 179) ”اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں“۔
اس آیت کی شان نزول میں حضرت سعد بن ابی وقاص (رضي الله عنه) ، کا واقعہ آتا ہے کہ ان کے مسلمان ہونے پر ان کی والدہ نے کہا کہ میں نہ کھاؤں گی نہ پیوں گی، یہاں تک کہ مجھے موت آجائے یا پھر تو محمد (صلى الله عليه وسلم) کی نبوت کا انکار کر دے، بالآخر یہ اپنی والدہ کو زبردستی منہ کھول کر کھلاتے، جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (صحيح مسلم، ترمذي، تفسير سورة العنكبوت)

التفاسير:

external-link copy
9 : 29

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُدْخِلَنَّهُمْ فِی الصّٰلِحِیْنَ ۟

اور جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور نیک کام کیے انہیں میں اپنے نیک بندوں میں شمار کر لوں گا.(1) info

(1) یعنی اگر کسی کے والدین مشرک ہوں گے تو مومن بیٹا نیکوں کے ساتھ ہوگا، والدین کے ساتھ نہیں۔ اس لیے کہ گو والدین دنیا میں اس کے بہت قریب رہے ہوں گے لیکن اس کی محبت دینی اہل ایمان ہی کے ساتھ تھی بنا بریں «الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ» کے تحت وہ زمرۂ صالحین میں ہوگا۔

التفاسير:

external-link copy
10 : 29

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ فَاِذَاۤ اُوْذِیَ فِی اللّٰهِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللّٰهِ ؕ— وَلَىِٕنْ جَآءَ نَصْرٌ مِّنْ رَّبِّكَ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّا كُنَّا مَعَكُمْ ؕ— اَوَلَیْسَ اللّٰهُ بِاَعْلَمَ بِمَا فِیْ صُدُوْرِ الْعٰلَمِیْنَ ۟

اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو زبانی کہتے ہیں کہ ہم ایمان ﻻئے ہیں لیکن جب اللہ کی راه میں کوئی مشکل آن پڑتی ہے تو لوگوں کی ایذا دہی کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کی طرح بنا لیتے ہیں(1) ، ہاں اگر اللہ کی مدد آجائے(2) تو پکار اٹھتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھی ہی ہیں(3) کیا دنیا جہان کے سینوں میں جو کچھ ہے اس سے اللہ تعالیٰ دانا نہیں ہے؟(4) info

(1) اس میں اہل نفاق یا کمزور ایمان والوں کا حال بیان کیا گیا ہے کہ ایمان کی وجہ سے انہیں ایذا پہنچتی ہے تو عذاب الٰہی کی طرح وہ ان کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ نتیجتاً وہ ایمان سے پھر جاتے اور دین عوام کو اختیار کر لیتے ہیں۔
(2) یعنی مسلمانوں کو فتح وغلبہ نصیب ہو جائے۔
(3) یعنی تمہارے دینی بھائی ہیں۔ یہ وہی مضمون ہے جو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ وہ لوگ تمہیں دیکھتے رہتے ہیں، اگر تمہیں اللہ کی طرف سے فتح ملتی ہے، تو کہتے ہیں کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے؟ اور اگر حالات کافروں کے لیے کچھ سازگار ہوتے ہیں تو کافروں سے جاکر کہتے ہیں کہ کیا ہم نے تم کو گھیر نہیں لیا تھا اور مسلمانوں سے تم کو نہیں بچایا تھا۔ (النساء: 141)
(4) یعنی کیا اللہ ان باتوں کو نہیں جانتا جو تمہارے دلوں میں ہے اور تمہارے ضمیروں میں پوشیدہ ہے۔ گو تم زبان سے مسلمانوں کا ساتھ ہونا ظاہر کرتے ہو۔

التفاسير:

external-link copy
11 : 29

وَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ ۟

جو لوگ ایمان ﻻئے اللہ انہیں بھی ﻇاہر کرکے رہے گا اور منافقوں کو بھی ﻇاہر کرکے رہے گا.(1) info

(1) اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ خوشی اور تکلیف دے کر آزمائے گا تاکہ منافق اور مومن کی تمیز ہو جائے جو دونوں حالتوں میں اللہ کی اطاعت کرے گا، وہ مومن ہے اور جو صرف خوشی اور راحت میں اطاعت کرے گا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ صرف اپنے حظ نفس کا مطیع ہے ، اللہ کا نہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا: «وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَكُمْ» (سورة محمد: 31) ”ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے، تاکہ ہم جان لیں تم میں مجاہد اور صابر کون ہیں اور تمہارے دیگر حالت بھی جانچیں گے“۔ جنگ احد کے بعد، جس میں مسلمان اختیار وامتحان کی بھٹی سے گزارے گئے تھے، فرمایا: «مَا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ» (سورة آل عمران: 179) ”نہیں ہے اللہ تعالیٰ کہ وہ چھوڑ دے مومنوں کو، اس حالت پر جس پر کہ تم ہو، یہاں تک کہ وہ جدا کر دے ناپاک کو پاک سے“۔

التفاسير:

external-link copy
12 : 29

وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوْا سَبِیْلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطٰیٰكُمْ ؕ— وَمَا هُمْ بِحٰمِلِیْنَ مِنْ خَطٰیٰهُمْ مِّنْ شَیْءٍ ؕ— اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ ۟

کافروں نے ایماں والوں سے کہا کہ تم ہماری راه کی تابعداری کرو تمہارے گناه ہم اٹھا لیں گے(1) ، حاﻻنکہ وه ان کے گناہوں میں سے کچھ بھی نہیں اٹھانے والے، یہ تو محض جھوٹے ہیں.(2) info

(1) یعنی تم اسی آبائی دین کی طرف لوٹ آو، جس پر ہم ابھی تک قائم ہیں، اس لیے کہ وہی دین صحیح ہے۔ اگر اس روایتی مذہب پر عمل کرنے سے تم گناہ گار ہوگے تو اس کے ذمے دار ہم ہیں، وہ بوجھ ہم اپنی گردنوں پر اٹھائیں گے۔
(2) اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ جھوٹے ہیں۔ قیامت کا دن تو ایسا ہوگا کہ وہاں کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ «وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى» وہاں تو ایک دوست ، دوسرے دوست کو نہیں پوچھے گا چاہے ان کے درمیان نہایت گہری دوستی ہو۔ «وَلا يَسْأَلُ حَمِيمٌ حَمِيمًا» (المعارج: 10) حتیٰ کہ رشتے دار ایک دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائیں گے «وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَى حِمْلِهَا لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى» (سورة فاطر: 18) اور یہاں بھی اس بوجھ کے اٹھانے کی نفی فرمائی۔

التفاسير:

external-link copy
13 : 29

وَلَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَهُمْ وَاَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ ؗ— وَلَیُسْـَٔلُنَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَمَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ ۟۠

البتہ یہ اپنے بوجھ ڈھولیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ ہی اور بوجھ بھی(1) ۔ اور جو کچھ افترا پردازیاں کر رہے ہیں ان سب کی بابت ان سے باز پرس کی جائے گی. info

(1) یعنی یہ ائمہ کفر اور داعیان ضلال اپنا ہی بوجھ نہیں اٹھائیں گے، بلکہ ان لوگوں کے گناہوں کا بوجھ بھی ان پر ہوگا جو ان کی سعی وکاوش سے گمراہ ہوئے تھے۔ یہ مضمون سورۃ النحل آیت 25 میں بھی گزر چکا ہے۔ حدیث میں ہے، جو ہدایت کی طرف بلاتا ہے ، اس کے لیے اپنی نیکیوں کے اجر کے ساتھ ان لوگوں کی نیکیوں کا اجر بھی ہوگا جو اس کی وجہ سے قیامت تک ہدایت کی پیروی کریں گے، بغیر اس کے کہ ان کے اجر میں کوئی کمی ہو۔ اور جو گمراہی کا داعی ہوگا، اس کے لیے اپنے گناہوں کے علاوہ ان لوگوں کے گناہوں کا بوجھ بھی ہوگا جو قیامت تک اس کی وجہ سے گمراہی کا راستہ اختیار کرنے والے ہوں گے، بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کمی ہو۔ (أبو داود، كتاب السنة، باب لزوم السنة ابن ماجه، المقدمة، باب من سن سنة حسنة أو سيئة) اسی اصول سے قیامت تک ظلم سے قتل کیے جانے والوں کے خون کا گناہ آدم (عليه السلام) کے پہلے بیٹے (قابیل) پر ہوگا۔ اس لیے کہ سب سے پہلے اسی نے ناحق قتل کیا تھا (مسند أحمد 1/383 وقد أخرجه الجماعة سوى أبي داود من طرق )

التفاسير:

external-link copy
14 : 29

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِهٖ فَلَبِثَ فِیْهِمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَامًا ؕ— فَاَخَذَهُمُ الطُّوْفَانُ وَهُمْ ظٰلِمُوْنَ ۟

اور ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا وه ان میں ساڑھے نو سو سال تک رہے(1) ، پھر تو انہیں طوفان نے دھر پکڑا اور وه تھے بھی ﻇالم. info

(1) قرآن کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان کی دعوت وتبلیغ کی عمر ہے۔ ان کی پوری عمر کتنی تھی؟ اس کی صراحت نہیں کی گئی۔ بعض کہتے ہیں چالیس سال نبوت سے قبل اور ساٹھ سال طوفان کے بعد، اس میں شامل کر لیے جائیں۔ اور بھی کئی اقوال ہیں، وَاللهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔

التفاسير: