(1) یعنی یہ دعوت کہ کائنات میں صرف ایک ہی اللہ اس کے لائق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔ ہمارے لیے بالکل نئی ہے۔ یہ ہم نے سنی ہے نہ ہمارے باپ دادا اس توحید سے واقف تھے۔ مشرکین مکہ نے بھی نبی (صلى الله عليه وسلم) کی بابت کہا تھا «أَجَعَلَ الآلِهَةَ إِلَهًا وَاحِدًا إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ» (ص: 5) ”اس نے تو تمام معبودوں کو (ختم کرکے) ایک ہی معبود بنا دیا ہے؟ یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہے“۔
(1) یعنی مجھ سے اور تم سے زیادہ ہدایت کا جاننے والا اللہ ہے، اس لیے جو بات اللہ کی طرف سے آئے گی، وہ صحیح ہوگی یا تمہارے اور تمہارے باپ دادوں کی؟۔
(2) اچھے انجام سے مراد آخرت میں اللہ کی رضامندی اور اس کی رحمت ومغفرت کا مستحق قرار پا جانا ہے اور یہ استحقاق صرف اہل توحید کے حصے میں آئے گا۔
(1) ظالم سے مراد مشرک اور کافر ہیں۔ کیونکہ ظلم کے معنی ہیں ”وَضْعُ الشَّيْءِ فِي غَيْرِ مَحَلِّهِ“ کسی چیز کو اس کے اصل مقام سے ہٹا کر کسی اور جگہ رکھ دینا۔ مشرک بھی چونکہ الوہیت کے مقام پر ایسے لوگوں کو بٹھا دیتے ہیں جو اس کے مستحق نہیں ہوتے۔ اسی طرح کافر بھی رب کے اصل مقام سے ناآشنا ہی رہتے ہیں۔ اس لیے یہ لوگ سب سے بڑے ظالم ہیں اور یہ کامیابی سے یعنی آخرت میں اللہ کی رحمت ومغفرت سے محروم رہیں گے۔ اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ اصل کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے۔ دنیا میں خوش حالی اور مال واسباب کی فراوانی حقیقی کامیابی نہیں ہے، اس لیے کہ یہ عارضی کامیابی اہل کفر وشرک کو بھی دنیا میں مل جاتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ ان سے کامیابی کی نفی فرما رہا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حقیقی کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے نہ کہ دنیا کی چند روزہ عارضی خوش حالی وفراوانی۔
(2) یعنی مٹی کو آگ میں تپا کر اینٹیں تیار کر۔ ہامان، فرعون کا وزیر، مشیر اور اس کے معاملات کا انتظام کرنے والا تھا۔
(3) یعنی ایک اونچا اور مضبوط محل تیار کر، جس پر چڑھ کر میں آسمان پر یہ دیکھ سکوں کہ وہاں میرے سوا کوئی اور رب ہے؟
(4) یعنی موسیٰ (عليه السلام) جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ آسمانوں پر رب ہے جو ساری کائنات کا پالنہار ہے، میں تو اسے جھوٹا سمجھتا ہوں۔
(1) زمین سے مراد ارض مصر ہے جہاں فرعون حکمران تھا اور استکبار کا مطلب، بغیر استحقاق کے اپنے کو بڑا سمجھنا ہے۔ یعنی ان کے پاس کوئی دلیل ایسی نہیں تھی جو موسیٰ (عليه السلام) کے دلائل ومعجزات کا رد کر سکتی لیکن استکبار بلکہ عدوان کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے ہٹ دھرمی اور انکار کا راستہ اختیار کیا۔
(1) یعنی جب ان کا کفروطغیان حد سے بڑھ گیا اور کسی طرح بھی وہ ایمان لانے پر آمادہ نہیں ہوئے تو بالآخر ایک صبح ہم نے انہیں دریا میں غرق کر دیا (جس کی تفصیل سورۂ شعراء میں گزر چکی ہے)۔
(1) یعنی جو بھی ان کے بعد ایسے لوگ ہوں گے جو اللہ کی توحید یا اس کے وجود کے منکر ہوں گے، تو ان کا امام وپیشوا یہی فرعونی سمجھے جائیں گے جو جہنم کے داعی ہیں۔
(1) یعنی دنیا میں بھی ذلت ورسوائی ان کا مقدر بنی اور آخرت میں بھی وہ بدحال ہوں گے۔ یعنی چہرے سیاہ اور آنکھیں نیلگوں۔ جیسا کہ جہنمیوں کے تذکرے میں آتا ہے۔
(1) یعنی فرعون اور اس کی قوم یا قوم نوح وعاد وثمود وغیرہ کی ہلاکت کے بعد موسیٰ (عليه السلام) کو کتاب (تورات) دی۔
(2) جس سے وہ حق کو پہچان لیں اور اسے اختیار کریں اور اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پائیں۔
(3) یعنی اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کریں اور اللہ پر ایمان لائیں اور اس کے پیغمبروں کی اطاعت کریں جو انہیں خیر ورشد اور فلاح حقیقی کی طرف بلاتے ہیں۔