আল-কোৰআনুল কাৰীমৰ অৰ্থানুবাদ - উৰ্দু অনুবাদ - মুহাম্মদ জুনাগঢ়ী

পৃষ্ঠা নং:close

external-link copy
36 : 28

فَلَمَّا جَآءَهُمْ مُّوْسٰی بِاٰیٰتِنَا بَیِّنٰتٍ قَالُوْا مَا هٰذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّفْتَرًی وَّمَا سَمِعْنَا بِهٰذَا فِیْۤ اٰبَآىِٕنَا الْاَوَّلِیْنَ ۟

پس جب ان کے پاس موسیٰ (علیہ السلام) ہمارے دیے ہوئے کھلے معجزے لے کر پہنچے تو وه کہنے لگے یہ تو صرف گھڑا گھڑایا جادو ہے ہم نے اپنے اگلے باپ دادوں کے زمانہ میں کبھی یہ نہیں سنا.(1) info

(1) یعنی یہ دعوت کہ کائنات میں صرف ایک ہی اللہ اس کے لائق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔ ہمارے لیے بالکل نئی ہے۔ یہ ہم نے سنی ہے نہ ہمارے باپ دادا اس توحید سے واقف تھے۔ مشرکین مکہ نے بھی نبی (صلى الله عليه وسلم) کی بابت کہا تھا «أَجَعَلَ الآلِهَةَ إِلَهًا وَاحِدًا إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ» (ص: 5) ”اس نے تو تمام معبودوں کو (ختم کرکے) ایک ہی معبود بنا دیا ہے؟ یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہے“۔

التفاسير:

external-link copy
37 : 28

وَقَالَ مُوْسٰی رَبِّیْۤ اَعْلَمُ بِمَنْ جَآءَ بِالْهُدٰی مِنْ عِنْدِهٖ وَمَنْ تَكُوْنُ لَهٗ عَاقِبَةُ الدَّارِ ؕ— اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ ۟

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کہنے لگے میرا رب تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے جو اس کے پاس کی ہدایت لے کر آتا ہے(1) اور جس کے لیے آخرت کا (اچھا) انجام ہوتا ہے(2)۔ یقیناً بے انصافوں کا بھلا نہ ہوگا.(3) info

(1) یعنی مجھ سے اور تم سے زیادہ ہدایت کا جاننے والا اللہ ہے، اس لیے جو بات اللہ کی طرف سے آئے گی، وہ صحیح ہوگی یا تمہارے اور تمہارے باپ دادوں کی؟۔
(2) اچھے انجام سے مراد آخرت میں اللہ کی رضامندی اور اس کی رحمت ومغفرت کا مستحق قرار پا جانا ہے اور یہ استحقاق صرف اہل توحید کے حصے میں آئے گا۔

التفاسير:

external-link copy
38 : 28

وَقَالَ فِرْعَوْنُ یٰۤاَیُّهَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرِیْ ۚ— فَاَوْقِدْ لِیْ یٰهَامٰنُ عَلَی الطِّیْنِ فَاجْعَلْ لِّیْ صَرْحًا لَّعَلِّیْۤ اَطَّلِعُ اِلٰۤی اِلٰهِ مُوْسٰی ۙ— وَاِنِّیْ لَاَظُنُّهٗ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ ۟

فرعون کہنے لگا اے درباریو! میں تو اپنے سوا کسی کو تمہارا معبود نہیں جانتا۔ سن اے ہامان! تو میرے لیے مٹی کو آگ سے پکوا(1) پھر میرے لیے ایک محل تعمیر کر تو میں موسیٰ کے معبود کو جھانک لوں(2) اسے میں تو جھوٹوں میں سے ہی گمان کر رہا ہوں.(3) info

(1) ظالم سے مراد مشرک اور کافر ہیں۔ کیونکہ ظلم کے معنی ہیں ”وَضْعُ الشَّيْءِ فِي غَيْرِ مَحَلِّهِ“ کسی چیز کو اس کے اصل مقام سے ہٹا کر کسی اور جگہ رکھ دینا۔ مشرک بھی چونکہ الوہیت کے مقام پر ایسے لوگوں کو بٹھا دیتے ہیں جو اس کے مستحق نہیں ہوتے۔ اسی طرح کافر بھی رب کے اصل مقام سے ناآشنا ہی رہتے ہیں۔ اس لیے یہ لوگ سب سے بڑے ظالم ہیں اور یہ کامیابی سے یعنی آخرت میں اللہ کی رحمت ومغفرت سے محروم رہیں گے۔ اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ اصل کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے۔ دنیا میں خوش حالی اور مال واسباب کی فراوانی حقیقی کامیابی نہیں ہے، اس لیے کہ یہ عارضی کامیابی اہل کفر وشرک کو بھی دنیا میں مل جاتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ ان سے کامیابی کی نفی فرما رہا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حقیقی کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے نہ کہ دنیا کی چند روزہ عارضی خوش حالی وفراوانی۔
(2) یعنی مٹی کو آگ میں تپا کر اینٹیں تیار کر۔ ہامان، فرعون کا وزیر، مشیر اور اس کے معاملات کا انتظام کرنے والا تھا۔
(3) یعنی ایک اونچا اور مضبوط محل تیار کر، جس پر چڑھ کر میں آسمان پر یہ دیکھ سکوں کہ وہاں میرے سوا کوئی اور رب ہے؟
(4) یعنی موسیٰ (عليه السلام) جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ آسمانوں پر رب ہے جو ساری کائنات کا پالنہار ہے، میں تو اسے جھوٹا سمجھتا ہوں۔

التفاسير:

external-link copy
39 : 28

وَاسْتَكْبَرَ هُوَ وَجُنُوْدُهٗ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَظَنُّوْۤا اَنَّهُمْ اِلَیْنَا لَا یُرْجَعُوْنَ ۟

اس نے اور اس کے لشکروں نے ناحق طریقے پر ملک میں تکبر کیا(1) اور سمجھ لیا کہ وه ہماری جانب لوٹائے ہی نہ جائیں گے. info

(1) زمین سے مراد ارض مصر ہے جہاں فرعون حکمران تھا اور استکبار کا مطلب، بغیر استحقاق کے اپنے کو بڑا سمجھنا ہے۔ یعنی ان کے پاس کوئی دلیل ایسی نہیں تھی جو موسیٰ (عليه السلام) کے دلائل ومعجزات کا رد کر سکتی لیکن استکبار بلکہ عدوان کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے ہٹ دھرمی اور انکار کا راستہ اختیار کیا۔

التفاسير:

external-link copy
40 : 28

فَاَخَذْنٰهُ وَجُنُوْدَهٗ فَنَبَذْنٰهُمْ فِی الْیَمِّ ۚ— فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظّٰلِمِیْنَ ۟

بالﺂخر ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو پکڑ لیا اور دریا برد کر دیا(1) ، اب دیکھ لے کہ ان گنہگاروں کا انجام کیسا کچھ ہوا؟ info

(1) یعنی جب ان کا کفروطغیان حد سے بڑھ گیا اور کسی طرح بھی وہ ایمان لانے پر آمادہ نہیں ہوئے تو بالآخر ایک صبح ہم نے انہیں دریا میں غرق کر دیا (جس کی تفصیل سورۂ شعراء میں گزر چکی ہے)۔

التفاسير:

external-link copy
41 : 28

وَجَعَلْنٰهُمْ اَىِٕمَّةً یَّدْعُوْنَ اِلَی النَّارِ ۚ— وَیَوْمَ الْقِیٰمَةِ لَا یُنْصَرُوْنَ ۟

اور ہم نے انہیں ایسے امام بنا دیئے کہ لوگوں کو جہنم کی طرف بلائیں(1) اور روز قیامت مطلق مدد نہ کیے جائیں. info

(1) یعنی جو بھی ان کے بعد ایسے لوگ ہوں گے جو اللہ کی توحید یا اس کے وجود کے منکر ہوں گے، تو ان کا امام وپیشوا یہی فرعونی سمجھے جائیں گے جو جہنم کے داعی ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
42 : 28

وَاَتْبَعْنٰهُمْ فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا لَعْنَةً ۚ— وَیَوْمَ الْقِیٰمَةِ هُمْ مِّنَ الْمَقْبُوْحِیْنَ ۟۠

اور ہم نے اس دنیا میں بھی ان کے پیچھے اپنی لعنت لگا دی اور قیامت کے دن بھی وه بدحال لوگوں میں سے ہوں گے.(1) info

(1) یعنی دنیا میں بھی ذلت ورسوائی ان کا مقدر بنی اور آخرت میں بھی وہ بدحال ہوں گے۔ یعنی چہرے سیاہ اور آنکھیں نیلگوں۔ جیسا کہ جہنمیوں کے تذکرے میں آتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
43 : 28

وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْكِتٰبَ مِنْ بَعْدِ مَاۤ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰی بَصَآىِٕرَ لِلنَّاسِ وَهُدًی وَّرَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ ۟

اور ان اگلے زمانہ والوں کو ہلاک کرنے کے بعد ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ایسی کتاب عنایت فرمائی(1) جو لوگوں کے لیے دلیل اور ہدایت ورحمت ہوکر آئی تھی تاکہ وه نصیحت حاصل کرلیں.(2) info

(1) یعنی فرعون اور اس کی قوم یا قوم نوح وعاد وثمود وغیرہ کی ہلاکت کے بعد موسیٰ (عليه السلام) کو کتاب (تورات) دی۔
(2) جس سے وہ حق کو پہچان لیں اور اسے اختیار کریں اور اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پائیں۔
(3) یعنی اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کریں اور اللہ پر ایمان لائیں اور اس کے پیغمبروں کی اطاعت کریں جو انہیں خیر ورشد اور فلاح حقیقی کی طرف بلاتے ہیں۔

التفاسير: