(1) یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اللہ کے پیغمبر ہیں کیونکہ وحی الٰہی کے بغیر صدیوں قبل کے واقعات بالکل اس طریقے سے بیان کر دینا جس طرح وہ پیش آئے، ناممکن ہے۔ تاہم اس کے باوجود اس سے فائدہ اہل ایمان ہی کو ہوگا، کیونکہ وہی آپ کی باتوں کی تصدیق کریں گے۔
(1) یعنی ظلم وستم کا بازار گرم کر رکھا تھا اور اپنے کو بڑا معبود کہلاتا تھا۔
(2) جن کے ذمے الگ الگ کام اور ڈیوٹیاں تھیں۔
(3) اس سے مراد بنی اسرائیل ہیں، جو اس وقت کی افضل ترین قوم تھی لیکن ابتلا وآزمائش کے طور پر فرعون کی غلام اور اس کی ستم رانیوں کا تختہ مشق بنی ہوئی تھی۔
(4) جس کی وجہ بعض نجومیوں کی یہ پیش گوئی تھی کہ بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والے ایک بچے کے ہاتھوں فرعون کی ہلاکت اور اس کی سلطنت کا خاتمہ ہوگا۔ جس کا حل اس نے یہ نکالا کہ ہر پیدا ہونے والا اسرائیلی بچہ قتل کر دیا جائے۔ حالانکہ اس احمق نے یہ نہیں سوچا کہ اگر کاﮨﻦ سچا ہے تو ایسا یقیناً ہوکر رہے گا چاہے وہ بچے قتل کرواتا رہے۔ اور اگر وہ جھوٹا ہے تو قتل کروانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ (فتح القدیر) بعض کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (عليه السلام) کی طرف سے یہ خوشخبری منتقل ہوتی چلی آرہی تھی کہ ان کی نسل سے ایک بچہ ہوگا جس کے ہاتھوں سلطنت مصر کی تباہی ہوگی۔ قبطیوں نے یہ بشارت بنی اسرائیل سے سنی اور فرعون کو اس سے آگاہ کر دیا جس پر اس نے بنی اسرائیل کے بچوں کو مروانا شروع کر دیا۔ (ابن کثیر)
(1) چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اس کمزور اور غلام قوم کو مشرق ومغرب کا وارث (مالک وحکمران) بنا دیا (الاعراف: 137) نیز انہیں دین کا پیشوا اور امام بھی بنا دیا۔