(1) ان اہل کتاب سے مراد مدینے کے وہ یہودی ہیں جن کی اکثریت قبول اسلام سے محروم رہی اوروہ اسلام، مسلمانوں اور نبی (صلى الله عليه وسلم) کے خلاف مکروہ سازشوں میں مصروف رہے تاآنکہ ان کے دوقبیلے جلا وطن اورایک قبیلہ قتل کردیا گیا۔
(1) یعنی کتاب اللہ کے ماننے سے گریز واعراض کی وجہ ان کایہ زعم باطل ہے کہ اول تووہ جہنم میں جائیں گے ہی نہیں، اوراگرگئے بھی تو صرف چند دن ہی کے لئے جائیں گے۔ اور انہی من گھڑت باتوں نے انہیں دھوکےاور فریب میں ڈال رکھا ہے۔
(1) قیامت والے دن ان کے یہ دعوے اور غلط عقائد کچھ کام نہ آئیں گے اور اللہ تعالیٰ بے لاگ انصاف کے ذریعے سے ہر نفس کو، اس کے کیے کاپورا پورا بدلہ دے گا،کسی پر ظلم نہیں ہوگا۔
(1) اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی بے پناہ قوت وطاقت کا اظہار ہے، شاہ کو گدا بنا دے، گدا کو شاہ بنا دے، تمام اختیارات کا مالک وہی ہے الْخَيْرُ بِيَدِكَ کی بجائے بِيَدِكَ الْخَيْرُ (خبر کی تقدیم کے ساتھ) سے مقصود تخصیص ہے یعنی تمام بھلائیاں صرف تیرے ہی ہاتھ میں ہیں۔ تیرے سوا کوئی بھلائی دینے والا نہیں۔ ”شر“ کا خالق بھی اگرچہ اللہ تعالیٰ ہی ہے لیکن ذکر صرف خیر کا کیا گیا ہے، شر کا نہیں۔ اس لئے کہ خیر اللہ کا فضل محض ہے، بخلاف شر کے کہ یہ انسان کے اپنے عمل کا بدلہ ہے جو اسے پہنچتا ہے یا اس لئے کہ شر بھی اس کے قضا وقدر کا حصہ ہے جو خیر کو متضمن ہے، اس اعتبار سے اس کے تمام افعال خیر ہیں۔ فَأَفْعَالُهُ كُلُّهَا خَيْرٌ (فتح القدير)
(1) رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرنے کا مطلب موسمی تغیرات ہیں۔ رات لمبی ہوتی ہے تو دن چھوٹا ہو جاتا ہے اور دوسرے موسم میں اس کے برعکس دن لمبا اور رات چھوٹی ہو جاتی ہے۔ یعنی کبھی رات کا حصہ دن میں اور کبھی دن کا حصہ رات میں داخل کردیتا ہے جس سے رات اور دن چھوٹے یا بڑے ہوجاتے ہیں۔
(2) جیسے نطفہ (مردہ) پہلے زندہ انسان سے نکالتا ہے پھر اس مردہ (نطفہ) سے انسان۔ اسی طرح مردہ انڈے سے پہلے مرغی اور پھر زندہ مرغی سے انڈہ (مردہ) یا کافر سے مومن اور مومن سے کافر پیدا فرماتا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت معاذ (رضي الله عنه) نے نبی (صلى الله عليه وسلم) سے اپنے اوپر قرض کی شکایت کی تو آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا کہ ”تم آیت «قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ» (آل عمران) پڑھ کر یہ دعا کرو ”رَحْمَنَ الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَرَحِيمَهُمَا تُعْطِي مَنْ تَشَاءُ مِنْهُمَا وَتَمْنَعُ مَنْ تَشَاءُ، ارْحَمْنِي رَحْمَةً تُغْنِينِي بِهَا عَنْ رَحْمَةِ مَنْ سِوَاكَ، اللَّهُمَّ أغْنِنِي مِنَ الْفَقْرِ، وَاقْضِ عَنِّي الدَّيْنَ“ ایک دوسری روایت میں ہے کہ ”یہ ایسی دعا ہے کہ تم پر احد پہاڑ جتنا قرض بھی ہو تواللہ تعالیٰ اس کی ادائیگی کا تمہارے لئے انتظام فرما دے گا۔“ (مجمع الزوائد: 10/186- رجاله ثقات)
(1) اولیا ولی کی جمع ہے۔ ولی ایسے دوست کو کہتے ہیں جس سے ولی محبت اورخصوصی تعلق ہو۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو اہل ایمان کا ولی قرار دیا ہے۔ «للَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا» ( البقرۃ: 257) یعنی ”اللہ اہل ایمان کا ولی ہے“۔ مطلب یہ ہوا کہ اہل ایمان کو ایک دوسرے سے محبت اور خصوصی تعلق ہے اور وہ آپس میں ایک دوسرے کے ولی (دوست) ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں اہل ایمان کو اس بات سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے کہ وہ کافروں کو اپنا دوست بنائیں۔ کیونکہ کافر اللہ کے بھی دشمن ہیں اور اہل ایمان کے بھی دشمن ہیں۔ تو پھر ان کو دوست بنانے کا جواز کس طرح ہو سکتا ہے؟ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو قرآن کریم میں کئی جگہ بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے تاکہ اہل ایمان کافروں کی موالات (دوستی) اور ان سے خصوصی تعلق قائم کرنے سے گریز کریں۔ البتہ حسب ضرورت ومصلحت ان سے صلح ومعاہدہ بھی ہو سکتا ہے اور تجارتی لین دین بھی۔ اسی طرح جو کافر، مسلمانوں کے دشمن نہ ہوں، ان سے حسن سلوک اور مدارات کا معاملہ بھی جائز ہے (جس کی تفصیل سورۂ ممتحنہ میں ہے) کیونکہ یہ سارے معاملات، موالات (دوستی ومحبت) سے مختلف ہے۔
(2) یہ اجازت ان مسلمانوں کے لئے ہے جو کسی کافر حکومت میں رہتے ہوں کہ ان کے لئے اگر کسی وقت اظہار دوستی کے بغیر ان کے شر سے بچنا ممکن نہ ہو تو وہ زبان سے ظاہری طور پر دوستی کا اظہار کرسکتے ہیں۔