《古兰经》译解 - 乌尔都语翻译 - 穆罕默德·古纳克里。

页码:close

external-link copy
94 : 9

یَعْتَذِرُوْنَ اِلَیْكُمْ اِذَا رَجَعْتُمْ اِلَیْهِمْ ؕ— قُلْ لَّا تَعْتَذِرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكُمْ قَدْ نَبَّاَنَا اللّٰهُ مِنْ اَخْبَارِكُمْ ؕ— وَسَیَرَی اللّٰهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُوْلُهٗ ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِلٰی عٰلِمِ الْغَیْبِ وَالشَّهَادَةِ فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ۟

یہ لوگ تمہارے سامنے عذر پیش کریں گے جب تم ان کے پاس واپس جاؤ گے۔ آپ کہہ دیجئے کہ یہ عذر پیش مت کرو ہم کبھی تم کو سچا نہ سمجھیں گے، اللہ تعالیٰ ہم کو تمہاری خبر دے چکا ہے اور آئنده بھی اللہ اور اس کا رسول تمہاری کارگزاری دیکھ لیں گے پھر ایسے کے پاس لوٹائے جاؤ گے جو پوشیده اور ﻇاہر سب کا جاننے واﻻ ہے پھر وه تم کو بتادے گا جو کچھ تم کرتے تھے۔ info
التفاسير:

external-link copy
95 : 9

سَیَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَكُمْ اِذَا انْقَلَبْتُمْ اِلَیْهِمْ لِتُعْرِضُوْا عَنْهُمْ ؕ— فَاَعْرِضُوْا عَنْهُمْ ؕ— اِنَّهُمْ رِجْسٌ ؗ— وَّمَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ ۚ— جَزَآءً بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ ۟

ہاں وه اب تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھا جائیں گے جب تم ان کے پاس واپس جاؤ گے تاکہ تم ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دو۔ سو تم ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دو۔ وه لوگ بالکل گندے ہیں اور ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے ان کاموں کے بدلے جنہیں وه کیا کرتے تھے۔ info
التفاسير:

external-link copy
96 : 9

یَحْلِفُوْنَ لَكُمْ لِتَرْضَوْا عَنْهُمْ ۚ— فَاِنْ تَرْضَوْا عَنْهُمْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یَرْضٰی عَنِ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ ۟

یہ اس لیے قسمیں کھائیں گے کہ تم ان سے راضی ہوجاؤ۔ سو اگر تم ان سے راضی بھی ہوجاؤ تو اللہ تعالیٰ تو ایسے فاسق لوگوں سے راضی نہیں ہوتا۔(1) info

(1) ان تین آیات میں ان منافقین کا ذکر ہے جو تبوک کے سفر میں مسلمانوں کے ساتھ نہیں گئے تھے نبی (صلى الله عليه وسلم) اور مسلمانوں کو بخیریت واپسی پر اپنے عذر پیش کرکے ان کی نظروں میں وفادار بننا چاہتے تھے۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا جب ان کے پاس آؤ گے تو یہ عذر پیش کریں گے، تم ان سے کہہ دو، کہ ہمارے سامنے عذر پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ اللہ تعالٰی نے تمہارے اصل حالات سے ہمیں باخبر کر دیا ہے۔ اب تمہارے جھوٹے عذروں کا ہم اعتبار کس طرح کر سکتے ہیں؟ البتہ ان عذروں کی حقیقت مستقبل قریب میں مزید واضح ہو جائے گی، تمہارا عمل، جسے اللہ تعالٰی بھی دیکھ رہا ہے اور رسول (صلى الله عليه وسلم) کی نظر بھی اس پر ہے، تمہارے عذروں کی حقیقت کو خود بے نقاب کر دے گا۔ اور اگر تم رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) اور مسلمانوں کو پھر بھی فریب اور مغالطہ دینے میں کامیاب رہے تو بالآخر ایک وقت وہ تو آئے گا ہی، جب تم ایسی ذات کی بارگاہ مین حاضر کئے جاؤگے جو ظاہر و باطن ہر چیز کو خوب جانتی ہے۔ اسے تو تم بہر صورت دھوکہ نہیں دے سکتے، وہ اللہ تمہارا سارا کچا چٹھا تمہارے سامنے کھول کر رکھ دے گا۔ دوسری آیت میں فرمایا کہ تمہارے لوٹنے پر یہ قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے اعراض یعنی درگزر کردو۔ پس تم انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دو۔ یہ لوگ اپنے عقائد و اعمال کے لحاظ سے پلید ہیں، انہوں نے جو کچھ کیا ہے۔ اس کا بدلہ جہنم ہی ہے۔ تیسری آیت میں فرمایا یہ تمہیں راضی کرنے کے لئے قسمیں کھائیں گے۔ لیکن ان نادانوں کو یہ پتہ نہیں کہ اگر تم ان سے راضی ہو بھی جاؤ تو انہوں نے جس فسق یعنی اطاعت الٰہی سے گریز وفرار کا راستہ اختیار کیا ہے اس کی موجودگی میں اللہ تعالٰی ان سے راضی کیونکر ہو سکتا ہے؟۔

التفاسير:

external-link copy
97 : 9

اَلْاَعْرَابُ اَشَدُّ كُفْرًا وَّنِفَاقًا وَّاَجْدَرُ اَلَّا یَعْلَمُوْا حُدُوْدَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلٰی رَسُوْلِهٖ ؕ— وَاللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ ۟

دیہاتی لوگ کفر اور نفاق میں بہت ہی سخت ہیں(1) اور ان کو ایسا ہونا ہی چاہئے کہ ان کو ان احکام کا علم نہ ہو جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر نازل فرمائے(2) ہیں اور اللہ بڑا علم واﻻ بڑی حکمت واﻻ ہے۔ info

(1) مذکورہ آیات میں ان منافقین کا تذکرہ تھا جو مدینہ شہر میں رہائش پذیر تھے۔ اور کچھ منافقین وہ بھی تھے جو بادیہ نشین یعنی مدینہ کے باہر دیہاتوں میں رہتے تھے، دیہات کے ان باشندوں کو اعراب کہا جاتا ہے جو اعرابی کی جمع ہے شہریوں کے اخلاق و کردار میں درشتی اور کھردراپن زیادہ پایا جاتا ہے اس طرح ان میں جو کافر اور منافق تھے وہ کفر و نفاق میں بھی شہریوں سے زیادہ سخت اور احکام شریعت سے زیادہ بےخبر تھے اس آیت میں انہی کا تذکرہ اور انکے اسی کردار کی وضاحت ہے۔ بعض احادیث سے بھی ان کے کردار پر روشنی پڑتی ہے۔ مثلًا ایک موقع پر کچھ اعرابی رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے پوچھا «اَتُقَبْلُوْنَ صِبْیَانکُمْ»، ”کیا تم اپنے بچے کو بوسہ دیتے ہو؟“، صحابہ (رضي الله عنهم) نے عرض کیا ”ہاں“ انہوں نے کہا ”واللہ! ہم تو بوسہ نہیں دیتے“ رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) نے سن کر فرمایا ”اگر اللہ نے تمہارے دلوں میں سے رحم و شفقت کا جذبہ نکال دیا ہے تو میرا اس میں کیا اختیار ہے؟“۔ (صحیح بخاری کتاب الأدب، باب رحمة الولد وتقبیله ومعانقته۔ صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب رحمته صلى الله عليه وسلم الصبیان والعیال)
(2) اس کی وجہ یہ ہے کہ چوں کہ وہ شہر سے دور رہتے ہیں اور اللہ اور رسول (صلى الله عليه وسلم) کی باتیں سننے کا اتفاق ان کو نہیں ہوتا۔

التفاسير:

external-link copy
98 : 9

وَمِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ یَّتَّخِذُ مَا یُنْفِقُ مَغْرَمًا وَّیَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَآىِٕرَ ؕ— عَلَیْهِمْ دَآىِٕرَةُ السَّوْءِ ؕ— وَاللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ۟

اور ان دیہاتیوں میں سے بعض(1) ایسے ہیں کہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کو جرمانہ سمجھتے ہیں(2) اور تم مسلمانوں کے واسطے برے وقت کے منتظر رہتے ہیں(3)، برا وقت ان ہی پر پڑنے واﻻ ہے(4) اور اللہ سننے واﻻ جاننے واﻻ ہے۔ info

(1) اب ان دیہاتیوں کی دو قسمیں بیان کی جا رہی ہیں یہ پہلی قسم ہے۔
(2) غُرْم تاوان اور جرمانے کو کہتے ہیں۔ یعنی ایسا خرچ ہو جو انسان کو نہایت ناگواری سے ناچار کرنا پڑ جاتا ہے۔
(3) دَوَائِرُ۔ دَا ئِرَۃ کی جمع ہے، گردش زمانہ یعنی مصائب و آلام یعنی وہ منتظر رہتے ہیں کہ مسلمان زمانے کی گردشوں یعنی مصائب کا شکار ہوں۔
(4) یہ بد دعا یا خبر ہے کہ زمانے کی گردش ان پر ہی پڑے۔ کیونکہ وہی اس کے مستحق ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
99 : 9

وَمِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَیَتَّخِذُ مَا یُنْفِقُ قُرُبٰتٍ عِنْدَ اللّٰهِ وَصَلَوٰتِ الرَّسُوْلِ ؕ— اَلَاۤ اِنَّهَا قُرْبَةٌ لَّهُمْ ؕ— سَیُدْخِلُهُمُ اللّٰهُ فِیْ رَحْمَتِهٖ ؕ— اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۟۠

اور بعض اہل دیہات میں ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کو عنداللہ قرب حاصل ہونے کا ذریعہ اور رسول کی دعا کا ذریعہ بناتے ہیں(1) ، یاد رکھو کہ ان کا یہ خرچ کرنا بیشک ان کے لیے موجب قربت ہے، ان کو اللہ تعالیٰ ضرور اپنی رحمت میں داخل کرے گا(2)۔ اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت واﻻ بڑی رحمت واﻻ ہے۔ info

(1) یہ اعراب کی دوسری قسم ہے جن کو اللہ نے شہر سے دور رہنے کے باوجود، اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانے کی توفیق عطا فرمائی۔ اور اس ایمان کی بدولت ان سے وہ جہالت بھی دور فرما دی جو بددینیت کی وجہ سے اہل بادیہ میں عام طور پر ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ اللہ کی راہ میں خرچ کردہ مال کو جرمانہ سمجھنے کی بجائے۔ اللہ کے قرب کا اور رسول (صلى الله عليه وسلم) کی دعائیں لینے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یہ اشارہ ہے رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کے اس طرز عمل کی طرف، جو صدقہ دینے والوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا۔ یعنی آپ ان کے حق میں دعائے خیر فرماتے۔ جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ ایک صدقہ لانے والے کے لئے آپ(صلى الله عليه وسلم) نے دعا فرمائی ”اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی آلِ اَبِیْ اَوْفٰی“ (صحیح بخاری نمبر 4166 ، صحیح مسلم نمبر 756) ”اے اللہ! ابو اوفی کی آل پر رحمت نازل فرما“
(2) یہ خوشخبری ہے کہ اللہ کا قرب انہیں حاصل ہے اور اللہ کی رحمت کے وہ مستحق ہیں۔

التفاسير: