(1) حالانکہ اس میں کوئی تعجب والی بات نہیں ہے۔ ہر نبی اسی قوم کا ایک فرد ہوتا تھا جس میں اسے مبعوث کیا جاتا تھا۔ اسی حساب سے قریش مکہ کو ڈرانے کےلئے قریش ہی میں سے ایک شخص کو نبوت کے لئے چن لیا گیا۔
(1) یعنی زمین انسان کے گوشت، ہڈی اور بال وغیرہ کو بوسیدہ کرکے کھا جاتی ہے یعنی اسے ریزہ ریزہ کر دیتی ہے وہ نہ صرف ہمارے علم میں ہے بلکہ ہمارے پاس لوح محفوظ میں بھی درج ہے۔ اس لئے ان تمام اجزا کو جمع کرکے انہیں دوبارہ زندہ کر دینا ہمارے لئے قطعاً مشکل امر نہیں ہے۔
(1) حَقٌّ (سچی بات) سے مراد قرآن، اسلام یا نبوت محمدیہ ہے، مفہوم سب کا ایک ہی ہے مَرِيجٌ کے معنی محتاط، مضطرب یا ملتبس کے ہیں۔ یعنی ایسا معاملہ جو ان پر مشتبہ ہو گیا ہے، جس سے وہ ایک الجھاؤ میں پڑ گئے ہیں، کبھی اسے جادو گر کہتے ہیں، کبھی شاعر اور کبھی کاﮨﻦ۔
(1) یعنی بغیر ستون کے، جن کا اسے کوئی سہارا ہو۔
(2) یعنی ستاروں سے اسے مزین کیا۔
(3) اسی طرح کوئی فرق وتفاوت بھی نہیں ہے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا۔ «الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا مَا تَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَى مِنْ فُطُورٍ، ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيرٌ» (الملك: 3- 4)۔
(1) اور بعض نے زوج کےمعنی جوڑا کیے ہیں۔ یعنی ہر قسم کی نباتات اور اشیا کو جوڑا جوڑا (نر اور مادہ) بنایا ہے۔ بھیج کے معنی، خوش منظر، شاداب اور حسین۔
(1) کٹنے والے غلے سے مراد وہ کھیتیاں ہیں، جن سے گندم، مکئی، جوار، باجرہ، ڈالیں اور چاول وغیرہ پیدا ہوتے ہیں اور پھر ان کا ذخیرہ کر لیا جاتا ہے۔
(1) بَاسِقَاتٍ کے معنی طِوَالا شِاهِقَاتٍ، بلند وبالا طَلْعٌ، کھجور کا وہ گدرا گدرا پھل، جو پہلے پہل نکلتا ہے، نَضِيدٌ کے معنی تہ بہ تہ۔ باغات میں کھجور کا پھل بھی آجاتا ہے۔ لیکن اسے الگ سے بطور خاص ذکر کیا، جس سے کھجور کی وہ اہمیت واضح ہے جو عرب میں اسے حاصل ہے۔
(1) یعنی جس طرح بارش سے مردہ زمین کو زندہ اور شاداب کر دیتے ہیں، اسی طرح قیامت والے دن ہم قبروں سے انسانوں کو زندہ کرکے نکال لیں گے۔
(1) أَصْحَابُ الرَّسِّ کی تعیین میں مفسرین کےدرمیان بہت اختلاف ہے۔ امام ابن جریر طبری نے اس قول کو ترجیح دی ہےجس میں انہیں اصحاب اخدود قرار دیا گیا ہے، جس کا ذکر سورۂ بروج میں ہے (تفصیل کے لئے دیکھئے ابن کثیر وفتح القدیر، سورۃ الفرقان آیت 38)۔
(1) أَصْحَابُ الأيْكَةِ کے لئے دیکھئے سورۃ الشعراء، آیت 176 کا حاشیہ۔
(2) قَوْمُ تُبَّعٍ کے لئے دیکھئے سورۃ الدخان، آیت 37 کا حاشیہ۔
(3) یعنی ان میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے پیغمبر کو جھٹلایا۔ اس میں رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کےلئے تسلی ہے۔ گویا آپ (صلى الله عليه وسلم) کو کہا جا رہا ہے کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) اپنی قوم کی طرف سے اپنی تکذیب پر غمگین نہ ہوں اس لئے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، آپ (صلى الله عليه وسلم) سے پہلے انبیا علیہم السلام کے ساتھ بھی ان کی قوموں نے یہی معاملہ کیا۔ دوسرے اہل مکہ کو تنبیہ ہے کہ پچھلی قوموں نے انبیا علیہم السلام کی تکذیب کی تو دیکھ لو ان کا کیا انجام ہوا؟ کیا تم بھی اپنے لئے یہی انجام پسند کرتے ہو؟ اگر یہ انجام پسند نہیں کرتے تو تکذیب کا راستہ چھوڑ دو اور پیغمبر (صلى الله عليه وسلم) پر ایمان لے آؤ۔
(1) کہ قیامت والے دن دوبارہ پیدا کرنا ہمارے لئے مشکل ہوگا۔ مطلب یہ ہے کہ جب پہلی مرتبہ پیدا کرنا ہمارے لئے مشکل نہیں تھا تو دوبارہ زندہ کرنا تو پہلی مرتبہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان ہے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا «وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ» (الروم: 27) سورۂ یٰسین، آیت 78- 79 میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔ اور حدیث قدسی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”ابن آدم یہ کہہ کر مجھے ایذا پہنچاتا ہے کہ اللہ مجھے ہر گز دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے جس طرح اس نے پہلی مرتبہ مجھے پیدا کیا۔ حالانکہ پہلی مرتبہ پیدا کرنا، دوسری مرتبہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان نہیں ہے“ یعنی اگر مشکل ہے تو پہلی مرتبہ پیدا کرنا نہ کہ دوسری مرتبہ (البخاري تفسير سورة الإخلاص)۔
(2) یعنی یہ اللہ کی قدرت کے منکر نہیں، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ انہیں قیامت کے وقوع اور اس میں دوبارہ زندگی کے بارے میں ہی شک ہے۔