《古兰经》译解 - 乌尔都语翻译 - 穆罕默德·古纳克里。

页码:close

external-link copy
29 : 46

وَاِذْ صَرَفْنَاۤ اِلَیْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۚ— فَلَمَّا حَضَرُوْهُ قَالُوْۤا اَنْصِتُوْا ۚ— فَلَمَّا قُضِیَ وَلَّوْا اِلٰی قَوْمِهِمْ مُّنْذِرِیْنَ ۟

اور یاد کرو! جبکہ ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو تیری طرف متوجہ کیا کہ وه قرآن سنیں، پس جب (نبی کے) پاس پہنچ گئے تو (ایک دوسرے سے) کہنے لگے خاموش ہو جاؤ[1] ، پھر جب پڑھ کر ختم ہوگیا[2] تو اپنی قوم کو خبردار کرنے کے لئے واپس لوٹ گئے. info

[1] صحیح مسلم کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ مکہ کے قریب نخلہ وادی میں پیش آیا، جہاں آپ (صلى الله عليه وسلم) صحابہ کرام (رضي الله عنهم) کو فجر کی نماز پڑھا رہے تھے۔ جنوں کو تجسس تھا کہ آسمان پر بہت زیادہ سختی کر دی گئی ہے اور اب ہمارا وہاں جانا تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے، کوئی بہت ہی اہم واقعہ رونما ہوا ہے جس کے نتیجے میں ایسا ہوا ہے۔ چنانچہ مشرق ومغرب کے مختلف اطراف میں جنوں کی ٹولیاں واقعے کا سراغ لگانے کے لئے پھیل گئیں۔ ان ہی میں سے ایک ٹولی نے یہ قرآن سنا اور بات سمجھ لی کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) کی بعثت کا یہ واقعہ ہی ہم پر آسمان کی بندش کا سبب ہے۔ اور جنوں کی یہ ٹولی آپ پر ایمان لے آئی اور جاکر اپنی قوم کو بھی بتلایا (مسلم، كتاب الصلاة، باب الجهر بالقراءة في الصبح والقراءة على الجن - صحيح بخاري میں بھی بعض باتوں کا تذکرہ ہے۔ كتاب مناقب الأنصار، باب ذكر الجن) بعض دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد آپ (صلى الله عليه وسلم) جنوں کی دعوت پر ان کے ہاں بھی تشریف لے گئے اور انہیں جاکر اللہ کا پیغام سنایا، اور متعدد مرتبہ جنوں کا وفد آپ کی خدمت میں بھی حاضر ہوا۔ (فتح الباری، تفسیر ابن کثیر وغیرہ)۔
[2] یعنی آپ (صلى الله عليه وسلم) کی طرف سے تلاوت قرآن ختم ہوگئی۔

التفاسير:

external-link copy
30 : 46

قَالُوْا یٰقَوْمَنَاۤ اِنَّا سَمِعْنَا كِتٰبًا اُنْزِلَ مِنْ بَعْدِ مُوْسٰی مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ یَهْدِیْۤ اِلَی الْحَقِّ وَاِلٰی طَرِیْقٍ مُّسْتَقِیْمٍ ۟

کہنے لگے اے ہماری قوم! ہم نے یقیناً وه کتاب سنی ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد نازل کی گئی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے جو سچے دین کی اور راه راست کی طرف رہنمائی کرتی ہے. info
التفاسير:

external-link copy
31 : 46

یٰقَوْمَنَاۤ اَجِیْبُوْا دَاعِیَ اللّٰهِ وَاٰمِنُوْا بِهٖ یَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَیُجِرْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ ۟

اے ہماری قوم! اللہ کے بلانے والے کا کہا مانو، اس پر ایمان ﻻؤ[1] ، تو اللہ تمہارے گناه بخش دے گا اور تمہیں المناک عذاب سے پناه دےگا.[2] info

[1] یہ جنوں نے اپنی قوم کو نبی (صلى الله عليه وسلم) کی رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ اس سے قبل قرآن کریم کے متعلق بتلایا کہ یہ تورات کے بعد ایک اور آسمانی کتاب ہے جو سچے دین اور صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔
[2] یہ ایمان لانے کے وہ فائدے بتلائے جو آخرت میں انہیں حاصل ہوں گے۔ مِنْ ذُنُوبِكُمْ میں مِنْ تبعیض کے لئے ہے یعنی بعض گناہ معاف فرما دے گا اور یہ وہ گناہ ہوں گے جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہوگا۔ کیوں کہ حقوق العباد معاف نہیں ہوں گے۔ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ ثواب وعقاب اور اوامر ونواہی میں جنات کے لئے بھی وہی حکم ہے جو انسانوں کے لئے ہے۔ اس امر میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنات میں جنوں میں سے رسول بھیجے یا نہیں؟ ظاہر آیات قرآنیہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جنات میں کوئی رسول نہیں ہوا، تمام انبیاء ورسل علیہم السلام انسان ہی ہوئے ہیں:«وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلا رِجَالا نُوحِي إِلَيْهِمْ» (النحل: 43) «وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ إِلا إِنَّهُمْ لَيَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَيَمْشُونَ فِي الأَسْوَاقِ» (سورة الفرقان: 20) ان آیات قرآنیہ سے واضح ہے کہ جتنے بھی رسول ہوئے، وہ انسان تھے۔ اسی لئے رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) جس طرح انسانوں کے لئے رسول تھے اور ہیں، اسی طرح جنات کے رسول بھی آپ (صلى الله عليه وسلم) ہی ہیں اور آپ (صلى الله عليه وسلم) کے پیغام کو بھی جنات تک پہنچانے کا انتظام کیا گیا ہے جیسا کہ قرآن کریم کے اس مقام سے ظاہر ہے۔

التفاسير:

external-link copy
32 : 46

وَمَنْ لَّا یُجِبْ دَاعِیَ اللّٰهِ فَلَیْسَ بِمُعْجِزٍ فِی الْاَرْضِ وَلَیْسَ لَهٗ مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءُ ؕ— اُولٰٓىِٕكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ ۟

اور جو شخص اللہ کے بلانے والے کا کہا نہ مانے گا پس وه زمین میں کہیں (بھاگ کر اللہ کو) عاجز نہیں کر سکتا[1] ، نہ اللہ کے سوا اور کوئی اس کے مدد گار ہوں گے[2]، یہ لوگ کھلی گمراہی میں ہیں. info

[1] یعنی ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ زمین کی وسعتوں میں اس طرح گم ہو جائے کہ اللہ کی گرفت میں نہ آسکے۔
[2] جو اسے اللہ کے عذاب سے بچالیں۔ مطلب یہ ہوا کہ نہ وہ خود اللہ کی گرفت سے بچنے پر قادر ہے نہ کسی دوسرے کی مدد سے ایسا ممکن ہے۔

التفاسير:

external-link copy
33 : 46

اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِهِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰۤی اَنْ یُّحْیِ الْمَوْتٰی ؕ— بَلٰۤی اِنَّهٗ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ۟

کیا وه نہیں دیکھتے کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور ان کے پیدا کرنے سے وه نہ تھکا، وه یقیناً مُردوں کو زنده کرنے پر قادر ہے؟ کیوں نہ ہو؟ وه یقیناً ہر چیز پر قادر ہے.[1] info

[1] رأی سے، رؤیت قلبی مراد ہے، یعنی کیا انہوں نے نہیں جانا۔ أَلَمْ يَعْلَمُوا یا أَلَمْ يَتَفَكَّرُوا، کہ جو اللہ آسمان وزمین کو پیدا کرنے والا ہے، جن کی وسعت و بے کرانی کی انتہا نہیں ہے اور وہ ان کو بنا کر تھکا بھی نہیں۔ کیا وہ مردوں کودوبارہ زندہ نہیں کر سکتا؟ یقیناً کر سکتا ہے، اس لئے کہ وہ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ کی صفت سے متصف ہے۔

التفاسير:

external-link copy
34 : 46

وَیَوْمَ یُعْرَضُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا عَلَی النَّارِ ؕ— اَلَیْسَ هٰذَا بِالْحَقِّ ؕ— قَالُوْا بَلٰی وَرَبِّنَا ؕ— قَالَ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ ۟

وه لوگ جنہوں نے کفر کیا جس دن جہنم کے سامنے ﻻئے جائیں گے (اور ان سے کہا جائے گا کہ) کیا یہ حق نہیں ہے؟ تو جواب دیں گے کہ ہاں قسم ہے ہمارے رب کی[1] (حق ہے) (اللہ) فرمائے گا، اب اپنے کفر کے بدلے عذاب کا مزه چکھو.[2] info

[1] وہاں اعتراف ہی نہیں کریں گے بلکہ اپنے اس اعتراف پر قسم کھا کر اسے موکد کریں گے۔ لیکن اس وقت کا یہ اعتراف بے فائدہ ہے، کیونکہ مشاہدے کے بعد اعتراف کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے؟ آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد اعتراف نہیں تو، کیا انکار کریں گے؟
[2] اس لئے کہ جب ماننے کا وقت تھا، اس وقت مانا نہیں، یہ عذاب اسی کفر اور انکار کا بدلہ ہے، جو اب تمہیں بھگتنا ہی بھگتنا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
35 : 46

فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّهُمْ ؕ— كَاَنَّهُمْ یَوْمَ یَرَوْنَ مَا یُوْعَدُوْنَ ۙ— لَمْ یَلْبَثُوْۤا اِلَّا سَاعَةً مِّنْ نَّهَارٍ ؕ— بَلٰغٌ ۚ— فَهَلْ یُهْلَكُ اِلَّا الْقَوْمُ الْفٰسِقُوْنَ ۟۠

پس (اے پیغمبر!) تم ایسا صبر کرو جیسا صبر عالی ہمت رسولوں نے کیا اور ان کے لئے (عذاب طلب کرنے میں) جلدی نہ کرو[1] ، یہ جس دن اس عذاب کو دیکھ لیں گے جس کا وعده دیئے جاتے ہیں تو (یہ معلوم ہونے لگے گا کہ) دن کی ایک گھڑی ہی (دنیا میں) ٹھہرے[2] تھے، یہ ہے پیغام پہنچا[3] دینا، پس بدکاروں کے سوا کوئی ہلاک نہ کیا جائے گا.[4] info

[1] یہ کفار مکہ کے رویے کے مقابلے میں نبی (صلى الله عليه وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے اور صبر کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔
[2] قیامت کاہولناک عذاب دیکھنے کے بعد انہیں دنیا کی زندگی ایسے معلوم ہوگی جیسے دن کی صرف ایک گھڑی یہاں گزار کر گئے ہیں۔
[3] یہ متبدا محذوف کی خبرہے۔ أَيْ : هَذَا الَّذِي وَعَظْتَهَمْ بِهِ بَلاغٌ یہ وہ نصیحت یا پیغام ہے جس کا پہنچانا تیرا کام ہے۔
[4] اس آیت میں بھی اہل ایمان کے لئے خوش خبری اور حوصلہ افزائی ہے کہ ہلاکت اخروی صرف ان لوگوں کا حصہ ہے جو اللہ کےنافرمان اور اس کی حدود پامال کرنے والے ہیں۔

التفاسير: