《古兰经》译解 - 乌尔都语翻译 - 穆罕默德·古纳克里。

页码:close

external-link copy
16 : 15

وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّزَیَّنّٰهَا لِلنّٰظِرِیْنَ ۟ۙ

یقیناً ہم نے آسمان میں برج بنائے ہیں(1) اور دیکھنے والوں کے لیے اسے سجا دیا ہے. info

(1) ”بُرُوجٌ“ بُرْجٌ کی جمع ہے جس کے معنی ظہور کے ہیں۔ اسی سے تَبَرُّجٌ ہے جو عورت کے اظہار زینت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ یہاں آسمان کے ستاروں کو بُرُوجُ کہا گیا ہے کیونکہ وہ بلند اور ظاہر ہوتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں بُرُوجٌ سے مراد شمس وقمر اور دیگر سیاروں کی منزلیں ہیں، جو ان کے لئے مقرر ہیں اور یہ ۱۲ ہیں۔ حمل، ثور، جوزاء، سرطان، اسد، سنبلہ، میزان، عقرب، قوس، جدی، دلو، حوت۔ عرب ان سیاروں کی منزلوں اور ان کے ذریعے سے موسم کا حال معلوم کرتے تھے۔ اس میں کوئی قباحت نہیں البتہ ان سے تغیر پذیر ہونے والے واقعات وحوادث جاننے کا دعوی کرنا، جیسے آج کل بھی جاہلوں میں اس کا خاصا چرچہ۔ اور لوگوں کی قسمتوں کو ان کے ذریعے سے دیکھا اور سمجھا جاتا ہے۔ ان کا کوئی تعلق دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات وحوادث سے نہیں ہوتا، جو کچھ بھی ہوتا ہے، صرف مشیت الہی ہی سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالٰی نے یہاں ان برجوں یا ستاروں کا ذکر اپنی قدرت اور بے مثال صنعت کے طور پر کیا ہے۔ علاوہ ازیں یہ واضح کیا ہے کہ یہ آسمان کی زینت بھی ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
17 : 15

وَحَفِظْنٰهَا مِنْ كُلِّ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍ ۟ۙ

اور اسے ہر مردود شیطان سے محفوظ رکھا ہے.(1) info

(1) ”رَجِيمٌ“ مَرْجُومٌ کے معنی میں ہے، رَجْمٌ کے معنی ہیں سنگسار کرنا یعنی پتھر مارنے کے ہیں۔ شیطان کو رجیم اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ سب آسمان کی طرف جانے کی کوشش کرتا ہے تو آسمان سے شہاب ثاقب اس پر ٹوٹ کر گرتے ہیں، پھر رجیم ملعون و مردود کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، کیونکہ جسے سنگسار کیا جاتا ہے اسے ہر طرف سے لعنت ملامت بھی کی جاتی ہے۔ یہاں اللہ تعالٰی نے یہی فرمایا ہے کہ ہم نے آسمانوں کی حفاظت فرمائی ہر شیطان رجیم سے۔ یعنی ان ستاروں کے ذریعے سے، کیونکہ یہ شیطان کو مار بھاگنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
18 : 15

اِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَاَتْبَعَهٗ شِهَابٌ مُّبِیْنٌ ۟

ہاں مگر جو چوری چھپے سننے کی کوشش کرے اس کے پیچھے دہکتا ہوا (کھلا شعلہ) لگتا ہے.(1) info

(1) اس کا مطلب یہ ہے کہ شیاطین آسمانوں پر باتیں سننے کے لئے جاتے ہیں، جن پر شہاب ثاقب ٹوٹ کر گرتے ہیں، جن سے کچھ تو جل مر جاتے ہیں اور کچھ بچ جاتے ہیں اور بعض سن آتے ہیں۔ حدیث میں اس کی تفسیر اس طرح آتی ہے۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) فرماتے ہیں ”جب اللہ تعالٰی آسمان پر کوئی فیصلہ فرماتا ہے، تو فرشتے اسے سن کر اپنے پر یا بازو پھڑ پھڑاتے ہیں (عجز و مسکنت کے اظہار کے طور پر) گویا وہ کسی چٹان پر زنجیر کی آواز ہے۔ پھر جب فرشتوں کے دلوں سے اللہ کا خوف دور ہو جاتا ہے تو وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں، تمہارے رب نے کیا کہا؟ وہ کہتے ہیں، اس نے جو کہا حق کہا اور اور وہ بلند اور بڑا ہے (اس کے بعد اللہ کا وہ فیصلہ اوپر سے نیچے تک یکے بعد دیگرے سنایا جاتا ہے) اس موقع پر شیطان چوری چھپے بات سنتے ہیں۔ اور یہ چوری چھپے بات سننے والے شیطان، تھوڑے تھوڑے فاصلے سے ایک دوسرے کے اوپر ہوتے ہیں اور ایک آدھا حکم سن کر اپنے دوست نجومی یا کاہن کے کان میں پھونک دیتے ہیں، اور اس کے ساتھ سو جھوٹ ملا کر لوگوں کو بیان کرتا ہے (ملخصاً۔ صحیح بخاری تفسیر سورۂ حجر)

التفاسير:

external-link copy
19 : 15

وَالْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا وَاَلْقَیْنَا فِیْهَا رَوَاسِیَ وَاَنْۢبَتْنَا فِیْهَا مِنْ كُلِّ شَیْءٍ مَّوْزُوْنٍ ۟

اور زمین کو ہم نے پھیلا دیا ہے اور اس پر (اٹل) پہاڑ ڈال دیئے ہیں، اور اس میں ہم نے ہر چیز ایک معین مقدار سے اگا دی ہے.(1) info

(1) مَوْزُونٌ بمعنی مَعْلُومٌ یا بہ اندازہ یعنی حسب ضرورت۔

التفاسير:

external-link copy
20 : 15

وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِیْهَا مَعَایِشَ وَمَنْ لَّسْتُمْ لَهٗ بِرٰزِقِیْنَ ۟

اور اسی میں ہم نے تمہاری روزیاں بنا دی ہیں(1) اور جنہیں تم روزی دینے والے نہیں ہو.(1) info

(1) ”مَعَايِشَ“ مَعِيشَةٌ کی جمع ہے یعنی زمین میں تمہاری معیشت اور گزران کے لئے بیشمار اسباب ووسائل پیدا کر دیئے۔
(2) اس سے مراد نوکر چاکر، غلام اور جانور ہیں۔ یعنی جانوروں کو تمہارے تابع کر دیا، جن پر تم سواری بھی کرتے ہو، سامان بھی لاد کر لے جاتے ہو اور انہیں ذبح کر کے کھا بھی لیتے ہو۔ غلام لونڈیاں ہیں، جن سے تم خدمت گزاری کا کام لیتے ہو۔ یہ اگرچہ سب تمہارے ماتحت ہیں اور تم ان کے چارے اور خوراک وغیرہ کا انتظام بھی کرتے ہو لیکن حقیقت میں ان کا رازق اللہ تعالٰی ہے، تم نہیں ہو۔ تم یہ نہ سمجھنا کہ تم ان کے رازق ہو، اگر تم انہیں کھانا نہیں دو گے تو بھوکے مر جائیں گے۔

التفاسير:

external-link copy
21 : 15

وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآىِٕنُهٗ ؗ— وَمَا نُنَزِّلُهٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ ۟

اور جتنی بھی چیزیں ہیں ان سب کے خزانے ہمارے پاس ہیں(1) ، اور ہم ہر چیز کو اس کے مقرره انداز سے اتارتے ہیں. info

(1) بعض نے خزائن سے مراد بارش لی ہے کیونکہ بارش ہی پیداوار کا ذریعہ ہے لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے اس سے مراد تمام کائنات کے خزانے ہیں جنہیں اللہ تعالٰی حسب مشیت و ارادہ عدم سے وجود میں لاتا رہتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
22 : 15

وَاَرْسَلْنَا الرِّیٰحَ لَوَاقِحَ فَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَسْقَیْنٰكُمُوْهُ ۚ— وَمَاۤ اَنْتُمْ لَهٗ بِخٰزِنِیْنَ ۟

اور ہم بھیجتے ہیں بوجھل ہوائیں(1) ، پھر آسمان سے پانی برسا کر وه تمہیں پلاتے ہیں اور تم اس کا ذخیره کرنے والے نہیں ہو.(2) info

(1) ہواؤں کو بوجھل، اس لئے کہا گیا کہ یہ ان بادلوں کو اٹھاتی ہیں جن میں پانی ہوتا ہے۔ جس طرح لَقْحَةٌ حاملہ اونٹنی کو کہا جاتا ہے جو پیٹ میں بچہ اٹھائے ہوتی ہے۔
(2) یعنی یہ پانی جو ہم اتارتے ہیں، اسے تم ذخیرہ رکھنے پر بھی قادر نہیں ہو۔ یہ ہماری ہی قدرت و رحمت ہے کہ ہم اس پانی کو چشموں، کنوؤں اور نہروں کے ذریعے سے محفوظ رکھتے ہیں، ورنہ اگر ہم چاہیں تو پانی کی سطح اتنی نیچی کر دیں کہ چشموں اور کنوؤں سے پانی لینا تمہارے لئے ممکن نہ رہے، جس طرح بعض علاقوں میں اللہ تعالٰی بعض دفعہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھاتا ہے۔ اللَّهُمَّ احْفَظْنَا مِنْهُ۔

التفاسير:

external-link copy
23 : 15

وَاِنَّا لَنَحْنُ نُحْیٖ وَنُمِیْتُ وَنَحْنُ الْوٰرِثُوْنَ ۟

ہم ہی جلاتے اور مارتے ہیں اور ہم ہی (بالﺂخر) وارث ہیں. info
التفاسير:

external-link copy
24 : 15

وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنْكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَاْخِرِیْنَ ۟

اور تم میں سے آگے بڑھنے والے اور پیچھے ہٹنے والے بھی ہمارے علم میں ہیں. info
التفاسير:

external-link copy
25 : 15

وَاِنَّ رَبَّكَ هُوَ یَحْشُرُهُمْ ؕ— اِنَّهٗ حَكِیْمٌ عَلِیْمٌ ۟۠

آپ کا رب سب لوگوں کو جمع کرے گا یقیناً وه بڑی حکمتوں واﻻ بڑے علم واﻻ ہے. info
التفاسير:

external-link copy
26 : 15

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ ۟ۚ

یقیناً ہم نے انسان کو کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے، پیدا فرمایا ہے.(1) info

(1) مٹی کی مختلف حالتوں کے اعتبار سے اس کے مختلف نام ہیں، خشک مٹی، تراب، بھیگی ہوئی طین، گوندھی ہوئی بدبودار «حَمَإٍ مَسْنُونٍ» یہ حَمَإٍ مَسْنُونٍ خشک ہو کر کھن کھن بولنے لگے تو صَلْصَالٍ اور جب آگ سے پکا لیا جائے تو فَخَّارٌ (ٹھیکری) کہلاتی ہے۔ یہاں اللہ تعالٰی نے انسان کی تخلیق کا جس طرح تذکرہ فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم خاکی کا پتلا حَمَأٍ مَسْنُونٌ (گوندھی ہوئی سڑی ہوئی، بدبودار) مٹی سے بنایا گیا، جب وہ سوکھ کر کھن کھن کرنے لگا (یعنی صلصال) ہو گیا۔ تو اس میں روح پھونکی گئی، اسی طرح صَلصَالِ کو قرآن میں دوسری جگہ كَالْفَخَّارِ (فخار کی ماند کہا گیا ہے «خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ» (الرحمن:14) ”پیدا کیا انسان کو کھنکھناتی مٹی سے جیسے ٹھیکرا“۔

التفاسير:

external-link copy
27 : 15

وَالْجَآنَّ خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ ۟

اور اس سے پہلے جنات کو ہم نے لو والی آگ(1) سے پیدا کیا. info

(1) جِنّ کو جن اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آنکھوں سے نظر نہیں آتا۔ سورہ رحمٰن میں جنات کی تخلیق «مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ» (الرحمن:15) سے بتلائی گئی ہے اور صحیح مسلم کی ایک حدیث میں یہ کہا گیا ہے «خُلِقَتِ الْمَلائِكَةُ مِنْ نُورِ وَخُلِقَ الْجَانّ مِنْ نَارٍ وَخُلِقَ آدَمُ مِمَّا وَصَفَ لَكُمْ »(كتاب الزهد، باب في أحاديث متفرقة) اس اعتبار سے لو والی آگ یا آگ کے شعلے کا ایک ہی مطلب ہوگا۔

التفاسير:

external-link copy
28 : 15

وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ اِنِّیْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ ۟

اور جب تیرے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں ایک انسان کو کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کرنے واﻻ ہوں. info
التفاسير:

external-link copy
29 : 15

فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَنَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ ۟

تو جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے لیے سجدے میں گر پڑنا.(1) info

(1) سجدے کا یہ حکم بطور تعظیم کے تھا، عبادت کے طور پر نہیں، اور یہ چونکہ اللہ کا حکم تھا، اس لئے اس کے وجوب میں کوئی شک نہیں۔ تاہم شریعت محمدیہ میں بطور تعظیم بھی کسی کے لئے سجدہ کرنا جائز نہیں۔

التفاسير:

external-link copy
30 : 15

فَسَجَدَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَ ۟ۙ

چنانچہ تمام فرشتوں نے سب کے سب نے سجده کر لیا. info
التفاسير:

external-link copy
31 : 15

اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ ؕ— اَبٰۤی اَنْ یَّكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِیْنَ ۟

مگر ابلیس کے۔ کہ اس نے سجده کرنے والوں میں شمولیت کرنے سے (صاف) انکار کر دیا. info
التفاسير: