(1) یعنی مطلقہ رجعیہ کو۔ اس لیے کہ مطلقہ بائنہ کے لیے تو رہائش اور نفقہ ضروری ہی نہیں ہے، جیسا کہ گزشتہ صفحے میں بیان ہوا۔ اپنی طاقت کے مطابق رکھنے کا مطلب ہے کہ اگر مکان فراخ ہو اور اس میں متعدد کمرے ہوں تو ایک کمرہ اس کے لیے مخصوص کر دیا جائے۔ بصورت دیگر اپنا کمرہ اس کے لیے خالی کر دے۔ اس میں حکمت یہی ہے کہ قریب رہ کر عدت گزارے گی تو شاید خاوند کا دل پسیج جائے اور رجوع کرنے کی رغبت اس کے دل میں پیدا ہو جائے۔ خاص طور پر اگر بچے بھی ہوں تو پھر رغبت اور رجوع کا قوی امکان ہے۔ مگر افسوس ہے کہ مسلمان اس ہدایت پر عمل نہیں کرتے، جس کی وجہ سے اس حکم کے فوائد وحکم سے بھی وہ محروم ہیں۔ ہمارے معاشرے میں طلاق کے ساتھ ہی جس طرح عورت کو فوراً اچھوت بنا کر گھر سے نکال دیا جاتا ہے، یا بعض دفعہ لڑکی والے اسے اپنے گھر لے جاتے ہیں، یہ رواج قرآن کریم کی صریح تعلیم کے خلاف ہے۔
(2) یعنی نان نفقہ میں یا رہائش میں اسے تنگ اور بے آبرو کرنا تاکہ وہ گھر چھوڑنے پر مجبور ہو جائے۔ عدت کے دوران ایسا رویہ اختیارنہ کیا جائے۔ بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ عدت ختم ہو جانے کے قریب ہو تو پھر رجوع کر لے اور بار بار ایسا کرے، جیسا کہ زمانۂ جاہلیت میں کیا جاتا تھا۔ جس کے سدباب کے لیے شریعت نے طلاق کے بعد رجوع کرنے کی حد مقرر فرما دی تاکہ کوئی شخص آئندہ اس طرح عورت کو تنگ نہ کرے، اب ایک انسان دو مرتبہ تو ایسا کرسکتا ہے یعنی طلاق دے کر عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کر لے۔ لیکن تیسری مرتبہ جب طلاق دے گا تو اس کے بعد اس کے رجوع کا حق بھی ختم ہو جائے گا۔
(3) یعنی مطلقہ خواہ بائنہ ہی کیوں نہ ہو۔ اگر حاملہ ہے تو اس کا نفقہ وسکنیٰ ضروری ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا گیا ہے۔
(4) یعنی طلاق دینے کے بعد اگر وہ تمہارے بچے کو دودھ پلائے، تو اس کی اجرت تمہارے ذمے ہے۔
(5) یعنی باہمی مشورے سے اجرت اور دیگر معاملات طے کر لیے جائیں۔ مثلاً بچے کا باپ عرف کے مطابق اجرت دے اور ماں، باپ کی استطاعت کے مطابق اجرت طلب کرے، وغیرہ۔
(6) یعنی آپس میں اجرت وغیرہ کا معاملہ طے نہ ہوسکے تو کسی دوسری انا کے ساتھ معاملہ کرلے جو اس کے بچے کو دودھ پلائے۔
(1) یعنی دودھ پلانے والی عورتوں کو اجرت اپنی طاقت کے مطابق دی جائے اگر اللہ نے مال و دولت میں فراخی عطا فرمائی ہے تو اسی فراخی کے ساتھ مرضعہ کی خدمت ضروری ہے۔
(2) یعنی مالی لحاظ سے وہ کمزور ہو۔
(3) اس لیے وہ غریب اور کمزور کو یہ حکم نہیں دیتا کہ وہ دودھ پلانے والی کو زیادہ اجرت ہی دے۔ مطلب ان ہدایت کا یہ ہے کہ بچے کی ماں اور بچے کا باپ دونوں ایسا مناسب رویہ اختیار کریں کہ ایک دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے اور بچے کو دودھ پلانے کا مسئلہ سنگین نہ ہو۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا : «لا تُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلا مَوْلُودٌ لَهُ بِوَلَدِهِ» (البقرة: 233) ”نہ ماں کو بچے کی وجہ سے تکلیف پہنچائی جائے اور نہ باپ کو“۔
(1) چنانچہ جو اللہ پر اعتماد توکل کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو آسانی وکشادگی سے بھی نواز دیتا ہے۔
(2) عَتَتْ، أَيْ: تَمَرَّدَتْ وَطَغَتْ وَاسْتَكْبَرَتْ عَنِ اتِّبَاعِ أَمْرِ اللهِ وَمُتَابَعَةِ رُسُلِهِ۔
(3) نُكْرًا، مُنْكَرًا فَظِيعًا حساب اور عذاب، دونوں سے مراد دنیاوی مواخذہ اور سزا ہے، یا پھر بقول بعض کلام میں تقدیم وتاخیر ہے۔ عَذَابًا نُكْرًا وہ عذاب ہے جو دنیا میں قحط، خسف ومسخ وغیرہ کی شکل میں میں انہیں پہنچا، اور حِسَابًا شَدِيدًا وہ ہے جو آخرت میں ہوگا۔ (فتح القدیر)۔
(1) رسول، ذکر سے بدل ہے، بطور مبالغہ رسول کو ذکر سے تعبیر فرمایا، جیسے کہتے ہیں، وہ تو مجسم عدل ہے۔ یا ذکر سے مراد قرآن ہے اور رسولاً سے پہلے أَرْسَلْنَا محذوف ہے یعنی ذکر (قرآن) کو نازل کیا اور رسول کو ارسال کیا۔
(2) یہ رسول کا منصب اور فریضہ بیان کیا گیا کہ وہ قرآن کے ذریعے سے لوگوں کو اخلاقی پستیوں سے شرک وضلالت کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان وعمل صالح کی روشنی کی طرف لاتا ہے۔ رسول سے یہاں مراد الرسول یعنی حضرت محمد رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) ہیں۔
(3) عمل صالح میں دونوں باتیں شامل ہیں، احکام وفرائض کی ادائیگی اور معصیات ومنہیات سے اجتناب۔ مطلب ہے کہ جنت میں وہی اہل ایمان داخل ہوں گے، جنہوں نے صرف زبان سے ہی ایمان کا اظہار نہیں کیا تھا، بلکہ انہوں نے ایمان کے تقاضوں کے مطابق فرائض پر عمل اور معاصی سے اجتناب کیاتھا۔
(1) أَيْ خَلَقَ مِنَ الأَرْضِ مِثْلَهُنَّ یعنی سات آسمانوں کی طرح، اللہ نے سات زمینیں بھی پیدا کی ہیں۔ بعض نے اس سے سات اقالیم مراد لیے ہیں، لیکن یہ صحیح نہیں۔ بلکہ جس طرح اوپر نیچے سات آسمان ہیں، اسی طرح سات زمینیں ہیں، جن کے درمیان بعد ومسافت ہے اور ہر زمین میں اللہ کی مخلوق آباد ہے (القرطبی) احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، جیسے نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا «مَنْ أَخَذَ شِبْرًا مِنَ الأَرْضِ ظُلْمًا فَإِنَّهُ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ سَبْعِ أَرَاضِينَ» (صحيح مسلم، كتاب البيوع، باب تحريم الظلم) ”جس نے کسی کی ایک بالشت زمین بھی ہتھیالی تو قیامت والے دن اس زمین کا اتنا حصہ ساتوں زمینوں سے طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا“۔ صحیح بخاری کے الفاظ ہیں «خسف بِهِ إِلَى سَبْعِ أَرَاضِينَ» ”اس کو ساتوں زمینوں تک دھنسا دیا جائے گا“۔ (صحيح بخاري، كتاب المظالم باب إثم من ظلم شيئا من الأرض) بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ ہر زمین میں، اسی طرح کا پیغمبر ہے، جس طرح کا پیغمبر تمہاری زمین پر آیا، مثلاً آدم، آدم کی طرح۔ نوح، نوح کی طرح۔ ابراہیم، ابراہیم کی طرح۔ عیسیٰ ، عیسیٰ کی طرح (علیہم السلام)۔ لیکن یہ بات کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں۔
(2) یعنی جس طرح ہر آسمان پر اللہ کا حکم نافذ اور غالب ہے، اسی طرح ہر زمین پر اس کا حکم چلتا ہے، آسمانوں کی طرح ساتوں زمینوں کی بھی وہ تدبیر فرماتا ہے۔
(3) پس اس کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں، چاہے وہ کیسی ہی ہو۔