(1) یہاں نیند کو وفات سے تعبیر کیا گیا ہے، اسی لئےاسے وفات اصغر اور موت کو وفات اکبر کہا جاتا ہے۔ (وفات کی وضاحت کے لئے دیکھیئے آل عمران کی آیت 55 کا حاشیہ)
(2) یعنی دن کے وقت روح واپس لوٹا کر زندہ کر دیتا ہے۔
(3) یعنی یہ سلسلہ شب وروز اور وفات اصغر سے ہمکنار ہو کر دن کو پھر اٹھ کھڑے ہونے کا معمول، انسان کی وفات اکبر تک جاری رہے گا۔
(4) یعنی پھر قیامت والے دن زندہ ہو کر سب کو اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے۔
(1) یعنی اپنے اس مفوضہ کام میں اور روح کی حفاظت میں بلکہ وہ فرشتہ، مرنے والا اگر نیک ہوتا ہے تو اس کی روح عِلِّيِّينَ میں اور اگر بد ہوتا ہے توسِجِّينٌ میں، بھیج دیتا ہے۔
(1) آیت میں ”رُدُّوْا“ (لوٹائے جائیں گے) کا مرجع بعض نے فرشتوں کو قرار دیا ہے یعنی قبض روح کے بعد فرشتے اللہ کی بارگاہ میں لوٹ جاتے ہیں۔ اور بعض نے اس کا مرجع تمام لوگوں کو بنایا ہے۔ یعنی سب لوگ حشر کے بعد اللہ کی بارگاہ میں لوٹائے جائیں گے (پیش کئے جائیں گے) اور پھر وہ سب کا فیصلہ فرمائے گا۔ آیت میں روح قبض کرنے والے فرشتوں کو رسل (جمع کے صیغے کے ساتھ) بیان کیا گیا ہے جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ روح قبض کرنے والا فرشتہ ایک نہیں متعدد ہیں۔ اس کی توجیہ بعض مفسرین نے اس طرح کی ہے کہ قرآن مجید میں روح قبض کرنے کی نسبت اللہ کی طرف بھی ہے۔ ”اللَّهُ يَتَوَفَّى الأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا“ (الزمر: 42) اللہ لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے، اور اس کی نسبت ایک فرشتے (ملک الموت) کی طرف بھی کی گئی ہے۔ ”قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ“ (الم السجدة: 11) کہہ دو تمہاری روحیں وہ فرشتۂ موت قبض کرتا ہے جو تمہارے لئے مقرر کیا گیا ہے، اور اس کی نسبت متعدد فرشتوں کی طرف بھی کی گئی ہے، جیسا کہ اس مقام پر ہے اور اسی طرح سورۂ نساء آیت 97 اور الانعام آیت 93 میں بھی ہے۔ اس لئے اللہ کی طرف اس کی نسبت اس لحاظ سے ہے کہ وہی اصل آمر (حکم دینے والا) بلکہ فاعل حقیقی ہے۔ متعدد فرشتوں کی طرف نسبت اس لحاظ سے ہے کہ وہ ملک الموت کے مددگار ہیں، وہ رگوں، شریانوں، پٹھوں سے روح نکالنے اور اس کا تعلق ان تمام چیزوں سے کاﭨنے کا کام کرتے ہیں اور ملک الموت کی طرف نسبت کے معنی یہ ہیں کہ پھر آخر میں وہ روح قبض کرکے آسمانوں کی طرف لے جاتا ہے۔ (تفسير روح المعاني جلد 5، صفحة 5) حافظ ابن کثیر، امام شوکاﻧﯽ اور جمہور علماء اس بات کے قائل ہیں کہ ملک الموت ایک ہی ہے جیسا کہ سورۂ الم السجدۃ کی آیت سے اور مسند احمد (جلد 4، صفحہ 287) میں حضرت براء بن عازب (رضي الله عنه) کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے اور جہاں جمع کے صیغے میں ان کا ذکر ہے تو وہ اس کے اعوان وانصار ہیں۔ اور بعض آثار میں ملک الموت کا نام عزرائیل بتلایا گیا ہے۔ (تفسير ابن كثير - الم السجدة ) والله أعلم-
(1) یعنی آسمان سے، جیسے بارش کی کثرت، یا ہوا، پتھر کے ذریعے سے عذاب۔ یا امرا وحکام کی طرف سے ظلم وستم۔
(2) جیسے دھنسایا جانا، طوفانی سیلاب، جس میں سب کچھ غرق ہوجائے۔ یا مراد ہے ماتحتوں، غلاموں اور نوکروں چاکروں کی طرف سے عذاب کہ وہ بددیانت اور خائن ہوجائیں۔
(3) ”يَلْبِسَكُمْ“ أَيْ يَخْلُطَ أَمْرَكُمْ تمہارے معاملے کو غلط ملط یا مشتبہ کردے جس کی وجہ سے تم گروہوں اور جماعتوں میں بٹ جاوء۔ ”وَيُذِيقَ“: أَيْ يَقْتلُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَتُذِيقَ كُلُّ طَائِفَةٍ الأُخْرَى أَلَمَ الْحَرْبِ۔ تمہارا ایک، دوسرے کو قتل کرے۔ اس طرح ہر گروہ دوسرے گروہ کو لڑائی کا مزہ چکھائے (ایسرالتفاسیر) حدیث میں آتا ہے نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں کیں۔۔ میری امت غرق کے ذریعے ہلاک نہ کی جائے۔ 2۔ قحط عام کے ذریعے اس کی تباہی نہ ہو۔ 3۔ آپس میں ان کی لڑائی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے پہلی دو دعائیں قبول فرمالیں۔ اور تیسری دعا سے مجھے روک دیا۔ (صحیح مسلم، نمبر 2216) یعنی اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات تھی کہ امت محمدیہ میں اختلاف وَانْشِقاق واقع ہوگا اور اس کی وجہ اللہ کی نافرمانی اور قرآن وحدیث سے اعراض ہوگا جس کے نتیجے میں عذاب کی اس صورت سے امت محمدیہ بھی محفوظ نہ رہ سکے گی۔ گویا اس کا تعلق اس سنت اللہ سے ہے جو قوموں کے اخلاق وکردار کے بارے میں ہمیشہ رہی ہے۔ جس میں تبدیلی ممکن نہیں ”فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلا، وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَحْوِيلا“ (فاطر: 43)
(1) ”به“ کا مرجع قرآن ہے یا عذاب (فتح القدیر )
(2) یعنی مجھے اس امر کا مکلف نہیں کیا گیا ہے کہ میں تمہیں ہدایت کے راستے پر لگا کر ہی چھوڑوں۔ بلکہ میرا کام صرف دعوت وتبلیغ ہے ”فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ“ (الكهف: 9)
(1) آیت میں خطاب اگرچہ نبی (صلى الله عليه وسلم) سے ہے لیکن مخاطب امت مسلمہ کا ہر فرد ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک تاکیدی حکم ہے جسے قرآن مجید میں متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے۔ سورۂ نساء آیت نمبر 140 میں بھی یہ مضمون گزرچکا ہے۔ اس سے ہر وہ مجلس مراد ہے جہاں اللہ رسول کے احکام کا مذاق اڑایا جارہا ہو یا عملاً ان کا استخفاف کیا جا رہا ہو یا اہل بدعت واہل زیغ اپنی تاویلات رکیکہ اور توجیہات نحیفہ کے ذریعے سے آیات الٰہی کو توڑ مروڑ رہے ہوں۔ ایسی مجالس میں غلط باتوں پر تنقید کرنے اور کلمہ حق بلند کرنے کی نیت سے تو شرکت جائز ہے، بصورت دیگر سخت گناہ اور غضب الٰہی کا باعث ہے۔