அல்குர்ஆன் மொழிபெயர்ப்பு - உருது மொழிபெயர்ப்பு - முஹம்மது ஜுனாக்கரி

பக்க எண்:close

external-link copy
30 : 41

اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ ۟

(واقعی) جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے(1) پھر اسی پر قائم رہے(2) ان کے پاس فرشتے (یہ کہتے ہوئے آتے ہیں(3) کہ تم کچھ بھی اندیشہ اور غم نہ کرو(4) (بلکہ) اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم وعده دیئے گئے ہو.(5) info

(1) یعنی ایک اللہ وحدہ لاشریک . رب بھی وہی اور معبود بھی وہی . یہ نہیں کہ ربوبیت کا تو اقرار ، لیکن الوہیت میں دوسروں کو بھی شریک کیا جارہا ہے۔
(2) یعنی سخت سے سخت حالات میں بھی ایمان و توحید پر قائم رہے، اس سے انحراف نہیں کیا بعض نےاستقامت کے معنی اخلاص کیے ہیں۔ یعنی صرف ایک اللہ ہی کی عبادت واطاعت کی۔ جس طرح حدیث میں بھی آتا ہے، ایک شخص نے رسول (صلى الله عليه وسلم) سے کہا مجھےایسی بات بتلا دیں کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کے بعد کسی سے مجھے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ رہے۔ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا، ”قُلْ آمَنْتُ بِاللهِ ثُمَّ اسْتَقِمْ“ (صحيح مسلم- كتاب الإيمان، باب جامع أوصاف الإسلام) (کہہ، میں اللہ پر ایمان لایا، پھر اس پر استقامت اختیار کر)۔
(3) یعنی موت کے وقت، بعض کہتےہیں، فرشتے یہ خوش خبری تین جگہوں پر دیتے ہیں، موت کے وقت، قبر میں اور قبر سے دوبارہ اٹھنے کے وقت۔
(4) یعنی آخرت میں پیش آنے والے حالات کا اندیشہ اور دنیا میں مال و اولاد جو چھوڑ آئے ہو، ان کا غم نہ کرو۔
(5) یعنی دنیامیں جس کا وعدہ تمہیں دیا گیا تھا۔

التفاسير:

external-link copy
31 : 41

نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِ ۚ— وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْۤ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَ ۟ؕ

تمہاری دنیوی زندگی میں بھی ہم تمہارے رفیق تھے اور آخرت میں بھی رہیں گے(1) ، جس چیز کو تمہارا جی چاہے اور جو کچھ تم مانگو سب تمہارے لیے (جنت میں موجود﴾ ہے. info

(1) یہ مزید خوش خبری ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ بعض کے نزدیک یہ فرشتوں کا قول ہے، دونوں صورتوں میں مومن کے لیے یہ عظیم خوش خبری ہے۔

التفاسير:

external-link copy
32 : 41

نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ ۟۠

غفور و رحیم (معبود) کی طرف سے یہ سب کچھ بطور مہمانی کے ہے. info
التفاسير:

external-link copy
33 : 41

وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَاۤ اِلَی اللّٰهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ۟

اور اس سے زیاده اچھی بات واﻻ کون ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں یقیناً مسلمانوں میں سے ہوں.(1) info

(1) یعنی لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کے ساتھ ساتھ خود بھی ہدایت یافتہ، دین کا پابنداور اللہ کا مطیع ہے۔

التفاسير:

external-link copy
34 : 41

وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ؕ— اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَكَ وَبَیْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ ۟

نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی(1) ۔ برائی کو بھلائی سے دفع کرو پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست.(2) info

(1) بلکہ ان میں عظیم فرق ہے۔
(2) یہ ایک بہت ہی اہم اخلاقی ہدایت ہےکہ برائی کو اچھائی کے ساتھ ٹالو۔ یعنی برائی کا بدلہ احسان کے ساتھ، زیادتی کا بدلہ عفو کے ساتھ، غضب کا صبر کے ساتھ، بےہودگیوں کا جواب چشم پوشی کے ساتھ اور مکروہات (ناپسندیدہ باتوں کا) کا جواب برداشت اور حلم کے ساتھ دیا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گاکہ تمہارا دشمن، دوست بن جائے گا، دور دور رہنے والا قریب ہو جائے گا اور خون کاﭘیاسا، تمہارا گرویدہ اور جانثار ہو جائے گا۔

التفاسير:

external-link copy
35 : 41

وَمَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا ۚ— وَمَا یُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ ۟

اور یہ بات انہیں کو نصیب ہوتی ہے جو صبر کریں(1) اور اسے سوائے بڑے نصیبے والوں کے کوئی نہیں پا سکتا.(2) info

(1) یعنی برائی کو بھلائی کےساتھ ٹالنے کی خوبی اگرچہ نہایت مفیداور بڑی ثمر آور ہے لیکن اس پر عمل وہی کرسکیں گے جو صابر ہوں گے غصے کو پی جانے والے اور ناپسندیدہ باتوں کو برداشت کرنے والے۔
(2) حَظٍّ عَظِيمٍ (بڑا نصیبہ) سے مراد جنت ہے یعنی مذکورہ خوبیاں اس کو حاصل ہوتی ہیں جو بڑے نصیبے والا ہوتا ہے، یعنی جنتی جس کے لیے جنت میں جانا لکھ دیا گیا ہو۔

التفاسير:

external-link copy
36 : 41

وَاِمَّا یَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ ؕ— اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ۟

اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی پناه طلب کرو(1) یقیناً وه بہت ہی سننے واﻻ اور جاننے واﻻ ہے.(2) info

(1) یعنی شیطان، شریعت کے کام سے پھیرنا چاہے یا احسن طریقے سے برائی کے دفع کرنے میں رکاوٹ ڈالے تو اس کے شر سے بچنے کے لیے اللہ کی پناہ طلب کرو۔
(2) اور جو ایسا ہو یعنی ہر ایک کی سننے والا اور ہر بات کوجاننے والا، وہی پناہ کے طلب گاروں کو پناہ دے سکتا ہے۔ یہ ماقبل کی تعلیل ہے۔ اس کے بعد اب پھر بعض ان نشانیوں کا تذکرہ کیا جارہا ہے جو اللہ کی توحید، اس کی قدرت کاملہ اور قوت تصرف پر دلالت کرتی ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
37 : 41

وَمِنْ اٰیٰتِهِ الَّیْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ؕ— لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِیْ خَلَقَهُنَّ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ ۟

اور دن رات اور سورج چاند بھی (اسی کی) نشانیوں میں سے ہیں(1) ، تم سورج کو سجده نہ کرو نہ چاند کو(2) بلکہ سجده اس اللہ کے لیے کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا ہے(3)، اگر تمہیں اس کی عبادت کرنی ہے تو. info

(1) یعنی رات کو تاریک بنانا تاکہ لوگ اس میں آرام کر سکیں، دن کو روشن بنانا تاکہ کسب معاش میں پریشانی نہ ہو، پھر یکے بعد دیگرے ایک دوسرے کا آنا جانا اور کبھی رات کا لمبا اور دن کاچھووٹا ہونا۔ اور کبھی اس کے برعکس دن کا لمبا اور رات کا چھوٹا ہونا۔ اسی طرح سورج اور چاندکا اپنے اپنے وقت پر طلوع و غروب ہونا اور اپنے اپنے مدار پراپنی منزلیں طے کرتے رہنا اور آپس میں باہمی تصادم سے محفوظ رہنا، یہ سب اس بات کی دلیلیں ہیں کہ ان کا یقیناً کوئی خالق اور مالک ہے۔ نیز وہ ایک اور صرف ایک ہے اورکائنات میں صرف اسی کا تصرف اور حکم چلتا ہے۔ اگر تدبیر و امرکا اختیار رکھنے والے، ایک سے زیادہ ہوتے تو یہ نظام کائنات ایسے مستحکم اور لگے بندھے طریقے سےکبھی نہیں چل سکتا تھا۔
(2) اس لیے کہ یہ بھی تمہاری اللہ کی مخلوق ہیں، خدائی اختیارات سے بہرہ ور یا ان میں شریک نہیں ہیں۔
(3) خَلَقَهُنَّ ، میں جمع مونث کی ضمیر اس لیے آئی ہے کہ یہ یا تو خَلَقَ هَذِهِ الأَرْبَعَةَ الْمَذْكُورَةَ کے مفہوم میں ہے، کیونکہ غیر عاقل کی جمع کا حکم مؤنث ہی کا ہے۔ یا اس کا مرجع شمس و قمرہی ہیں اور بعض ائمہ نحاۃ کے نزدیک تثنیہ بھی جمع ہے یا پھر مراد الآیات ہیں، (فتح القدیر)۔

التفاسير:

external-link copy
38 : 41

فَاِنِ اسْتَكْبَرُوْا فَالَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّكَ یُسَبِّحُوْنَ لَهٗ بِالَّیْلِ وَالنَّهَارِ وَهُمْ لَا یَسْـَٔمُوْنَ ۟

پھر بھی اگر یہ کبر و غرور کریں تو وه (فرشتے) جو آپ کے رب کے نزدیک ہیں وه تو رات دن اس کی تسبیح بیان کر رہے ہیں اور (کسی وقت بھی) نہیں اکتاتے. info
التفاسير: