அல்குர்ஆன் மொழிபெயர்ப்பு - உருது மொழிபெயர்ப்பு - முஹம்மது ஜுனாக்கரி

பக்க எண்:close

external-link copy
17 : 38

اِصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوٗدَ ذَا الْاَیْدِ ۚ— اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ ۟

آپ ان کی باتوں پر صبر کریں اور ہمارے بندے داؤد (علیہ السلام) کو یاد کریں جو بڑی قوت واﻻ تھا(1) ، یقیناً وه بہت رجوع کرنے واﻻ تھا. info

(1) یہ أَيْدٍ، يَدٌ (ہاتھ) کی جمع نہیں ہے۔ بلکہ یہ آدَ يَئِيدُ کا مصدر أَيْدٍ ہے، قوت وشدت۔ اسی سے تائید بمعنی تقویت ہے۔ اس قوت سے مراد دینی قوت وصلابت ہے، جس طرح حدیث میں آتا ہے ”اللہ کو سب سے زیادہ محبوب نماز، داود (عليه السلام) کی نماز اور سب سے زیادہ محبوب روزے، داود (عليه السلام) کے روزے ہیں، وہ نصف رات سوتے، پھر اٹہ کر رات کا تہائی حصہ قیام کرتے اور پھر اس کے چھٹے حصے میں سو جاتے۔ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن ناغہ کرتے اور جنگ میں فرار نہ ہوتے“۔ (صحيح بخاري، كتاب الأنبياء ، باب وآتينا داود زبورا، ومسلم، كتاب الصيام ، باب النهي عن صوم الدهر)

التفاسير:

external-link copy
18 : 38

اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهٗ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِشْرَاقِ ۟ۙ

ہم نے پہاڑوں کو اس کے تابع کر رکھا تھا کہ اس کے ساتھ شام کو اور صبح کو تسبیح خوانی کریں. info
التفاسير:

external-link copy
19 : 38

وَالطَّیْرَ مَحْشُوْرَةً ؕ— كُلٌّ لَّهٗۤ اَوَّابٌ ۟

اور پرندوں کو بھی جمع ہو کر سب کے سب اس کے زیر فرمان رہتے.(1) info

(1) یعنی اشراق کے وقت اور آخر دن کو پہاڑ بھی داود (عليه السلام) کے ساتھ مصروف تسبیح ہوتے اور اڑتے جانور بھی زبور کی قراءت سن کر ہوا ہی میں جمع ہو جاتے اور ان کے ساتھ اللہ کی تسبیح کرتے۔ محشورۃ کے معنی مجموعہ ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
20 : 38

وَشَدَدْنَا مُلْكَهٗ وَاٰتَیْنٰهُ الْحِكْمَةَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ ۟

اور ہم نے اس کی سلطنت کو مضبوط کر دیا تھا(1) اور اسے حکمت دی تھی(2) اور بات کا فیصلہ کرنا.(3) info

(1) ہر طرح کی مادی اور روحانی اسباب کے ذریعے سے۔
(2) یعنی نبوت، اصابت رائے، قول سداد اور فعل صواب۔
(3) یعنی مقدمات کے فیصلے کرنے کی صلاحیت، بصیرت وتفقہ اور استدلال وبیان کی قوت۔

التفاسير:

external-link copy
21 : 38

وَهَلْ اَتٰىكَ نَبَؤُا الْخَصْمِ ۘ— اِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ ۟ۙ

اور کیا تجھے جھگڑا کرنے والوں کی (بھی) خبر ملی؟ جبکہ وه دیوار پھاند کر محراب میں آگئے.(1) info

(1) مِحْرَابٌ سے مراد وہ کمرہ ہے جس میں سب سے علیحدہ ہو کر یکسوئی کے ساتھ اللہ کی عبادت کرتے۔ دروازے پر پہرے دار ہوتے، تاکہ کوئی اندر آکر عبادت میں مخل نہ ہو۔ جھگڑا کرنے والے پیچھے سے دیوار پھاند کر اندر آگئے۔

التفاسير:

external-link copy
22 : 38

اِذْ دَخَلُوْا عَلٰی دَاوٗدَ فَفَزِعَ مِنْهُمْ قَالُوْا لَا تَخَفْ ۚ— خَصْمٰنِ بَغٰی بَعْضُنَا عَلٰی بَعْضٍ فَاحْكُمْ بَیْنَنَا بِالْحَقِّ وَلَا تُشْطِطْ وَاهْدِنَاۤ اِلٰی سَوَآءِ الصِّرَاطِ ۟

جب یہ (حضرت) داؤد (علیہ السلام) کے پاس پہنچے، پس یہ ان سے ڈر گئے(1) ، انہوں نے کہا خوف نہ کیجئے! ہم دو فریق مقدمہ ہیں، ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے، پس آپ ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دیجئے اور ناانصافی نہ کیجئے اور ہمیں سیدھی راه بتا دیجئے.(2) info

(1) ڈرنے کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ ایک تو وہ دروازے کے بجائےعقب سے دیوار چڑھ کر اندر آئے۔ دوسرے، انہوں نے اتنا بڑا اقدام کرتے ہوئے بادشاہ وقت سے کوئی خوف محسوس نہیں کیا۔ ظاہری اسباب کے مطابق خوف والی چیز سے خوف کھانا، انسان کا ایک طبعی تقاضا ہے۔ یہ منصب وکمال نبوت کے خلاف ہے نہ توحید کے منافی۔ توحید کے منافی غیر اللہ کا وہ خوف ہے جو ماورائے اسباب ہو۔
(2) آنے والوں نے تسلی دی کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، ہمارے درمیان ایک جھگڑا ہے، ہم آپ سے فیصلہ کرانے آئے ہیں، آپ حق کے ساتھ فیصلہ بھی فرمائیں اور سیدھے راستے کی طرف ہماری رہنمائی بھی۔

التفاسير:

external-link copy
23 : 38

اِنَّ هٰذَاۤ اَخِیْ ۫— لَهٗ تِسْعٌ وَّتِسْعُوْنَ نَعْجَةً وَّلِیَ نَعْجَةٌ وَّاحِدَةٌ ۫— فَقَالَ اَكْفِلْنِیْهَا وَعَزَّنِیْ فِی الْخِطَابِ ۟

(سنیے) یہ میرا بھائی ہے(1) اس کے پاس نناوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک ہی دنبی ہے لیکن یہ مجھ سے کہہ رہا ہے کہ اپنی یہ ایک بھی مجھ ہی کو دے دے(2) اور مجھ پر بات میں بڑی سختی برتتا ہے.(3) info

(1) بھائی سے مراد دینی بھائی یا شریک کاروبار یا دوست ہے۔ سب پر بھائی کا اطلاق صحیح ہے۔
(2) یعنی یہ ایک دنبی بھی میری دنبیوں میں شامل کر دے تاکہ میں ہی اس کا بھی ضامن اور کفیل ہو جاؤں۔
(3) دوسرا ترجمہ ہے (اور یہ گفتگو میں مجھ پر غالب آگیا ہے) یعنی جس طرح اس کے پاس مال زیادہ ہے، زبان کا بھی مجھ سے زیادہ تیز ہے اور اس تیزی وطراری کی وجہ سےلوگوں کو قائل کر لیتا ہے۔
(4) یعنی انسانوں میں یہ کوتاہی عام ہے کہ ایک شریک دوسرے پر زیادتی کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ دوسرے کا حصہ بھی خود ہی ہڑپ کر جائے۔

التفاسير:

external-link copy
24 : 38

قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ اِلٰی نِعَاجِهٖ ؕ— وَاِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ الْخُلَطَآءِ لَیَبْغِیْ بَعْضُهُمْ عَلٰی بَعْضٍ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَقَلِیْلٌ مَّا هُمْ ؕ— وَظَنَّ دَاوٗدُ اَنَّمَا فَتَنّٰهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهٗ وَخَرَّ رَاكِعًا وَّاَنَابَ ۟

آپ نے فرمایا! اس کا اپنی دنبیوں کے ساتھ تیری ایک دنبی ملا لینے کا سوال بیشک تیرے اوپر ایک ﻇلم ہے اور اکثر حصہ دار اور شریک (ایسے ہی ہوتے ہیں کہ) ایک دوسرے پر ﻇلم کرتے(1) ہیں، سوائے ان کے جو ایمان ﻻئے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور ایسے لوگ بہت ہی کم ہیں(2) اور (حضرت) داؤد (علیہ السلام) سمجھ گئے کہ ہم نے انہیں آزمایا ہے، پھر تو اپنے رب سے استغفار کرنے لگے اور عاجزی کرتے ہوئے گر پڑے(3) اور (پوری طرح) رجوع کیا. info

(1) البتہ اس اخلاقی کوتاہی سے اہل ایمان محفوظ ہیں، کیونکہ ان کے دلوں میں اللہ کا خوف ہوتا ہے اور عمل صالح کے وہ پابند ہوتے ہیں۔ اس لئےکسی پر زیادتی کرنا اور دوسرے کا مال ہڑپ کر جانے کی سعی کرنا، ان کے مزاج میں شامل نہیں ہوتا۔ وہ تو دینے والے ہوتے ہیں، لینے والے نہیں۔ تاہم ایسے بلند کردار لوگ تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔
(2) وَخَرَّ رَاكِعًا کا مطلب یہاں سجدے میں گر پڑنا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
25 : 38

فَغَفَرْنَا لَهٗ ذٰلِكَ ؕ— وَاِنَّ لَهٗ عِنْدَنَا لَزُلْفٰی وَحُسْنَ مَاٰبٍ ۟

پس ہم نے بھی ان کا وه (قصور) معاف کر دیا(1) ، یقیناً وه ہمارے نزدیک بڑے مرتبہ والے اور بہت اچھے ٹھکانے والے ہیں. info

(1) حضرت داود (عليه السلام) کا یہ کام کیا تھا جس پر انہیں کوتاہی کا اور توبہ وندامت کا اظہار کا احساس ہوا، اور اللہ نے اسے معاف فرما دیا۔ قرآن کریم میں اس اجمال کی تفصیل نہیں ہے اور کسی مستند حدیث میں بھی اس کی بابت کوئی وضاحت نہیں ہے۔ اس لئے بعض مفسرین نے تو اسرائیلی روایات کو بنیاد بنا کر ایسی باتیں بھی لکھ دی ہیں، جو ایک نبی کی شان سے فروتر ہیں۔ بعض مفسرین مثلاً ابن کثیر نے یہ موقف اختیار کیا کہ جب قرآن وحدیث اس معاملے میں خاموش ہیں تو ہمیں بھی اس کی تفصیلات کی کرید میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مفسرین کا ایک تیسرا گروہ ہےجو اس واقعے کی بعض جزئیات اور تفصیلات بیان کرتا ہے تاکہ قرآن کے اجمال کی کچھ توضیح ہو جائے۔ تاہم یہ کسی ایک بیان پر متفق نہیں ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت داود (عليه السلام) نے ایک فوجی کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے اور یہ اس زمانے کے عرف میں معیوب بات نہیں تھی۔ حضرت داود (عليه السلام) کو اس عورت کی خوبیوں اور کمالات کا علم ہوا تھا جس بنا پر ان کے اندر یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اس عورت کو تو ملکہ ہونا چاہئیے نہ کہ ایک عام سی عورت۔ تاکہ اس کی خوبیوں اور کمالات سے پورا ملک فیض یاب ہو۔ یہ خواہش کتنے بھی اچھے جذبے کی بنیاد پر ہو، لیکن ایک تو متعدد بیویوں کی موجودگی میں یہ نامناسب سی بات لگتی ہے۔ دوسرے بادشاہ وقت کی طرف سے اس کے اظہار میں جبر کا پہلو بھی شامل ہو جاتا ہے۔ اس لئے حضرت داود (عليه السلام) کو ایک تمثیلی واقعے سے اس کے نامناسب ہونے کا احساس دلایا گیا اور انہیں فی الواقع اس پر تنبہ ہوگیا۔ بعض کہتے ہیں کہ آنے والے یہ دو شخص فرشتے تھے جو ایک فرضی مقدمہ لے کر حاضر ہوئے، حضرت داود (عليه السلام) سے کوتاہی یہ ہوئی کہ مدعی کا بیان سن کر ہی اپنی رائے کا اظہار کر دیا اور مدعا علیہ کی بات سننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ نے رفع درجات کے لئے اس آزمائش میں انہیں ڈالا، اس غلطی کا احساس ہوتے ہی وہ سمجھ گئے کہ یہ آزمائش تھی جو اللہ کی طرف سے ان پر آئی اور بارگاہ الٰہی میں جھک گئے۔ بعض کہتے ہیں کہ آنے والے فرشتے نہیں تھے، انسان ہی تھے اور یہ فرضی واقعہ نہیں، ایک حقیقی جھگڑا تھا، جس کے فیصلے کے لئے وہ آئے تھے اور اس طرح ان کے صبر وتحمل کا امتحان لیا گیا، کیونکہ اس واقعے میں ناگواری اور اشتعال طبع کے کئی پہلو تھے، ایک تو بلا اجازت دیوار پھاند کر آنا۔ دوسرے، عبادت کے مخصوص اوقات میں آکر مخل ہونا۔ تیسرے، ان کا طرز تکلﻢ بھی آپ کی حاکمانہ شان سے فروتر تھا (کہ زیادتی نہ کرنا وغیرہ) لیکن اللہ نے آپ کو توفیق دی کہ مشتعل نہیں ہوئے اور کمال صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا۔ لیکن دل میں جو طبعی ناگواری کا ہلکا سا احساس پیدا ہوا، اس کو بھی اپنی کوتاہی پر محمول کیا، یعنی یہ اللہ کی طرف سے آزمائش تھی، اس لئے یہ طبعی انقباض بھی نہیں ہونا چاہئے تھا، جس پر انہوں نے توبہ واستغفار کا اہتمام کیا۔ وَاللهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔

التفاسير:

external-link copy
26 : 38

یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِیْفَةً فِی الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوٰی فَیُضِلَّكَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ؕ— اِنَّ الَّذِیْنَ یَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌۢ بِمَا نَسُوْا یَوْمَ الْحِسَابِ ۟۠

اے داؤد! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنا دیا تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کرو اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی نہ کرو ورنہ وه تمہیں اللہ کی راه سے بھٹکا دے گی، یقیناً جو لوگ اللہ کی راه سے بھٹک جاتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے اس لئے کہ انہوں نے حساب کے دن کو بھلا دیا ہے. info
التفاسير: