அல்குர்ஆன் மொழிபெயர்ப்பு - உருது மொழிபெயர்ப்பு - முஹம்மது ஜுனாக்கரி

பக்க எண்:close

external-link copy
11 : 14

قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ اِنْ نَّحْنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ یَمُنُّ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ ؕ— وَمَا كَانَ لَنَاۤ اَنْ نَّاْتِیَكُمْ بِسُلْطٰنٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ ؕ— وَعَلَی اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ ۟

ان کے پیغمبروں نے ان سے کہا کہ یہ تو سچ ہے کہ ہم تم جیسے ہی انسان ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنا فضل کرتا ہے(1) ۔ اللہ کے حکم کے بغیر ہماری مجال نہیں کہ ہم کوئی معجزه تمہیں ﻻ دکھائیں(2) اور ایمان والوں کو صرف اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے.(3) info

(1) رسولوں نے پہلے اشکال کا جواب دیا کہ یقینا ہم تمہارے جیسے بشر ہیں۔ لیکن تمہارا یہ سمجھنا غلط ہے کہ بشر رسول نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالٰی انسانوں کی ہدایت کے لئے انسانوں میں سے ہی بعض انسانوں کو وحی و رسالت کے لئے چن لیتا ہے اور تم سب میں سے یہ احسان اللہ نے ہم پر فرمایا ہے۔
(2) ان کے حسب منشاء معجزے کے سلسلے میں رسولوں نے جواب دیا کہ معجزے کا صدور ہمارے اختیار میں نہیں، یہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔
(3) یہاں مومنیں سے مراد اولا خود انبیاء ہیں یعنی ہمیں سارا بھروسہ اللہ پر ہی رکھنا چاہیے جیسا کہ آگے فرمایا آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اللہ پر بھروسہ نہ رکھیں۔

التفاسير:

external-link copy
12 : 14

وَمَا لَنَاۤ اَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَی اللّٰهِ وَقَدْ هَدٰىنَا سُبُلَنَا ؕ— وَلَنَصْبِرَنَّ عَلٰی مَاۤ اٰذَیْتُمُوْنَا ؕ— وَعَلَی اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُوْنَ ۟۠

آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ پر بھروسہ نہ رکھیں جبکہ اسی نے ہمیں ہماری راہیں سمجھائی ہیں۔ واللہ جو ایذائیں تم ہمیں دو گے ہم ان پر صبر ہی کریں گے۔ توکل کرنے والوں کو یہی ﻻئق ہے کہ اللہ ہی پر توکل کریں.(1) info

(1) کہ وہی کفار کی شرارتوں اور سفاہتوں سے بچانے والا ہے۔ یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ہم سے معجزات طلب نہ کریں، اللہ پر توکل کریں، اس کی مشیت ہوگی تو معجزہ ظاہر فرما دے گا ورنہ نہیں۔

التفاسير:

external-link copy
13 : 14

وَقَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِّنْ اَرْضِنَاۤ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا ؕ— فَاَوْحٰۤی اِلَیْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظّٰلِمِیْنَ ۟ۙ

کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ ہم تمہیں ملک بدر کر دیں گے یا تم پھر سے ہمارے مذہب میں لوٹ آؤ۔ تو ان کے پروردگار نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ان ﻇالموں کو ہی غارت کر دیں گے.(1) info

(1) جیسے اور بھی کئی مقامات پر اللہ تعالٰی نے فرمایا :«وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ (1) إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُورُونَ (1) وَإِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ» ( سورة الصافات: 171-173)۔ ”اور پہلے ہو چکا ہمارا حکم اپنے ان بندوں کے حق میں جو رسول ہیں کہ بیشک وہ منصور اور کامیاب ہونگے اور ہمارا لشکر بھی غالب ہوگا“ «كَتَبَ اللَّهُ لأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي» (المجادلة ۔21)۔ ”اور اللہ نے یہ بات لکھ دی ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب ہونگے“۔

التفاسير:

external-link copy
14 : 14

وَلَنُسْكِنَنَّكُمُ الْاَرْضَ مِنْ بَعْدِهِمْ ؕ— ذٰلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِیْ وَخَافَ وَعِیْدِ ۟

اور ان کے بعد ہم خود تمہیں اس زمین میں بسائیں گے(1) ۔ یہ ہے ان کے لئے جو میرے سامنے کھڑے ہونے کا ڈر رکھیں اور میری وعید سے خوفزده رہیں.(2) info

(1) یہ مضمون بھی اللہ نے کئی مقامات پر بیان فرمایا ہے مثلاً، «وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ» (الأنبياء:105) ۔ ”ہم نے لکھ دیا زبور میں، نصیحت کے پیچھے کہ آخر زمین کے وارث ہوں گے میرے نیک بندے“۔ (مزید دیکھئے سورۃ الاعراف: 128، 137) چنانچہ اس کے مطابق اللہ تعالٰی نے نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کی مدد فرمائی، آپ کو با دل نخواستہ مکے سے نکلنا پڑا لیکن چند سالوں بعد ہی آپ فاتحانہ مکے میں داخل ہوئے اور آپ کو نکلنے پر مجبور کرنے والے ظالم مشرکین سر جھکائے، کھڑے آپ کے اشارہ ابرو کے منتظر تھے لیکن آپ (صلى الله عليه وسلم)نے خلق عظیم کا مظاہرہ کرتے ہوئے «لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ» (یوسف:92) کہہ کر سب کو معاف فرما دیا۔ صَلَوَاتُ اللهِ وَسَلاَمُهُ عَلَيْهِ
(2) جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا۔«وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى ، فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى» ( النازعات: 40-41)۔ ”جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکے رکھا یقینا جنت اس کا ٹھکانہ ہے“۔ «وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ» (النازعات :46)۔ ”جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اس کے لیے دو جنتیں ہیں“۔

التفاسير:

external-link copy
15 : 14

وَاسْتَفْتَحُوْا وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ ۟ۙ

اور انہوں نے فیصلہ طلب کیا(1) اور تمام سرکش ضدی لوگ نامراد ہوگئے. info

اس کا فاعل ظالم مشرک بھی ہو سکتے ہیں کہ انہوں نے بالآخر اللہ سے فیصلہ طلب کیا۔ یعنی اگر یہ رسول سچے ہیں تو یا اللہ ہم کو اپنے عذاب کے ذریعے سے ہلاک کر دے جیسے مشرکین مکہ نے کہا «اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ» (الانفال:32) ”اور جب کہ ان لوگوں نے کہا، اے اللہ! اگر یہ قرآن آپ کی طرف سے واقعی ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا، یا ہم پر کوئی دردناک عذاب واقع کر دے“۔ جس طرح جنگ بدر کے موقع پر مشرکین مکہ نے اس قسم کی آرزو کی تھی جس کا ذکر اللہ نے (انفال:19) میں کیا ہے یا اس کا فاعل رسول ہوں کہ انہوں نے اللہ سے فتح و نصرت کی دعائیں کیں، جنہیں اللہ نے قبول کیا۔

التفاسير:

external-link copy
16 : 14

مِّنْ وَّرَآىِٕهٖ جَهَنَّمُ وَیُسْقٰی مِنْ مَّآءٍ صَدِیْدٍ ۟ۙ

اس کے سامنے دوزخ ہے جہاں وه پیﭗ کا پانی پلایا جائے گا.(1) info

(1) صَدِیْد، پیپ اور خون جو جہنمیوں کے گوشت اور ان کی کھالوں سے بہا ہوگا۔ بعض احادیث میں اسے عُصَارَةُ أَهْلِ النَّارِ (ﻣﺴﻨﺪ ﺍﺣﻤﺪ ﺟﻠﺪ ۔ ٥، ﺻﻔﺤﮧ ١٧١) (جہنمیوں کے جسم سے نچوڑا ہوا) اور بعض احادیث میں ہے یہ صدید اتنا گرم اور کھولتا ہوا ہوگا کہ ان کے منہ کے قریب پہنچتے ہی ان کے چہرے کی کھال جھلس کر گر پڑے گی اور اس کا ایک گھونٹ پیتے ہی ان کے پیٹ کی آنتیں پاخانے کے راستے باہر نکل پڑیں گی۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ

التفاسير:

external-link copy
17 : 14

یَّتَجَرَّعُهٗ وَلَا یَكَادُ یُسِیْغُهٗ وَیَاْتِیْهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَّمَا هُوَ بِمَیِّتٍ ؕ— وَمِنْ وَّرَآىِٕهٖ عَذَابٌ غَلِیْظٌ ۟

جسے بمشکل گھونٹ گھونٹ پئے گا۔ پھر بھی اسے گلے سے اتار نہ سکے گا اور اسے ہر جگہ سے موت آتی دکھائی دے گی لیکن وه مرنے واﻻ نہیں(1) ۔ پھر اس کے پیچھے بھی سخت عذاب ہے. info

(1) یعنی انواع و اقسام کے عذاب چکھ چکھ کر وہ موت کی آرزو کرے گا۔ لیکن، موت وہاں کہاں؟ وہاں تو اسی طرح دائمی عذاب ہوگا۔

التفاسير:

external-link copy
18 : 14

مَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَمَادِ ١شْتَدَّتْ بِهِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍ ؕ— لَا یَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰی شَیْءٍ ؕ— ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ ۟

ان لوگوں کی مثال جنہوں نے اپنے پالنے والے سے کفر کیا، ان کے اعمال مثل اس راکھ کے ہیں جس پر تیز ہوا آندھی والے دن چلے(1) ۔ جو بھی انہوں نے کیا اس میں سے کسی چیز پر قادر نہ ہوں گے، یہی دور کی گمراہی ہے. info

(1) قیامت والے دن کافروں کے عملوں کا بھی یہی حال ہوگا کہ اس کا کوئی اجر و ثواب انہیں نہیں ملے گا۔

التفاسير: