(1) مَرَجَ بمعنی أَرْسَل َجاری کر دیئے۔ اس کی تفصیل سورۃ الفرقان،آیت 53 میں گزر چکی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دو دریاوں سے مراد بعض کے نزدیک ان کے الگ الگ وجود ہیں۔ جیسےمیٹھے پانی کے دریا ہیں، جن سے کھیتیاں سیراب ہوتی ہیں اور انسان ان کا پانی اپنی دیگر ضروریات میں بھی استعمال کرتا ہے۔ دوسری قسم سمندروں کاﭘانی ہے۔ جو کھارا ہے،جس کے کچھ اور فوائد ہیں۔ یہ دونوں آپس میں نہیں ملتے۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ کھارے سمندروں میں ہی میٹھے پانی کی لہریں چلتی ہیں اوریہ دونوں لہریں آپس میں نہیں ملتیں، بلکہ ایک دوسرے سے جدا اور ممتاز ہی رہتی ہیں۔ اس کی ایک صورت تویہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کھارے سمندروں میں ہی کئی مقامات پر میٹھے پانی کی لہریں بھی جاری کی ہوئی ہیں اور وہ کھارے پانی سے الگ ہی رہتی ہیں۔ دوسری صورت یہ بھی ہے کہ اوپرکھارا پانی ہو اور اس کی تہ میں نیچے چشمہ آب شیریں۔ جیسا کہ واقعتاً بعض مقامات پر ایسا ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ جن مقامات پر میٹھے پانی کے دریا کا پانی سمندر میں جا گرتا ہے، وہاں کئی لوگوں کا مشاہدہ ہے کہ دونوں پانی میلوں دور تک اس طرح ساتھ ساتھ چلتے ہیں کہ ایک طرف میٹھا دریائی پانی اور دوسری طرف وسیع و عریض سمندر کا کھارا پانی، ان کے درمیان اگرچہ کوئی آڑ نہیں۔ لیکن یہ باہم نہیں ملتے۔ دونوں کے درمیان یہ وہ برزخ (آڑ) ہے جو اللہ نے رکھ دی ہے، دونوں اس سے تجاوز نہیں کرتے۔
(1) مَرْجَانٌ سے چھوٹے موتی یا پھر مونگے مراد ہیں۔ کہتے ہیں کہ آسمان سے بارش ہوتی ہے تو سیپیاں اپنے مونہہ کھول دیتی ہیں، جو قطرہ ان کے اندر پڑ جاتا ہے، وہ موتی بن جاتا ہےمشہور یہی ہے کہ موتی وغیرہ میٹھے پانی کے دریاؤں سے نہیں، بلکہ صرف آب شور یعنی سمندروں سے ہی نکلتے ہیں۔ لیکن قرآن نے تثنیہ کی ضمیر استعمال کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں سے ہی موتی نکلتے ہیں۔ چونکہ موتی کثرت کے ساتھ سمندروں سےہی نکلتے ہیں، اس لیےاس کی شہرت ہو گئی ہے۔ تاہم شیریں دریاؤں سے اس کی نفی ممکن نہیں بلکہ موجودہ دور کے تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ میٹھے دریا میں بھی موتی ہوتے ہیں۔ البتہ ان کے مسلسل جاری رہنے کی وجہ سے ان سے موتی نکالنا مشکل امر ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ مراد مجموعہ ہے، ان میں سے کسی ایک سے بھی موتی نکل جائیں توان پر تثنیہ کا اطلاق صحیح ہے۔ بعض نے کہا کہ شیریں دریا بھی عام طور پر سمندر میں ہی گرتے ہیں اور وہیں سے موتی نکالے جاتے ہیں، اس لیے گو منبع دریائے شور ہی ہوئے، لیکن دوسرے دریاؤں کا حصہ بھی اس میں شامل ہے لیکن موجودہ دورکے تجربات کے بعد ان تاویلات اور تکلﻔات کی ضرورت نہیں۔ وَاللهُ أَعْلَمُ۔
(1) یہ جواہر اورموتی زیب وزینت اور حسن وجمال کا مظہر ہیں اور اہل شوق واہل ثروت انہیں اپنے ذوق جمال کی تسکین اور حسن ورعنائی میں اضافے ہی کے لیے استعمال کرتےہیں، اس لیے ان کا نعمت ہونا بھی واضح ہے۔
(1) الْجَوَارِ، جَارِيَةٌ (چلنے والی) کی جمع اور محذوف موصوف (السُّفُنُ) کی صفت ہے۔ مُنْشَآتٌ کے معنی مرفوعات ہیں، یعنی بلند کی ہوئیں، مراد بادبان ہیں،جو بادبانی کشتیوں میں جھنڈوں کی طرح اونچے اور بلند بنائے جاتے ہیں۔ بعض نے اس کے معنی مصنوعات کے کیے ہیں یعنی اللہ کی بنائی ہوئی جو سمندر میں چلتی ہیں۔
(1) یعنی سب اس کے محتاج اور اس کے در کے سوالی ہیں۔
(2) ہر روز کا مطلب، ہر وقت۔ شان کے معنی امر یا معاملہ ، یعنی ہر وقت وہ کسی نہ کسی کام میں مصروف ہے، کسی کو بیمار کر رہا ہے، کسی کو شفایاب، کسی کو تونگر بنا رہا ہے تو کسی تونگرکو فقیر۔ کسی کو گدا سے شاہ اور شاہ سے گدا، کسی کو بلندیوں پر فائز کرر ہا ہے، کسی کو پستی میں گرا رہا ہے، کسی کو ہست سے نیست اور نیست کو ہست کررہا ہے وغیرہ۔ الغرض کائنات میں یہ سارے تصرف اسی کے امر ومشیت سےہو رہے ہیں اور شب وروز کا کوئی لمحہ ایسا نہیں جو اس کی کارگزاری سے خالی ہو۔ هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ، لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ۔
(1) اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ کو فراغت نہیں ہے بلکہ یہ محاورۃً بولا گیا ہے۔ جس کا مقصد وعید وتہدید ہے۔ ثَقَلانِ (جن وانس کو) اس لیے کہا گیا ہے کہ ان کو تکالیف شرعیہ کا پابندکیا گیا ہے، اس پابندی یا بوجھ سے دوسری مخلوق مستثنیٰ ہے۔
(1) یہ تہدید بھی نعمت ہے کہ اس سے بدکار، بدیوں کے ارتکاب سے باز آجائے اورمحسن زیادہ نیکیاں کمائے۔
(2) یعنی اللہ کی تقدیر اور قضا سے تم بھاگ کر کہیں جا سکتے ہو تو چلے جاؤ، لیکن یہ طاقت کس میں ہے؟ اور بھاگ کر آخر کہاں جائے گا؟ کون سی جگہ ایسی ہے جو اللہ کے اختیارات سے باہر ہو۔ یہ بھی تہدید ہے جو مذکورہ تہدید کی طرح نعمت ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ میدان محشر میں کہا جائے گا، جب کہ فرشتے ہر طرف سے لوگوں کو گھیر رکھے ہوں گے۔ دونوں ہی مفہوم اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔
(1) مطلب یہ ہے کہ اگر تم قیامت والے دن کہیں بھاگ کر گئے بھی، تو فرشتے آگ کے شعلے اور دھواں تم پر چھوڑ کر یا پگھلا ہوا تانبہ تمہارے سروں پر ڈال کر تمہیں واپس لے آئیں گے۔ نُحَاسٌ کے دوسرے معنی پگھلے ہوئے تانبے کے کیے گئے ہیں۔
(2) یعنی اللہ کے عذاب کو ٹالنے کی تم قدرت نہیں رکھو گے۔
(1) یعنی جس وقت وہ قبروں سےباہر نکلیں گے۔ ورنہ بعد میں موقف حساب میں ان سے باز پرس کی جائے گی۔ بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ گناہوں کی بابت نہیں پوچھا جائے گا، کیونکہ ان کا تو پورا ریکارڈ فرشتوں کے پاس بھی ہوگا اور اللہ کے علم میں بھی۔ البتہ پوچھا جائے گا کہ تم نے یہ کیوں کیے؟ یا یہ مطلب ہے، ان سے نہیں پوچھا جائے گا بلکہ انسانی اعضا خودبول کر ہر بات بتلائیں گے۔
(1) یعنی جس طرح اہل ایمان کی علامت ہوگی کہ ان کے اعضائے وضو چمکتے ہوں گے۔ اسی طرح گناہ گاروں کےچہرے سیاہ، آنکھیں نیلگوں اور وہ دہشت زدہ ہوں گے۔
(2) فرشتے ان کی پیشانیاں اور ان کے قدموں کے ساتھ ملا کر پکڑیں گے اور جہنم میں ڈال دیں گے، یا کبھی پیشانیوں سے اور کبھی قدموں سے انہیں پکڑیں گے۔