(1) یہ مضمون پہلے بھی گزر چکا ہے، یہاں پھر دہرایا جا رہا ہے کیونکہ احد کی شکست سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض کفار یا منافقین مسلمانوں کو یہ مشورہ دے رہے تھے کہ تم اپنے آبائی دین کی طرف لوٹ آؤ۔ ایسے میں مسلمانوں کو کہا گیا کہ کافروں کی اطاعت ہلاکت وخسر ان کاباعث ہے۔ کامیابی اللہ کی اطاعت ہی میں ہے اور اس سے بہتر کوئی مددگارنہیں۔
(1) مسلمانوں کی شکست دیکھتے ہوئے بعض کافروں کے دل میں یہ خیال آیا کہ یہ موقع مسلمانوں کے بالکلیہ خاتمہ کے لئے بڑا اچھا ہے اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال دیا۔ پھر انہیں اپنے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کا حوصلہ نہ ہوا (فتح القدیر) صحیحین کی حدیث میں ہے کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا کہ مجھے پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئی ہے جو مجھ سے قبل کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ ان میں ایک یہ ہے کہ«نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ»، ”دشمن کے دل میں ایک مہینے کی مسافت پر میرا رعب ڈال کر میری مدد کی گئی ہے“۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کا رعب مستقل طور پر دشمن کے دل میں ڈال دیا گیا تھا۔ اور اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کے ساتھ آپ (صلى الله عليه وسلم) کی امت یعنی مسلمانوں کا رعب بھی مشرکوں پر ڈال دیا گیا ہے اور اس کی وجہ ان کا شرک ہے۔ گویا شرک کرنے والوں کا دل دوسروں کی ہیبت سے لرزاں وترساں رہتا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ جب مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مشرکانہ عقائد واعمال میں مبتلا ہوئی ہے، دشمن ان سے مرعوب ہونے کے بجائے، وہ دشمنوں سے مرعوب ہیں۔
(1) اس وعدے سے بعض مفسرین نے تین ہزار اور ہزار فرشتوں کا نزول مراد لیا ہے لیکن یہ رائے سرے سے صحیح نہیں بلکہ صحیح یہ ہے کہ فرشتوں کا یہ نزول صرف جنگ بدر کے ساتھ مخصوص تھا۔ باقی رہا وہ وعدہ جو اس آیت میں مذکورہے تو اس سے مراد فتح ونصرت کا وہ عام وعدہ ہے جو اہل اسلام کے لئے اور اس کے رسول کی طرف سے بہت پہلے سے کیا جا چکا تھا۔ حتیٰ کہ بعض آیتیں مکہ میں نازل ہو چکی تھیں۔ اور اس کے مطابق ابتدائے جنگ میں مسلمان غالب وفاتح رہے جس کی طرف «إِذْ تَحُسُّونَهُمْ بِإِذْنِهِ» سے اشارہ کیا گیا ہے۔
(2) اس تنازع اور عصیان سے مراد تیر اندازوں کاوہ اختلاف ہے جو فتح وغلبہ دیکھ کر ان کے اندر واقع ہوا اور جس کی وجہ سے کافروں کو پلٹ کر دوبارہ حملہ آور ہونے کا موقع ملا۔
(3) اس سے مراد وہ فتح ہے جو ابتدا میں مسلمانوں کو حاصل ہوئی۔
(4) یعنی مال غنیمت، جس کے لئے انہوں نے وہ پہاڑی چھوڑ دی جس کے نہ چھوڑنے کی انہیں تاکید کی گئی تھی۔
(5) وہ لوگ ہیں جنہوں نے مورچہ چھوڑنے سے منع کیا اور نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کے فرمان کے مطابق اسی جگہ ڈٹے رہنے کا عزم ظاہر کیا۔
(6) یعنی غلبہ عطا کرنے کے بعد پھر تمہیں شکست دے کر ان کافروں سے پھیر دیا تاکہ تمہیں آزمائے۔
(7) اس میں صحابہ کرام (رضي الله عنهم) کے اس شرف وفعل کا اظہار ہے جو ان کی کوتاہیوں کے باوجود اللہ نے ان پر فرمایا۔ یعنی ان کی غلطیوں کی وضاحت کرکے آئندہ اس کا اعادہ نہ کریں، اللہ نے ان کے لئے معافی کا اعلان کر دیا تاکہ کوئی بد باطن ان پر زبان طعن دراز نہ کرے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہی قرآن کریم میں ان کے لئے عفو عام کا اعلان فرما دیا تو اب کسی کے لئے طعن وتشنیع کی گنجائش کہاں رہ گئی؟ صحیح بخاری میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک حج کے موقعے پر ایک شخص نے حضرت عثمان (رضي الله عنه) پر بعض اعتراضات کئے کہ وہ جنگ بدر میں، بیعت رضوان میں شریک نہیں ہوئے، نیز یوم احد میں فرار ہوگئے تھے۔ حضرت ابن عمر (رضي الله عنه) نے فرمایا کہ جنگ بدر میں تو ان کی اہلیہ (بنت رسول ج) بیمار تھیں، بیعت رضوان کے موقع پر آپ رسول (صلى الله عليه وسلم) کے سفیر بن کر مکہ گئے ہوئے تھے اور یوم احد کے فرار کو اللہ نے معاف فرما دیا ہے۔ (ملخصا۔ صحیح بخاری، غزوۂ احد)
(1) کفارکے یکبارگی اچانک حملے سے مسلمانوں میں جو بھگدڑ مچی اورمسلمانوں کی اکثریت نے راہ فرار اختیار کی۔ یہ اس کانقشہ بیان کیا جا رہا ہے۔تُصْعِدُونَ إِصْعَادٌسے ہے جس کے معنی اپنی روبھاگے جانے یا وادی کی طرف چڑھے جانے یا بھاگنے کے ہیں۔ (طبری )
(2) نبی (صلى الله عليه وسلم) اپنے چند ساتھیوں سمیت پیچھے رہ گئے اور مسلمانوں کو پکارتے رہے۔«إِلَيَّ عِبَادَ اللهِ! إِلَيَّ عِبَادَ اللهِ!»، ”اللہ کے بندو! میری طرف لوٹ کر آؤ، اللہ کے بندو! میری طرف لوٹ کر آؤ“۔ لیکن سراسیمگی کے عالم میں یہ پکار کون سنتا؟۔
(3) فَأَثَابَكُمْ تمہاری کوتاہی کے بدلے میں تمہیں غم پر غم دیا غَمًّا بِغَمٍّ بمعنی غَمًّا علی غَمٍّ ابن جریر اور ابن کثیر کے اختیار کردہ راجح قول کے مطابق پہلے غم سے مراد ہے، مال غنیمت اور کفار پر فتح وظفر سے محرومی کا غم اور دوسرے غم سے مراد ہے مسلمانوں کی شہادت، ان کے زخمی ہونے، نبی (صلى الله عليه وسلم) کے حکم کی خلاف ورزی اور آپ (صلى الله عليه وسلم) کی خبر شہادت سے پہنچنے والا غم۔
(4) یعنی یہ غم پر غم اس لئے دیا تاکہ تمہارے اندر شدائد برداشت کرنے کی قوت اور عزم وحوصلہ پیدا ہو۔ جب یہ قوت اور حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے تو پھر انسان کو فوت شدہ چیز پر غم اور پہنچنے والے شدائد پر ملال نہیں ہوتا۔