(1) یعنی ہر بعد میں آنے والی قوم نے اس طرح رسولوں کی تکذیب کی اور انہیں جادوگر اور دیوانہ قرار دیا، جیسے پچھلی قومیں بعد میں آنے والی قوموں کے لیے وصیت کر کے جاتی رہی ہیں۔ یکے بعد دیگرے ہر قوم نے یہی تکذیب کا راستہ اختیار کیا۔
(1) یعنی ایک دوسرے کو وصیت تو نہیں کی بلکہ ہر قوم ہی اپنی اپنی جگہ سرکش ہے، اس لیے ان سب کے دل بھی متشابہ ہیں اور ان کے طور اطوار بھی ملتے جلتے۔ اس لیے متاخرین نے بھی وہی کچھ کہا اور کیا جو متقدمین نے کہا اور کیا۔
(1) اس لیے کہ نصیحت سے فائدہ انہیں کو پہنچتا ہے۔ یا مطلب ہے کہ آپ نصیحت کرتے رہیں، اس نصیحت سے وہ لوگ یقیناً فائدہ اٹھائیں گے جن کی بابت اللہ کے علم میں ہے کہ وہ ایمان لائیں گے۔
(1) اس میں اللہ تعالیٰ کے اس ارادۂ شرعیہ تکلیفیہ کا اظہار ہے جو اس کو محبوب ومطلوب ہے کہ تمام انس وجن صرف ایک اللہ کی عبادت کریں اور اطاعت بھی اسی ایک کی کریں۔ اگر اس کا تعلق ارادۂ تکوینی سے ہوتا، پھر تو کوئی انس وجن اللہ کی عبادت واطاعت سے انحراف کی طاقت ہی نہ رکھتا۔ یعنی اس میں انسانوں اور جنوں کو اس مقصد زندگی کی یاد دہانی کرائی گئی ہے، جسے اگر انہوں نے فراموش کیے رکھا تو آخرت میں سخت بازپرس ہوگی اور وہ اس امتحان میں ناکام قرار پائیں گے جس میں اللہ نے ان کو ارادہ واختیار کی آزادی دے کر ڈالا ہے۔
(1) یعنی میری عبادت واطاعت سے میرا مقصود یہ نہیں ہے کہ یہ مجھے کما کر کھلائیں، جیساکہ دوسرے آقاؤں کا مقصود ہوتاہے، بلکہ رزق کےسارے خزانے تو خود میرے ہی پاس ہیں میری عبادت واطاعت سے تو خود ان ہی کو فائدہ ہو گا کہ ان کی آخرت سنور جائے گی نہ کہ مجھے کوئی فائدہ ہو گا۔
(1) ذَنُوبٌ کے معنی بھرے ڈول کےہیں۔ کنویں سے ڈول میں پانی نکالا کر تقسیم کیا جاتا ہے اس اعتبار سے یہاں ڈول کو حصے کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ مطلب ہے کہ ظالموں کو عذاب سے حصہ پہنچے گا، جس طرح اس سے پہلے کفر وشرک کا ارتکاب کرنے والوں کو ان کے عذاب کا حصہ ملا تھا۔
(2) لیکن یہ حصۂ عذاب انہیں کب پہنچے گا، یہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے، اس لیے طلب عذاب میں جلدی نہ کریں۔