(1) اس لیے کہ اسے بندوں کی طرح غورفکر کرنے کی ضرورت نہ ہوگی۔
(1) آزِفَةٌ کے معنی ہیں قریب آنے والی۔ یہ قیامت کا نام ہے، اس لیے کہ وہ بھی قریب آنے والی ہے۔
(2) یعنی اس دن خوف کی وجہ سے دل اپنی جگہ سے ہٹ جائیں گے۔ كَاظِمِينَ غم سے بھرے ہوئے، یا روتے ہوئے، یا خاموش، اس کےتینوں معنی کیے گئے ہیں۔
(1) اس میں اللہ تعالیٰ کے علم کامل کا بیان ہے کہ اسے تمام اشیا کا علم ہے۔ چھوٹی ہو یا بڑی، باریک ہو یا موٹی، اعلیٰ مرتبے کی ہو یا چھوٹے مرتبے کی۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ جب اس کے علم واحاطہ کا یہ حال ہے تو اس کی نافرمانی سے اجتناب اور صحیح معنوں میں اس کا خوف اپنےاندر پیدا کرے۔ آنکھوں کی خیانت یہ ہے کہ دزدیدہ نگاہوں سے دیکھا جائے۔ جیسے راہ چلتے کسی حسین عورت کو کنکھیوں سےدیکھنا۔ (سینوں کی باتوں میں) وہ وسوسے سےبھی آجاتے ہیں جوانسان کے دل میں پیدا ہوتے رہتے ہیں، وہ جب تک وسوسےہی رہتےہیں یعنی ایک لمحۂ گزراں کی طرح آتے اور ختم ہو جاتے ہیں، تب تک تو وہ قابل مواخدہ نہیں ہوں گے۔ لیکن جب وہ عزائم کا روپ دھارلیں تو پھر ان کا مواخدہ ہو سکتا ہے، چاہےان پر عمل کرنے کا انسان کوموقع نہ ملے۔
(1) اس لیے کہ انہیں کسی چیز کا علم ہے نہ کسی پر قدرت، وہ بےخبر بھی ہیں اور بےاختیار بھی، جب کہ فیصلے کے لیے علم و اختیار دونوں چیزوں کی ضرورت ہے اور یہ دونوں خوبیاں صرف اللہ کےپاس ہیں، اس لیے صرف اسی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ فیصلہ کرے اور وہ یقیناً حق کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا، کیونکہ اسےکسی کا خوف نہ ہوگا نہ کسی سے حرص وطمع۔
(1) گزشتہ آیات میں احوال آخرت کا بیان تھا، اب دنیا کے احوال سے انہیں ڈرایا جارہاہے کہ یہ لوگ ذرا زمین میں چل پھر کران قوموں کا انجام دیکھیں، جو ان سے پہلے اس جرم تکذیب میں ہلاک کی گئیں، جس کا ارتکاب یہ کر رہے ہیں درآں حالیکہ گزشتہ قومیں قوت وآثار میں ان سے کہیں بڑھ کر تھیں، لیکن جب ان پر اللہ کا عذاب آیا تو انہیں کوئی نہیں بچا سکا۔ اسی طرح تم پر بھی عذاب آسکتا ہے، اور اگر یہ آگیا تو پھر کوئی تمہارا پشت پناہ نہ ہوگا۔
(1) یہ ان کی ہلاکت کی وجہ بیان کی گئی ہے، اور وہ ہے اللہ کی آیتوں کا انکار اور پیغمبروں کی تکذیب۔ اب سلسلۂ نبوت و رسالت تو بند ہے تاہم آفاق وانفس میں بے شمار آیات الٰہی بکھری اور پھیلی ہوئی ہیں۔ علاوہ ازیں وعظ و تذکیر اور دعوت و تبلیغ کے ذریعے سے علما اور داعیان حق ان کی وضاحت اور نشان دہیں کے لیے موجود ہیں۔ اس لیے آج بھی جو آیات الٰہی سے اعراض اور دین و شریعت سے غفلت کرے گا، اس کا انجام مکذبین اور منکرین رسالت سے مختلف نہیں ہوگا۔
(1) آیات سے مراد وہ نو نشانیاں بھی ہو سکتی ہیں جن کا ذکر پہلے گزر چکا ہے، یا عصا اور ید بیضا والے دو بڑے واضح معجزات بھی سُلْطَانٍ مُبِينٍ سے مراد قوی دلیل اور حجت واضحہ، جس کا کوئی جواب ان کی طرف سے ممکن نہیں تھا، بجز ڈھٹائی اور بےشرمی کے۔
(1) فرعون، مصر میں آباد قبط کا بادشاہ تھا، بڑا ظالم و جابر اور رب اعلیٰ ہونے کا دعوےدار۔ اس نے حضرت موسیٰ (عليه السلام) کی قوم بنی اسرائیل کوغلام بنارکھا تھا اور اس پر طرح طرح کی سختیاں کرتا تھا، جیساکہ قرآن کے متعدد مقامات پر اس کی تفصیل ہے۔ ہامان، فرعون کا وزیر اورمشیر خاص تھا۔ قارون اپنے وقت کامال دار ترین آدمی تھا،ان سب نے پہلے لوگوں کی طرح حضرت موسیٰ (عليه السلام) کی تکذیب کی اور انہیں جادوگر اور کذاب کہا۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا گیا «َذَلِكَ مَا أَتَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ ، أَتَوَاصَوْا بِهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ» (سورة الذاريات: 53-52) ”اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں، ان کے پاس جو بھی نبی آیا۔ انہوں نے کہہ دیا کہ یا تو یہ جادوگر ہے یا دیوانہ ہے۔ کیا یہ اس بات کی ایک دوسرے کو وصیت کرتے گئے ہیں؟ نہیں بلکہ یہ سب کی سب سرکش ہیں“۔
(1) فرعون یہ کام پہلے بھی کر رہا تھا تاکہ وہ بچہ پیدا نہ ہو، جو نجومیوں کی پیش گوئی کےمطابق، اس کی بادشاہ کےلیے خطرے کا باعث تھا۔ یہ دوبارہ حکم اس نے حضرت موسیٰ (عليه السلام) کی تذلیل و اہانت کے لیے دیا، نیز تاکہ بنی اسرائیل موسیٰ (عليه السلام) کے وجود کو اپنے لیے مصیبت اور نحوست کاباعث سمجھیں،جیساکہ فی الواقع انہوں نے کہا، «أُوذِينَا مِنْ قَبْلِ أَنْ تَأْتِيَنَا وَمِنْ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا» (الأعراف: 129) ”اے موسیٰ (عليه السلام) تیرے آنے سے قبل بھی ہم اذیتوں سے دوچار تھے اور تیرے آنے کے بعد بھی ہمارا یہی حال ہے“۔