पवित्र कुरअानको अर्थको अनुवाद - उर्दू अनुवादः मुहम्मद जौनाकरी ।

احزاب

external-link copy
1 : 33

یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَلَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ ؕ— اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا ۟ۙ

اے نبی! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا(1) اور کافروں اور منافقوں کی باتوں میں نہ آجانا، اللہ تعالیٰ بڑے علم واﻻ اور بڑی حکمت واﻻ ہے.(2) info

(1) آیت میں تقویٰ پر مداومت اور تبلیغ ودعوت سے استقامت کا حکم ہے۔ طلق بن حبیب کہتے ہیں، تقویٰ کا مطلب ہے کہ تو اللہ کی اطاعت اللہ کی دی ہوئی روشنی کے مطابق کرے اور اللہ سے ثواب کی امید رکھے اور اللہ کی معصیت اللہ کی دی ہوئی روشنی کے مطابق ترک کر دے، اللہ کےعذاب سے ڈرتے ہوئے۔ (ابن کثیر)
(2) پس وہی اس بات کا حق دار ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اس لئے کہ عواقب کو وہی جانتا ہے اور اپنے اقوال وافعال میں وہ حکیم ہے۔

التفاسير:

external-link copy
2 : 33

وَّاتَّبِعْ مَا یُوْحٰۤی اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ ؕ— اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا ۟ۙ

جو کچھ آپ کی جانب آپ کے رب کی طرف سے وحی کی جاتی ہے(1) اس کی تابعداری کریں (یقین مانو) کہ اللہ تمہارے ہر ایک عمل سے باخبر ہے.(2) info

(1) یعنی قرآن کی اور احادیث کی بھی، اس لئے کہ احادیث کے الفاظ گو نبی (صلى الله عليه وسلم) کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے ہیں لیکن ان کے معانی ومفاہیم من جانب اللہ ہی ہیں۔ اسی لئے ان کو وحی خفی یا وحی غیر متلو کہا جاتا ہے۔
(2) پس اس سے تمہاری کوئی بات مخفی نہیں رہ سکتی۔

التفاسير:

external-link copy
3 : 33

وَّتَوَكَّلْ عَلَی اللّٰهِ ؕ— وَكَفٰی بِاللّٰهِ وَكِیْلًا ۟

آپ اللہ ہی پر توکل رکھیں(1) ، وه کار سازی کے لئے کافی ہے.(2) info

- اپنے تمام معاملات اور احوال میں۔
(2) ان لوگوں کے لئے جو اس پر بھروسہ رکھتے، اور اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
4 : 33

مَا جَعَلَ اللّٰهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِهٖ ۚ— وَمَا جَعَلَ اَزْوَاجَكُمُ الّٰٓـِٔیْ تُظٰهِرُوْنَ مِنْهُنَّ اُمَّهٰتِكُمْ ۚ— وَمَا جَعَلَ اَدْعِیَآءَكُمْ اَبْنَآءَكُمْ ؕ— ذٰلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِاَفْوَاهِكُمْ ؕ— وَاللّٰهُ یَقُوْلُ الْحَقَّ وَهُوَ یَهْدِی السَّبِیْلَ ۟

کسی آدمی کے سینے میں اللہ تعالیٰ نے دو دل نہیں رکھے(1) ، اور اپنی جن بیویوں کو تم ماں کہہ بیٹھتے ہو انہیں اللہ نے تمہاری (سچ مچ کی) مائیں نہیں(2) بنایا، اور نہ تمہارے لے پالک لڑکوں کو (واقعی) تمہارے بیٹے بنایا ہے(3)، یہ تو تمہارے اپنے منھ کی باتیں ہیں(4)، اللہ تعالیٰ حق بات فرماتا ہے(5) اور وه (سیدھی) راه سجھاتا ہے. info

(1) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک منافق یہ دعویٰ کرتا تھا کہ اس کے دو دل ہیں۔ ایک دل مسلمانوں کے ساتھ ہے اور دوسرا دل کفر اور کافروں کے ساتھ ہے۔ (مسند احمد ا / 267) یہ آیت اس کی تردید میں نازل ہوئی۔ مطلب یہ ہے کہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ایک دل میں اللہ کی محبت اور اس کے دشمنوں کی اطاعت جمع ہو جائے۔ بعض کہتے ہیں کہ مشرکین مکہ میں سے ایک شخص جمیل بن معمر فہری تھا، جو بڑا ہشیار، مکار اور نہایت تیز طرار تھا، اس کا دعویٰ تھا کہ میرے تو دو دل ہیں جن سے میں سوچتا سمجھتا ہوں۔ جب کہ محمد (صلى الله عليه وسلم) کا ایک ہی دل ہے۔ یہ آیت اس کے رد میں نازل ہوئی۔ (ایسر التفاسیر) بعض مفسرین کہتے ہیں کہ آگے جو دو مسئلے بیان کیے جا رہے ہیں، یہ ان کی تمہید ہے یعنی جس طرح ایک شخص کے دو دل نہیں ہو سکتے، اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے ظہار کر لے یعنی یہ کہہ دے کہ تیری پشت میرے لئے ایسے ہی ہے جیسے میری ماں کی پشت۔ تو اس طرح کہنے سے اس کی بیوی، اس کی ماں نہیں بن جائے گی۔ یوں اس کی دو مائیں نہیں ہو سکتیں۔ اسی طرح کوئی شخص کسی کو اپنا بیٹا (لے پالک) بنالے تو وہ اس کا حقیقی بیٹا نہیں بن جائے گا، بلکہ وہ بیٹا تو اپنے باپ ہی کا رہے گا، اس کے دو باپ نہیں ہو سکتے۔ (ابن کثیر)۔
(2) یہ مسئلۂ ظہار کہلاتا ہے، اس کی تفصیل سورۂ مجادلہ میں آئے گی۔
(3) اس کی تفصیل اسی سورت میں آگے چل کر آئے گی۔ أَدْعِياءُ، دَعِيٌّ کی جمع ہے۔ منہ بولا بیٹا۔
(4) یعنی کسی کو ماں کہہ دینے سے وہ ماں نہیں بن جائے گی، نہ بیٹا کہنے سے وہ بیٹا بن جائے گا، یعنی ان پر امومت اور بنوت کے شرعی احکام جاری نہیں ہوں گے۔
(5) اس لئے اس کا اتباع کرو اور ظہار والی عورت کو ماں اور لے پالک کو بیٹا مت کہو، خیال رہے کہہ کسی کو پیار اور محبت میں بیٹا کہنا اور بات ہے اور لے پالک کو حقیقی بیٹا تصور کرکے بیٹا کہنا اور بات ہے۔ پہلی بات جائز ہے، یہاں مقصود دوسری بات کی ممانعت ہے۔

التفاسير:

external-link copy
5 : 33

اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىِٕهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ ۚ— فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْۤا اٰبَآءَهُمْ فَاِخْوَانُكُمْ فِی الدِّیْنِ وَمَوَالِیْكُمْ ؕ— وَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ فِیْمَاۤ اَخْطَاْتُمْ بِهٖ وَلٰكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُكُمْ ؕ— وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ۟

لے پالکوں کو ان کے (حقیقی) باپوں کی طرف نسبت کر کے بلاؤ اللہ کے نزدیک پورا انصاف یہی(1) ہے۔ پھر اگر تمہیں ان کے (حقیقی) باپوں کا علم ہی نہ ہو تو وه تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں(2)، تم سے بھول چوک میں جو کچھ ہو جائے اس میں تم پر کوئی گناه نہیں(3)، البتہ گناه وه ہے جس کا تم اراده دل سے کرو(4)۔ اللہ تعالیٰ بڑا ہی بخشنے واﻻ مہربان ہے. info

(1) اس حکم سے اس رواج کی ممانعت کر دی گئی جو زمانۂ جاہلیت سے چلا آرہا تھا اور ابتدائے اسلام میں بھی رائج تھا کہ لے پالک بیٹوں کو حقیقی بیٹا سمجھا جاتا تھا۔ صحابہ کرام (رضي الله عنهم) بیان فرماتے ہیں کہ ہم زید بن حارثہ ! کو (جنہیں رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) ) نے آزاد کرکے بیٹا بنا لیا تھا) زید بن محمد ( (صلى الله عليه وسلم) ) کہہ کر پکارﺗے تھے، حتیٰ کہ قرآن کریم کی آیت ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ نازل ہوگئی۔ (صحیح بخاری، تفسیر سورۃ الاحزاب) اس آیت کے نزول کے بعد حضرت ابو حذیفہ ! کے گھر میں بھی ایک مسئلہ پیدا ہو گیا، جنہوں نے سالم کو بیٹا بنایا ہوا تھا جب منہ بولے بیٹوں کو حقیقی بیٹا سمجھنے سے روک دیا گیا تو اس سے پردہ کرنا ضروری ہوگیا نبی (صلى الله عليه وسلم) نے حضرت ابو حذیفہ ! کی بیوی کو کہا کہ اسےدودھ پلا کر اپنا رضاعی بیٹا بنالو کیونکہ اس طرح تم اس پر حرام ہو جاؤ گی۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ (صحيح مسلم، كتاب الرضاع، باب رضاعة الكبير ، أبو داود، كتاب النكاح، باب فيمن حرم به)۔
(2) یعنی جن کے حقیقی باپوں کا علم ہے، اب دوسری نسبت ختم کرکے انہیں کی طرف انہیں منسوب کرو، البتہ جن کے باپوں کا علم نہ ہو سکے تو تم انہیں اپنا بھائی اور دوست سمجھو، بیٹا مت سمجھو۔
(3) اس لئے کہ خطا ونسیان معاف ہے، جیسا کہ حدیث میں بھی صراحت ہے۔
(4) یعنی جو جان بوجھ کر غلط انتساب کرے گا، وہ سخت گناہ گار ہوگا۔ حدیث میں آتاہے۔ جس نے جانتے بوجھتے اپنے کو غیر باپ کی طرف منسوب کیا۔ اس نے کفر کا ارتکاب کیا۔ (صحيح بخاري، كتاب المناقب ، باب ، نسبة اليمن إلى إسماعيل عليه السلام)

التفاسير:

external-link copy
6 : 33

اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَاَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْ ؕ— وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُهٰجِرِیْنَ اِلَّاۤ اَنْ تَفْعَلُوْۤا اِلٰۤی اَوْلِیٰٓىِٕكُمْ مَّعْرُوْفًا ؕ— كَانَ ذٰلِكَ فِی الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا ۟

پیغمبر مومنوں پر خود ان سے بھی زیاده حق رکھنے والے(1) ہیں اور پیغمبر کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں(2)، اور رشتے دار کتاب اللہ کی رو سے بہ نسبت دوسرے مومنوں اور مہاجروں کے آپس میں زیاده حق دار ہیں(3) (ہاں) مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہو(4)۔ یہ حکم کتاب (الٰہی) میں لکھا ہوا ہے.(5) info

(1) نبی (صلى الله عليه وسلم) اپنی امت کے لئے جتنے شفیق اور خیر خواہ تھے، محتاج وضاحت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلى الله عليه وسلم) کی اس شفقت اور خیر خواہی کو دیکھتے ہوئے اس آیت میں آپ (صلى الله عليه وسلم) کو مومنوں کے اپنے نفسوں سے بھی زیادہ حق دار، آپ (صلى الله عليه وسلم) کی محبت کو دیگر تمام محبتوں سے فائق تر اور آپ (صلى الله عليه وسلم) کے حکم کو اپنی تمام خواہشات سے اہم تر قرار دیا ہے۔ اس لئے مومنوں کے لئے ضروری ہے کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) ان کے جن مالوں کا مطالبہ۔ اللہ کے لئے کریں، وہ آپ (صلى الله عليه وسلم) پر نچھاور کر دیں چاہے انہیں خود کتنی ہی ضرورت ہو، آپ (صلى الله عليه وسلم) سے اپنے نفسوں سے بھی زیادہ محبت کریں۔ (جیسے حضرت عمر ! کا واقعہ ہے) آپ (صلى الله عليه وسلم) کے حکم کو سب پر مقدم اور آپ (صلى الله عليه وسلم) کی اطاعت کو سب سے اہم سمجھیں۔ جب تک یہ خود سپردگی نہیں ہوگی «فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ» (النساء: 65) کے مطابق آدمی مومن نہیں ہوگا۔ اسی طرح جب تک آپ کی محبت تمام محبتوں پر غالب نہیں ہوگی «لا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِه».. کی رو سے مومن نہیں، ٹھیک اسی طرح اطاعت رسول (صلى الله عليه وسلم) میں کوتاہی بھی «لا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يَكُونَ هَوَاهُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِهِ ..» کا مصداق بنا دے گی۔
(2) یعنی احترام وتکریم میں اور ان سے نکاح نہ کرنے میں۔ مومن مردوں اور مومن عورتوں کی مائیں بھی ہیں۔
(3) یعنی اب مہاجرت، اخوت اور موالات کی وجہ سے وراثت نہیں ہوگی۔ اب وراثت صرف قریبی رشتہ کی بنیاد پر ہوگی۔
(4) ہاں تم غیر رشتے داروں کے لئے احسان اور بر وصلہ کا معاملہ کر سکتے ہو، نیز ان کے لئے ایک تہائی مال میں سے وصیت بھی کر سکتے ہو۔
(5) یعنی لوح محفوظ میں اصل حکم یہی ہے، گو عارضی طور پر مصلحتاً دوسروں کو بھی وارث قرار دے دیا گیا تھا، لیکن اللہ کے علم میں تھا کہ یہ منسوخ کر دیا جائے گا۔ چنانچہ اسے منسوخ کرکے پہلا حکم بحال کر دیا گیا ہے۔

التفاسير: