पवित्र कुरअानको अर्थको अनुवाद - उर्दू अनुवादः मुहम्मद जौनाकरी ।

رقم الصفحة:close

external-link copy
52 : 19

وَنَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَقَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا ۟

ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے ندا کی اور راز گوئی کرتے ہوئے اسے قریب کر لیا. info
التفاسير:

external-link copy
53 : 19

وَوَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا ۟

اور اپنی خاص مہربانی سے اس کے بھائی کو نبی بنا کر عطا فرمایا. info
التفاسير:

external-link copy
54 : 19

وَاذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ ؗ— اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا ۟ۚ

اس کتاب میں اسماعیل (علیہ السلام) کا واقعہ بھی بیان کر، وه بڑا ہی وعدے کا سچا تھا اور تھا بھی رسول اور نبی. info
التفاسير:

external-link copy
55 : 19

وَكَانَ یَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَالزَّكٰوةِ ۪— وَكَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِیًّا ۟

وه اپنے گھر والوں کو برابر نماز اور زکوٰة کاحکم دیتا تھا، اور تھا بھی اپنے پروردگار کی بارگاه میں پسندیده اور مقبول. info
التفاسير:

external-link copy
56 : 19

وَاذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ ؗ— اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا ۟ۗۙ

اور اس کتاب میں ادریس (علیہ السلام) کا بھی ذکر کر، وه بھی نیک کردار پیغمبر تھا. info
التفاسير:

external-link copy
57 : 19

وَّرَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا ۟

ہم نےاسے بلند مقام پر اٹھا لیا.(1) info

(1) حضرت ادریس علیہ السلام، کہتے ہیں کہ حضرت آدم (عليه السلام) کے بعد پہلے نبی تھے اور حضرت نوح (عليه السلام) کے یا ان کے والد کے دادا تھے، انہوں نے ہی سب سے پہلے کپڑے سیئے، رفعت مکان سے مرادہے؟ بعض مفسرین نے اس کا مفہوم رُفِعَ إِلَى السَّمَاءِ سمجھا ہے کہ حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کی طرح انہیں بھی آسمان پر اٹھا لیا گیا لیکن قرآن کے الفاظ اس مفہوم کے لئے صاف نہیں ہیں اور کسی صحیح حدیث میں بھی یہ بیان نہیں ہوا۔ البتہ اسرائیلی روایات میں ان کے آسمان پر اٹھائے جانے کا ذکر ملتا ہے جو اس مفہوم کے اثبات کے لئے کافی نہیں۔ اس لئے زیادہ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اس سے مراد مرتبے کی وہ بلندی ہے جو نبوت سے سرفراز کر کے انہیں عطا کی گئی۔ وَاللهُ أَعْلَمُ

التفاسير:

external-link copy
58 : 19

اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ مِنْ ذُرِّیَّةِ اٰدَمَ ۗ— وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ ؗ— وَّمِنْ ذُرِّیَّةِ اِبْرٰهِیْمَ وَاِسْرَآءِیْلَ ؗ— وَمِمَّنْ هَدَیْنَا وَاجْتَبَیْنَا ؕ— اِذَا تُتْلٰی عَلَیْهِمْ اٰیٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّبُكِیًّا ۟

یہی وه انبیا ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے فضل وکرم کیا جو اوﻻد آدم میں سے ہیں اور ان لوگوں کی نسل سے ہیں جنہیں ہم نے نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں چڑھا لیا تھا، اور اوﻻد ابراہیم ویعقوب سے اور ہماری طرف سے راه یافتہ اور ہمارے پسندیده لوگوں میں سے۔ ان کے سامنے جب اللہ رحمان کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی تھی یہ سجده کرتے اور روتے گڑگڑاتے گر پڑتے تھے.(1) info

(1) گویا اللہ کی آیات کو سن کر وجد کی کیفیت کا طاری ہو جانا اور عظمت الٰہی کے آگے سجدہ ریز ہو جانا، بندگان الٰہی کی خاص علامت ہے۔ سجدہ تلاوت کی مسنوں دعا یہ ہے ”سَجَدَ وَجْهِيَ لِلَّذِي خَلَقَهُ، وَصَوَّرَهُ، وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ، بِحَوْلِهِ وَقُوَّتِهِ“ (ابو داؤد، ترمذی، نسائی۔ بحالہ مشکوۃ، باب سجود القرآن) بعض روایات میں اضافہ ہے۔ فَتَبَارَكَ اللهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ ( عون المعبود, ج 1، ص533)

التفاسير:

external-link copy
59 : 19

فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا ۟ۙ

پھر ان کے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے کہ انہوں نے نماز ضائع کردی اور نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑ گئے، سو ان کا نقصان ان کے آگے آئے گا.(1) info

(1) انعام یافتہ بندگان الٰہی کا تذکرہ کرنے کے بعد ان لوگوں کا ذکر کیا جا رہا ہے، جو ان کے برعکس اللہ کے احکام سے غفلت واعراض کرنے والے ہیں۔ نماز ضائع کرنے سے مراد یا تو بالکل نماز کا ترک ہے جو کفر ہے یا ان کے اوقات کو ضائع کرنا ہے یعنی وقت پر نماز نہ پڑھنا، جب جی چاہا، نماز پڑھ لی، یا بلا عذر اکٹھی کر کے پڑھنا کبھی دو، کبھی چار، کبھی ایک اور کبھی پانچوں نمازیں۔ یہ بھی تمام صورتیں نماز ضائع کرنے کی ہیں جس کا مرتکب سخت گناہ گار اور آیت میں بیان کردہ وعید کا سزاوار ہو سکتا ہے۔ غَيًّا کے معنی ہلاکت، انجام بد کے ہیں یا جہنم کی ایک وادی کا نام ہے۔

التفاسير:

external-link copy
60 : 19

اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاُولٰٓىِٕكَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ وَلَا یُظْلَمُوْنَ شَیْـًٔا ۟ۙ

بجز ان کے جو توبہ کر لیں اور ایمان ﻻئیں اور نیک عمل کریں۔ ایسے لوگ جنت میں جائیں گے اور ان کی ذرا سی بھی حق تلفی نہ کی جائے گی.(1) info

(1) یعنی جو توبہ کر کے ترک صلٰوۃ اور جنسی خواہش کی پیروی سے باز آ جائیں اور ایمان وعمل صالح کے تقاضوں کا اہتمام کرلیں تو ایسے لوگ مذکورہ انجام بد سے محفوظ اور جنت کے مستحق ہوں گے۔

التفاسير:

external-link copy
61 : 19

جَنّٰتِ عَدْنِ ١لَّتِیْ وَعَدَ الرَّحْمٰنُ عِبَادَهٗ بِالْغَیْبِ ؕ— اِنَّهٗ كَانَ وَعْدُهٗ مَاْتِیًّا ۟

ہمیشگی والی جنتوں میں جن کا غائبانہ وعده(1) اللہ مہربان نے اپنے بندوں سے کیا ہے۔ بیشک اس کا وعده پورا ہونے واﻻ ہی ہے. info

(1) یعنی یہ ان کے ایمان ویقین کی پختگی ہے کہ انہوں نے جنت کو دیکھا بھی نہیں، صرف اللہ کے غائبانہ وعدے پر ہی اس کے حصول کے لئے ایمان وتقویٰ کا راستہ اختیار کیا۔

التفاسير:

external-link copy
62 : 19

لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْهَا لَغْوًا اِلَّا سَلٰمًا ؕ— وَلَهُمْ رِزْقُهُمْ فِیْهَا بُكْرَةً وَّعَشِیًّا ۟

وه لوگ وہاں کوئی لغو بات نہ سنیں گے صرف سلام ہی سلام سنیں(1) گے، ان کے لئے وہاں صبح شام ان کا رزق ہوگا.(2) info

(1) یعنی فرشتے بھی انہیں ہر طرف سے سلام کریں گے اور اہل جنت بھی آپس میں ایک دوسرے کو کثرت سے سلام کیا کریں گے۔
(2) امام احمد نے اس کی تفسیر میں کہا کہ جنت میں رات اور دن نہیں ہونگے، صرف اجالا ہی اجالا اور روشنی ہی روشنی ہوگی۔ حدیث میں ہے۔ جنت میں داخل ہونے والے پہلے گروہ کی شکلیں چودھویں رات کے چاند کی طرح ہوں گی، وہاں انہیں تھوک آئے گا نہ رینٹ اور بول وبزاز۔ ان کے برتن اور کنگھیاں سونے کی ہونگی، ان کا بخور، خوشبودار (لکڑی) ہوگی۔ ان کا پسینہ کستوری (کی طرح) ہوگا۔ ہر جنتی کی دو بیویاں ہوں گی، ان کی پنڈلیوں کا گودا ان کے گوشت کے پیچھے نظر آئے گا، ان کے حسن جمال کی وجہ سے۔ ان میں باہم بغض اور اختلاف نہیں ہوگا، ان کے دل، ایک دل کی طرح ہوں گے، صبح شام اللہ کی تسبیح کریں گے (صحيح بخاري- بدء الخلق، باب ما جاء في صفة الجنة وإنها مخلوقة ومسلم، كتاب الجنة، باب في صفات الجنة وأهلها)۔

التفاسير:

external-link copy
63 : 19

تِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِیْ نُوْرِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَنْ كَانَ تَقِیًّا ۟

یہ ہے وه جنت جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے انہیں بناتے ہیں جو متقی ہوں. info
التفاسير:

external-link copy
64 : 19

وَمَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ ۚ— لَهٗ مَا بَیْنَ اَیْدِیْنَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَیْنَ ذٰلِكَ ۚ— وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِیًّا ۟ۚ

ہم بغیر تیرے رب کے حکم کے اتر نہیں سکتے(1) ، ہمارے آگے پیچھے اور ان کے درمیان کی کل چیزیں اسی کی ملکیت میں ہیں، تیرا پروردگار بھولنے واﻻ نہیں. info

(1) نبی (صلى الله عليه وسلم) نے ایک مرتبہ جبرائیل (عليه السلام) سے زیادہ اور جلدی جلدی ملاقات کی خواہش ظاہر فرمائی جس پر یہ آیت اتری (صحیح بخاری)، تفسیر سورہ مریم)۔

التفاسير: