(1) سَبْحٌ کے معنی، تیرنا، فرشتے روح نکالنے کے لئے انسان کے بدن میں اس طرح تیرتے پھرتے ہیں جیسے غواص سمندر سےموتی نکالنے کے لئے سمندر کی گہرائیوں میں تیرتا ہے۔ یا مطلب ہے کہ نہایت تیزی سے اللہ کا حکم لے کر آسمان سے اترتے ہیں۔ کیونکہ تیز رو گھوڑے کو بھی سابح کہتے ہیں۔
(1) یعنی اللہ تعالیٰ جو کام ان کے سپرد کرتا ہے، وہ اس کی تدبیر کرتے ہیں اصل مدبر تو اللہ تعالیٰ ہی ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ اپنی حکمت بالغہ کے تحت فرشتوں کے ذریعے سے کام کرواتا ہے تو انہیں بھی مدبر کہہ دیا جاتا ہے۔ اعتبار سے پانچوں صفات فرشتوں کی ہیں اور ان فرشتوں کی اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے۔ جواب قسم محذوف ہے یعنی لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ (تم ضرور زندہ کیے جاؤ گے اور تمہیں تمہارے عملوں کی بابت خبر دی جائے گی)۔ قرآن نے اس بعث وجزاء کے لئے کئی مواقع پر قسم کھالی ہے جیسے سورۂ تغابں: 7 میں بھی اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر مذکورہ الفاظ میں اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے۔ یہ بعث وجزا کب ہوگی؟ اس کی وضاحت آگے فرمائی۔
(1) یہ دوسرا نفخہ ہوگا، جس سے سب لوگ زندہ ہو کر قبروں سے نکل آئیں گے۔ یہ دوسرا نفخہ پہلے نفخہ سےچالیس سال بعد ہوگا۔ اسے رَادِفَةٌ اس لئےکہا ہے کہ یہ پہلے نفخے کے بعد ہی ہوگا۔ یعنی نفخۂ ثانیہ، نفخۂ اولیٰ کا ردیف ہے۔
(1) سَاهِرَةٌ سےمراد زمین کی سطح یعنی میدان ہے۔ سطح زمین کو سَاهِرَةٌ اس لئےکہا گیا ہے کہ تمام جانداروں کا سونا اور بیدار ہونا، اسی زمین پر ہوتا ہے، بعض کہتے ہیں کہ چٹیل میدانوں اور صحراوں میں خوف کی وجہ سےانسان کی نیند اڑ جاتی ہےاور وہاں بیدار رہتاہے، اس لئے سَاهِرَةٌ کہا جاتا ہے۔ ( فتح القدیر ) بہرحال یہ قیامت کی منظر کشی ہے کہ ایک ہی نفخے سے سب لوگ ایک میدان میں جمع ہو جائیں گے۔
(1) یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت موسیٰ (عليه السلام) مدین سے واپس آگ کی تلاش میں کوہ طور پر پہنچ گئے تھے تو وہاں ایک درخت کی اوٹ سے اللہ تعالیٰ نےموسیٰ (عليه السلام) سے کلام فرمایا، جیسا کہ اس کی تفصیل سورۂ طہ کے آغاز میں گزری طُوَى اسی جگہ کا نام ہے، ہم کلامی کا مطلب نبوت ورسالت سےنوازنا ہے۔ یعنی موسیٰ (عليه السلام) آگ لینے گئے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں رسالت عطا فرما دی۔
(1) یعنی اس نے ایمان واطاعت سےاعراض ہی نہیں کیا بلکہ زمین میں فساد پھیلانے اور موسیٰ (عليه السلام) کا مقابلہ کرنے کی سعی کرتا رہا، چنانچہ جادوگروں کو جمع کرکے ان کا مقابلہ حضرت موسیٰ (عليه السلام) سےکرایا، تاکہ موسیٰ (عليه السلام) کو جھوٹا ثابت کیا جا سکے۔
(1) یعنی اللہ نے اس کی ایسی گرفت فرمائی کہ اسے دنیا میں آئندہ آنے والے متمردین کےلئے نشان عبرت بنا دیا اور قیامت کا عذاب اس کےعلاوہ ہے، جو اسے وہاں ملے گا۔
(1) یہ کفار مکہ کو خطاب ہے اور مقصود زجر وتوبیخ ہے کہ جو اللہ اتنے بڑے آسمانوں اور ان کے عجائبات کو پیدا کر سکتا ہے، اس کے لئے تمہارا دوبارہ پیدا کرنا کون سا مشکل ہے۔ کیا تمہیں دوبارہ پیدا کرنا آسمان کے بنانے سے زیادہ مشکل ہے؟
(1) یہ حم السجدۃ:9 میں گزر چکا ہے کہ خَلَقَ ( پیدائش ) اور چیز ہے اور دَحَى( ہموار کرنا ) اور چیز ہے۔ زمین کی تخلیق آسمان سے پہلی ہوئی لیکن اس کو ہموار آسمان کی پیدائش کے بعد کیا گیا ہےاور یہاں اسی حقیقت کا بیان ہے۔ اور ہموار کرنے یا پھیلانے کا مطلب ہے کہ زمین کو رہائش کےقابل بنانے کے لئے جن جن چیزوں کی ضرورت ہے اللہ نے ان کا اہتمام فرمایا، مثلاً زمین سے پانی نکالا، اس میں چارہ اور خوراک پیدا کی، پہاڑوں کو میخوں کی طرح مضبوط گاڑ دیا تاکہ زمین نہ ہلے۔ جیسا کہ یہاں بھی آگے یہی بیان ہے۔
(1) یعنی کافروں کے سامنے کر دی جائے گی تاکہ وہ دیکھ لیں کہ اب ان کا دائمی ٹھکانہ جہنم ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ مومن اور کافر دونوں ہی اسے دیکھیں گے، مومن اسےدیکھ کر اللہ کا شکر کریں گے کہ اس نے ایمان اور اعمال صالحہ کی بدولت انہیں اس سے بچا لیا، اور کافر، جو پہلے ہی خوف ودہشت میں مبتلا ہوں گے، اسے دیکھ کر ان کے غم وحسرت میں اور اضافہ ہو جائے گا۔
(1) کہ اگر میں نے گناہ اور اللہ کی نافرمانی کی تو مجھے اللہ سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا، اس لئے وہ گناہوں سے اجتناب کرتا رہا ہو۔
(2) یعنی نفس کو ان معاصی اور محارم کے ارتکاب سے روکتا رہا ہو جن کی طرف نفس کا میلان ہوتا تھا۔
(1) یعنی آپ کا کام صرف انذار ( ڈرانا ) ہے، نہ کہ غیب کی خبریں دینا، جن میں قیامت کا علم بھی ہے جو اللہ نے کسی کو بھی نہیں دیا۔ مَنْ يَخْشَاهَا اس لئے کہا کہ انذار وتبلیغ سے اصل فائدہ وہی اٹھاتے ہیں جن کے دلوں میں اللہ کا خوف ہوتا ہے، ورنہ انذار وتبلیغ کا حکم تو ہر ایک کے لئےہے۔
(1) عَشِيَّةً، ظہر سے لے کر غروب شمس تک اور ضحیٰ، طلوع شمس سے نصف النہار تک کے لئے بولا جاتا ہے۔ یعنی جب کافر جہنم کا عذاب دیکھیں گے تو دنیا کی عیش وعشرت اور اس کےمزے سب بھول جائیں گے اور انہیں ایسا محسوس ہوگا کہ وہ دنیا میں پورا ایک دن بھی نہیں رہے۔ دن کا پہلا حصہ یا دن کا آخری حصہ ہی صرف دنیا میں رہے ہیں یعنی دنیا کی زندگی، انہیں اتنی قلیل معلوم ہوگی۔