(1) اہل ایمان کو خطاب کرکے انہیں وعظ کیا جارہا ہے۔ اللہ سے ڈرنے کا مطلب ہے، اس نے جن چیزوں کے کرنے کا حکم دیا ہے، انہیں بجا لاؤ۔ جن سے روکا ہے، ان سے رک جاؤ، آیت میں یہ بطور تاکید دو مرتبہ فرمایا کیونکہ یہ تقویٰ (اللہ کا خوف) ہی انسان کو نیکی کرنے پر اور برائی سے اجتناب پر آمادہ کرتا ہے۔
(2) اسے کل سے تعبیر کرکے اس طرف بھی اشارہ فرما دیا کہ اس کا وقوع زیادہ دور نہیں، قریب ہی ہے۔
(3) چنانچہ وہ ہر ایک کو اس کے عمل کی جزا دے گا، نیک کو نیکی کی جزا اور بد کو بدی کی جزا۔
(1) یعنی اللہ نے بطور جزا انہیں ایسا کر دیا کہ وہ ایسے عملوں سے غافل ہوگئے جن میں ان کا فائدہ تھا اور جن کے ذریعے سے وہ اپنے نفسوں کو عذاب الٰہی سے بچا سکتے تھے۔ یوں انسان خدا فراموشی سے خود فراموشی تک پہنچ جاتا ہے۔ اس کی عقل، اس کی صحیح رہنمائی نہیں کرتی، آنکھیں اس کو حق کا راستہ نہیں دکھاتیں اور اس کے کان حق کے سننے سے بہرے ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً اس سے ایسے کام سرزد ہوتے ہیں جس میں اس کی اپنی تباہی وبربادی ہوتی ہے۔
(1) جنہوں نے اللہ کو بھول کر یہ بات بھی بھلائے رکھی کہ اس طرح وہ خود اپنے ہی نفسوں پر ظلم کر رہے ہیں اور ایک دن آئے گا کہ اس کے نتیجے میں ان کے یہ جسم، جن کے لیے دنیا میں وہ بڑے بڑے پاپڑ بیلتے تھے، جہنم کی آگ کا ایندھن بنیں گے۔ اور ان کے مقابلے میں دوسرے وہ لوگ تھے، جنہوں نے اللہ کو یاد رکھا، اس کے احکام کے مطابق زندگی گزاری۔ ایک وقت آئے گا کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس کی بہترین جزا عطا فرمائے گا اور اپنی جنت میں انہیں داخل فرمائے گا، جہاں ان کے آرام وراحت کے لیے ہر طرح کی نعمتیں اور سہولتیں ہوں گی۔ یہ دونوں فریق یعنی جنتی اور جہنمی برابر نہیں ہوں گے۔ بھلا یہ برابر ہو بھی کس طرح سکتے ہیں۔ ایک نے اپنے انجام کو یاد رکھا اور اس کے لیے تیاری کرتا رہا۔ دوسرا، اپنے انجام سے غافل رہا اس لیے اس کے لیے تیاری میں بھی مجرمانہ غفلت برتی۔
(2) جس طرح امتحان کی تیاری کرنے والا کامیاب اور دوسرا ناکام ہوتا ہے۔ اسی طرح اہل ایمان وتقویٰ جنت کے حصول میں کامیاب ہو جائیں گے، کیونکہ اس کے لیے وہ دنیا میں نیک عمل کرکے تیاری کرتے رہے گویا دنیا دارالعمل اور دارالامتحان ہے۔ جس نے اس حقیقت کو سمجھ لیا اور اس نے انجام سے بےخبر ہوکر زندگی نہیں گزاری، وہ کامیاب ہوگا اور جو دنیا کی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر اور انجام سے غافل ، فسق وفجور میں مبتلا رہا، وہ خاسر وناکام ہوگا۔ اللَّهُمَّ اجْعَلْنَا مِنَ الْفَائِزِينَ۔
(1) اور پہاڑ میں فہم وادراک کی وہ صلاحیت پیدا کر دیتے جو ہم نے انسان کے اندر رکھی ہے۔
(2) یعنی قرآن کریم میں ہم نے بلاغت وفصاحت ، قوت واستدلال اور وعظ تذکیر کے ایسے پہلو بیان کیے ہیں کہ انہیں سن کر پہاڑ بھی، باوجود اتنی سختی اور وسعت وبلندی کے ، خوف الٰہی سے ریزہ ریزہ ہو جاتا۔ یہ انسان کو سمجھایا اور ڈرایا جارہا ہے کہ تجھے عقل وفہم کی صلاحیتیں دی گئی ہیں۔ لیکن اگر قرآن سن کر تیرا دل کوئی اثر قبول نہیں کرتا تو تیرا انجام اچھا نہیں ہوگا۔
(3) تاکہ قرآن کے مواعظ سے وہ نصیحت حاصل کریں اور زواجر کو سن کر نافرمانیوں سے اجتناب کریں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس آیت میں نبی (صلى الله عليه وسلم) سے خطاب ہے کہ ہم نے آپ (صلى الله عليه وسلم) پر یہ قرآن مجید نازل کیا جو ایسی عظمت شان کا حامل ہے کہ اگر ہم اسے کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو وہ ریزہ ریزہ ہو جاتا، لیکن یہ آپ (صلى الله عليه وسلم) پر ہمارا احسان ہے کہ ہم نے آپ (صلى الله عليه وسلم) کو اتنا قوی اور مضبوط کر دیا کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے اس چیز کو برداشت کر لیا جس کو برداشت کرنے کی طاقت پہاڑوں میں بھی نہیں ہے۔ (فتح القدیر) اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی صفات بیان فرما رہا ہے جس سے مقصود توحید کا اثبات اور شرک کی تردید ہے۔
(1) غیب، مخلوقات کے اعتبار سے ہے، ورنہ اللہ کے لیے تو کوئی چیز غیب نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ کائنات کی ہر چیز کو جانتا ہے چاہے وہ ہمارے سامنے ہو یا ہم سے غائب ہو حتیٰ کہ وہ تاریکیوں میں چلنے والی چیونٹی کو بھی جانتا ہے۔
(1) کہتے ہیں کہ خلق کا مطلب ہے اپنے ارادہ ومشیت کے مطابق اندازہ کرنا اور برأ کے معنی ہیں اسے پیدا کرنا، گھڑنا، وجود میں لانا۔
(2) اسمائے حسنیٰ کی بحث سورۂ اعراف: 180 میں گزر چکی ہے۔
(3) زبان حال سے بھی اور زبان مقال سے بھی، جیسا کہ پہلے بیان ہوا۔
(4) جس چیز کا بھی فیصلہ کرتا ہے، وہ حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔