(1) یعنی اگر اللہ مجھے ہدایت دے دیتا تو میں شرک اور معاصی سے بچ جاتا۔ یہ اس طرح ہی ہے جیسے دوسرے مقام پرمشرکین کا قول نقل کیا گیا ہے، لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكْنَا (الأنعام: 148) ”اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے“ ان کا یہ قول كَلِمَةُ حَقٍّ أُرِيدَ بِهَا الْبَاطِلُ . . . کامصداق ہے۔ (فتح القدیر)۔
(1) جس کی وجہ عذاب کی ہولناکیاں اور اللہ کے غضب کا مشاہدہ ہو گا۔
(2) حدیث میں ہے ”الْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ“ (حق کا انکار اور لوگوں کو حقیر سمجھنا، کبر ہے) یہ استفہام تقریری ہے۔ یعنی اللہ کی اطاعت سےتکبر کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
(1) مَفَازَةٌ، مصدر میمی ہے۔ یعنی فَوْزٌ (کامیابی) شر سے بچ جانا اور خیر اور سعادت سےہم کنار ہوجانا، مطلب ہے، اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کو اس فوز وسعادت کی وجہ سے نجات عطا فرما دےگا، جو اللہ کے ہاں ان کے لیے پہلے سے ثبت ہے۔
(2) وہ دنیا میں جوکچھ چھوڑ آئے ہیں، اس پر انہیں کوئی غم نہیں ہوگا،وہ چونکہ قیامت کی ہولناکیوں سے محفوظ ہوں گے، اس لیے انہیں کسی بات کا غم نہ ہو گا۔
(1) یعنی ہر چیز کا خالق بھی وہی ہے اورمالک بھی وہی،وہ جس طرح چاہے، تصرف اور تدبیر کرے۔ ہر چیز اس کے ماتحت اور زیر تصرف ہے۔ کسی کو سرتابی یا انکار کی مجال نہیں۔ وکیل، بمعنی محافظ اور مدبر۔ ہر چیز اس کے سپرد ہے اوروہ بغیرکسی کی مشارکت کے ان کی حفاطت اور تدبیرکر رہاہے۔
(1) مَقَالِيدُ، مِقْلِيدٌ اور مِقْلادٌ کی جمع ہے (فتح القدیر) بعض نے اس کا ترجمہ ”چابیاں“ اور بعض نے ”خزانے“ کیا ہے، مطلب دونوں صورتوں میں ایک ہی ہے۔ تمام معاملات کی باگ دور اسی کے ہاتھ میں ہے۔
(2) یعنی کامل خسارہ۔ کیونکہ اس کفر کے نتیجے میں وہ جہنم میں چلے گئے۔
(1) یہ کفار کی اس دعوت کے جواب میں ہے جو پیغمبراسلام حضرت محمد ﹲ کو دیاکرتے تھے کہ اپنے آبائی دین کو اختیار کرلیں، جس میں بتوں کی عبادت تھی۔
(1) (اگر تو نے شرک کیا) کا مطلب ہے، اگر موت شرک پر آئی اوراس سےتوبہ نہ کی۔ خطاب اگرچہ نبی (صلى الله عليه وسلم) سے ہےجو شرک سےپاک بھی تھے اور آئندہ کے لیے محفوظ بھی۔ کیونکہ پیغمبر اللہ کی حفاظت و عصمت میں ہوتا ہے، ان سے ارتکاب شرک کا کوئی امکان نہیں تھا، لیکن یہ دراصل امت کےلیے تعریض اور اس کو سمجھانا مقصود ہے۔
(1) کیونکہ اس کی بات بھی نہیں مانی ، جو اس نے پیغمبروں کے ذریعے ان تک پہنچائی تھی اور عبادت بھی اس کے لیے خالص نہیں کی بلکہ دوسروں کو بھی اس میں شریک کرلیا۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک یہودی عالم نبی ﹲ کی خدمت میں آیا اور کہا کہ ہم اللہ کی بابت (کتابوں میں) یہ بات پاتے ہیں کہ وہ (قیامت والے دن) آسمانوں کو ایک انگلی پر،زمینوں کو ایک انگلی پر، درختوں کو ایک انگلی پر، پانی اور ثری (تری) کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اور فرمائے گا، میں بادشاہ ہوں)۔ آپ ﹲ نے مسکرا کراس کی تصدیق فرمائی اور آیت وَمَا قَدَرُوا اللهَ کی تلاوت فرمائی۔ (صحیح بخاری تفسیر سورۂ زمر) محدثین اور سلف کا عقیدہ ہے کہ اللہ کی جن صفات کا ذکرقرآن او احادیث صحیحہ میں ہے، (جس طرح اس آیت میں ہاتھ اور حدیث میں انگلیوں کا اثبات ہے) ان پر بلاکیف و تشبیہ اور بغیر تاویل و تحریف کے ایمان رکھنا ضروری ہے۔ اس لیے یہاں بیان کردہ حقیقت کو مجرد غلبہ وقوت کے مفہوم میں لینا صحیح نہیں ہے۔
(2) اس کی بابت بھی حدیث میں آتا ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ أَنَا الْمَلِكُ أَيْنَ مُلُوكُ الأَرْض ِ (میں بادشاہ ہوں۔ زمین کے بادشاہ (آج) کہاں ہیں؟ (حوالۂ مذکورہ)۔