വിശുദ്ധ ഖുർആൻ പരിഭാഷ - ഉർദു വിവർത്തനം - മുഹമ്മദ് ജുനാകരി

പേജ് നമ്പർ:close

external-link copy
57 : 39

اَوْ تَقُوْلَ لَوْ اَنَّ اللّٰهَ هَدٰىنِیْ لَكُنْتُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ ۟ۙ

یا کہے کہ اگر اللہ مجھے ہدایت کرتا تو میں بھی پارسا لوگوں میں ہوتا.(1) info

(1) یعنی اگر اللہ مجھے ہدایت دے دیتا تو میں شرک اور معاصی سے بچ جاتا۔ یہ اس طرح ہی ہے جیسے دوسرے مقام پرمشرکین کا قول نقل کیا گیا ہے، لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكْنَا (الأنعام: 148) ”اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے“ ان کا یہ قول كَلِمَةُ حَقٍّ أُرِيدَ بِهَا الْبَاطِلُ . . . کامصداق ہے۔ (فتح القدیر)۔

التفاسير:

external-link copy
58 : 39

اَوْ تَقُوْلَ حِیْنَ تَرَی الْعَذَابَ لَوْ اَنَّ لِیْ كَرَّةً فَاَكُوْنَ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ ۟

یا عذاب کو دیکھ کر کہے کاش! کہ کسی طرح میرا لوٹ جانا ہوجاتا تو میں بھی نیکو کاروں میں ہوجاتا. info
التفاسير:

external-link copy
59 : 39

بَلٰی قَدْ جَآءَتْكَ اٰیٰتِیْ فَكَذَّبْتَ بِهَا وَاسْتَكْبَرْتَ وَكُنْتَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ ۟

ہاں (ہاں) بیشک تیرے پاس میری آیتیں پہنچ چکی تھیں جنہیں تونے جھٹلایا اور غرور وتکبر کیا اور تو تھا ہی کافروں میں.(1) info

(1) یہ اللہ تعالیٰ ان کی خواہش کے جواب میں فرمائے گا۔

التفاسير:

external-link copy
60 : 39

وَیَوْمَ الْقِیٰمَةِ تَرَی الَّذِیْنَ كَذَبُوْا عَلَی اللّٰهِ وُجُوْهُهُمْ مُّسْوَدَّةٌ ؕ— اَلَیْسَ فِیْ جَهَنَّمَ مَثْوًی لِّلْمُتَكَبِّرِیْنَ ۟

اور جن لوگوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے تو آپ دیکھیں گے کہ قیامت کے دن ان کے چہرے سیاه ہوگئے ہوں گے(1) کیا تکبر کرنے والوں کاٹھکانا جہنم میں نہیں؟(2) info

(1) جس کی وجہ عذاب کی ہولناکیاں اور اللہ کے غضب کا مشاہدہ ہو گا۔
(2) حدیث میں ہے ”الْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ“ (حق کا انکار اور لوگوں کو حقیر سمجھنا، کبر ہے) یہ استفہام تقریری ہے۔ یعنی اللہ کی اطاعت سےتکبر کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

التفاسير:

external-link copy
61 : 39

وَیُنَجِّی اللّٰهُ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا بِمَفَازَتِهِمْ ؗ— لَا یَمَسُّهُمُ السُّوْٓءُ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ ۟

اور جن لوگوں نے پرہیزگاری کی انہیں اللہ تعالیٰ ان کی کامیابی کے ساتھ بچا لے(1) گا، انہیں کوئی دکھ چھو بھی نہ سکے گا اور نہ وه کسی طرح غمگین ہوں گے.(2) info

(1) مَفَازَةٌ، مصدر میمی ہے۔ یعنی فَوْزٌ (کامیابی) شر سے بچ جانا اور خیر اور سعادت سےہم کنار ہوجانا، مطلب ہے، اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کو اس فوز وسعادت کی وجہ سے نجات عطا فرما دےگا، جو اللہ کے ہاں ان کے لیے پہلے سے ثبت ہے۔
(2) وہ دنیا میں جوکچھ چھوڑ آئے ہیں، اس پر انہیں کوئی غم نہیں ہوگا،وہ چونکہ قیامت کی ہولناکیوں سے محفوظ ہوں گے، اس لیے انہیں کسی بات کا غم نہ ہو گا۔

التفاسير:

external-link copy
62 : 39

اَللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَیْءٍ ؗ— وَّهُوَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ وَّكِیْلٌ ۟

اللہ ہر چیز کا پیدا کرنے واﻻ ہے اور وہی ہر چیز پر نگہبان ہے.(1) info

(1) یعنی ہر چیز کا خالق بھی وہی ہے اورمالک بھی وہی،وہ جس طرح چاہے، تصرف اور تدبیر کرے۔ ہر چیز اس کے ماتحت اور زیر تصرف ہے۔ کسی کو سرتابی یا انکار کی مجال نہیں۔ وکیل، بمعنی محافظ اور مدبر۔ ہر چیز اس کے سپرد ہے اوروہ بغیرکسی کی مشارکت کے ان کی حفاطت اور تدبیرکر رہاہے۔

التفاسير:

external-link copy
63 : 39

لَهٗ مَقَالِیْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ؕ— وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ ۟۠

آسمانوں اور زمین کی کنجیوں کامالک وہی ہے(1) جن جن لوگوں نے اللہ کی آیتوں کا انکار کیا وہی خساره پانے والے ہیں.(2) info

(1) مَقَالِيدُ، مِقْلِيدٌ اور مِقْلادٌ کی جمع ہے (فتح القدیر) بعض نے اس کا ترجمہ ”چابیاں“ اور بعض نے ”خزانے“ کیا ہے، مطلب دونوں صورتوں میں ایک ہی ہے۔ تمام معاملات کی باگ دور اسی کے ہاتھ میں ہے۔
(2) یعنی کامل خسارہ۔ کیونکہ اس کفر کے نتیجے میں وہ جہنم میں چلے گئے۔

التفاسير:

external-link copy
64 : 39

قُلْ اَفَغَیْرَ اللّٰهِ تَاْمُرُوْٓنِّیْۤ اَعْبُدُ اَیُّهَا الْجٰهِلُوْنَ ۟

آپ کہہ دیجئے اے جاہلو! کیا تم مجھ سے اللہ کے سوا اوروں کی عبادت کو کہتے ہو.(1) info

(1) یہ کفار کی اس دعوت کے جواب میں ہے جو پیغمبراسلام حضرت محمد ﹲ کو دیاکرتے تھے کہ اپنے آبائی دین کو اختیار کرلیں، جس میں بتوں کی عبادت تھی۔

التفاسير:

external-link copy
65 : 39

وَلَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْكَ وَاِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ— لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ۟

یقیناً تیری طرف بھی اور تجھ سے پہلے (کے تمام نبیوں) کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر تو نے شرک کیا تو بلاشبہ تیرا عمل ضائع ہو جائے گا اور بالیقین تو زیاںکاروں میں سے ہوجائے گا.(1) info

(1) (اگر تو نے شرک کیا) کا مطلب ہے، اگر موت شرک پر آئی اوراس سےتوبہ نہ کی۔ خطاب اگرچہ نبی (صلى الله عليه وسلم) سے ہےجو شرک سےپاک بھی تھے اور آئندہ کے لیے محفوظ بھی۔ کیونکہ پیغمبر اللہ کی حفاظت و عصمت میں ہوتا ہے، ان سے ارتکاب شرک کا کوئی امکان نہیں تھا، لیکن یہ دراصل امت کےلیے تعریض اور اس کو سمجھانا مقصود ہے۔

التفاسير:

external-link copy
66 : 39

بَلِ اللّٰهَ فَاعْبُدْ وَكُنْ مِّنَ الشّٰكِرِیْنَ ۟

بلکہ تو اللہ ہی کی عبادت کر(1) اور شکر کرنے والوں میں سے ہو جا. info

(1) إِيَّاكَ نَعْبُد ُ کی طرح یہاں بھی مفعول (اللہ) کومقدم کرکے حصر کامﻔہوم پیداکر دیا گیا کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو !

التفاسير:

external-link copy
67 : 39

وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ ۖۗ— وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیّٰتٌ بِیَمِیْنِهٖ ؕ— سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِكُوْنَ ۟

اور ان لوگوں نے جیسی قدر اللہ تعالیٰ کی کرنی چاہئے تھی نہیں کی(1) ، ساری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے(2)، وه پاک اور برتر ہے ہر اس چیز سے جسے لوگ اس کا شریک بنائیں. info

(1) کیونکہ اس کی بات بھی نہیں مانی ، جو اس نے پیغمبروں کے ذریعے ان تک پہنچائی تھی اور عبادت بھی اس کے لیے خالص نہیں کی بلکہ دوسروں کو بھی اس میں شریک کرلیا۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک یہودی عالم نبی ﹲ کی خدمت میں آیا اور کہا کہ ہم اللہ کی بابت (کتابوں میں) یہ بات پاتے ہیں کہ وہ (قیامت والے دن) آسمانوں کو ایک انگلی پر،زمینوں کو ایک انگلی پر، درختوں کو ایک انگلی پر، پانی اور ثری (تری) کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اور فرمائے گا، میں بادشاہ ہوں)۔ آپ ﹲ نے مسکرا کراس کی تصدیق فرمائی اور آیت وَمَا قَدَرُوا اللهَ کی تلاوت فرمائی۔ (صحیح بخاری تفسیر سورۂ زمر) محدثین اور سلف کا عقیدہ ہے کہ اللہ کی جن صفات کا ذکرقرآن او احادیث صحیحہ میں ہے، (جس طرح اس آیت میں ہاتھ اور حدیث میں انگلیوں کا اثبات ہے) ان پر بلاکیف و تشبیہ اور بغیر تاویل و تحریف کے ایمان رکھنا ضروری ہے۔ اس لیے یہاں بیان کردہ حقیقت کو مجرد غلبہ وقوت کے مفہوم میں لینا صحیح نہیں ہے۔
(2) اس کی بابت بھی حدیث میں آتا ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ أَنَا الْمَلِكُ أَيْنَ مُلُوكُ الأَرْض ِ (میں بادشاہ ہوں۔ زمین کے بادشاہ (آج) کہاں ہیں؟ (حوالۂ مذکورہ)۔

التفاسير: