(1) بلکہ ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اور وہ یہ کہ میرے بندے میری عبادت کریں، جو ایسا کرے گا، میں اسےبہترین جزا سے نوازوں گا اور جو میری عبادت واطاعت سے سرتابی کرے گا، اس کے لئے جہنم کا عذاب ہے۔
(1) صَافِنَاتٌ، صَافِنٌ یا صَافِنَةٌ کی جمع ہے، وہ گھوڑے جو تین ٹانگوں پر کھڑے ہوں۔ جِيَادٌ جَوَادٌ کی جمع ہے جو تیز رو گھوڑے کو کہتے ہیں۔ یعنی حضرت سلیمان (عليه السلام) نے بغرض جہاد جو گھوڑے پالے ہوئے تھے، وہ عمدہ اصیل تیز رو گھوڑے حضرت سلیمان پر معاینے کے لئے پیش کیے گئے۔ عَشِيٌّ، ظہر یا عصر سے لےکر آخر دن تک کے وقت کو کہتے ہیں، جسے ہم شام سے تعبیر کرتے ہیں۔
(1) اس ترجمے کی رو سے أَحْبَبْتُ، بمعنی آثَرْتُ (ترجیح دینا) اور عَنْ بمعنی عَلَى ہے۔ اور تَوَارَتْ کا مرجع شَمْسٌ ہے جو آیت میں پہلے مذکور نہیں ہے، لیکن قرینہ اس پر دال ہے۔ اس تفسیر کی رو سے اگلی آیت میں۔ مَسْحًا بِالسُّوقِ وَالأَعْنَاقِ کا ترجمہ بھی ذبح کرنا ہوگا یعنی مَسْحًا بِالسَّيْف ِ کا مفہوم۔ مطلب ہوگا کہ گھوڑوں کے معاینہ میں حضرت سلیمان (عليه السلام) کی عصر کی نماز یا وظیفہ خاص رہ گیا جو اس وقت وہ کرتے تھے۔ جس پر انہیں سخت صدمہ ہوا اور کہنے لگے کہ میں گھوڑوں کی محبت میں اتنا وارفتہ اور گم ہو گیا کہ سورج پردۂ مغرب میں چھپ گیا اور اللہ کی یاد، نماز یا وظیفے سے غافل رہا۔ چنانچہ اس کی تلافی اور ازالے کے لئے انہوں نےسارےگھوڑے اللہ کی راہ میں قتل کر ڈالے۔ امام شوکانی اور ابن کثیر وغیرہ نے اس تفسیر کو ترجیح دی ہے۔ دیگر بعض مفسرین نے اس کی دوسری تفسیر کی ہے۔ اس کی رو سے عَنْ، أَجْلٌ کے معنی میں ہے أَيْ : لأَجْلِ ذِكْرِ رَبِّي، یعنی رب کی یاد کی وجہ سے میں ان گھوڑوں سے محبت رکھتا ہوں۔ یعنی اس کے ذریعے سے اللہ کی راہ میں جہاد ہوتا ہے۔ پھر ان گھوڑوں کو دوڑایا حتیٰ کہ وہ نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ انہیں دوبارہ طلب کیا اور پیار ومحبت سے ان کی پندلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا خَيْرٌ، قرآن میں مال کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یہاں یہ لفظ گھوڑو ں کے لئے آیا ہے۔ تَوَارَتْ کا مرجع گھوڑے ہیں۔ امام ابن جریر طبری نے اس دوسری تفسیر کو ترجیح دی ہے اور یہی تفسیر متعدد وجوہ سےصحیح لگتی ہے۔ واللهُ أَعْلَمُ۔
(1) یہ آزمائش کیا تھی، کرسی پر ڈالا گیا جسم کس چیز کا تھا؟ اور اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کی بھی کوئی تفصیل قرآن کریم یا حدیث میں نہیں ملتی۔ البتہ بعض مفسرین نے صحیح حدیث سے ثابت ایک واقعے کو اس پر چسپاں کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان (عليه السلام) نے ایک مرتبہ کہا کہ میں آج کی رات اپنی تمام بیویوں سے (جن کی تعداد 70 یا 90 تھی) ہمبستری کروں گا تاکہ ان سے شاہ سوار پیدا ہوں جو اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔ اور اس پر ان شاء اللہ نہیں کہا (یعنی صرف اپنی ہی تدبیر پر سارا اعتماد کیا) نتیجہ یہ ہوا کہ سوائے ایک بیوی کے کوئی بیوی حاملہ نہیں ہوئی۔ اور حاملہ بیوی نے بھی جو بچہ جنا، وہ ناقص یعنی آدھا تھا۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا اگر سلیمان (عليه السلام) ان شاء اللہ کہہ لیتے تو سب سے مجاہد پیدا ہوتے۔ (صحيح بخاري ، كتاب الأنبياء ، صحيح مسلم، كتاب الإيمان، باب الاستثناء) ان مفسرین کے خیال میں شاید ان شاء اللہ نہ کہنا یا صرف اپنی تدبیر پر اعتماد کرنا یہی فتنہ ہو، جس میں حضرت سلیمان (عليه السلام) مبتلا ہوئے اور کرسی پر ڈالا جانے والا جسم یہی ناقص الخلقت بچہ ہو۔ واللهُ أَعْلَمُ۔
(1) یعنی شاہ سواروں کی فوج پیدا ہونے کی آرزو، تیری حکمت ومشیت کے تحت پوری نہیں ہوئی، لیکن اگر مجھے ایسی بااختیار بادشاہت عطا کر دے کہ ویسی بادشاہت میرے سوا یا میرے بعد کسی کے پاس نہ ہو، تو پھر اولاد کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ یہ دعا بھی اللہ کے دین کے غلبے کے لئے ہی تھی۔
(1) یعنی ہم نے سلیمان (عليه السلام) کی یہ دعا قبول کر لی اور ایسی بادشاہی عطا کی جس میں ہوا بھی ان کے ماتحت تھی، یہاں ہوا کو نرمی سے چلنے والا بتایا ہے، جب کہ دوسرے مقام پر اسے تند وتیز کہا ہے، (الانبیاء: 81) جس کا مطلب یہ ہے کہ ہوا پیدائشی قوت کے لحاظ سے تند ہے۔ لیکن سلیمان (عليه السلام) کے لئے اسے نرم کر دیا گیا، حسب ضرورت وہ کبھی تند ہوتی کبھی نرم، جس طرح حضرت سلیمان (عليه السلام) چاہتے۔ (فتح القدیر)۔
(1) حضرت ایوب (عليه السلام) کی بیماری اور اس میں ان کا صبر مشہور ہے۔ جس کےمطابق اللہ تعالیٰ نے اہل ومال کی تباہی اور بیماری کے ذریعے سے ان کی آزمائش کی، جس میں وہ کئی سال مبتلا رہے۔ حتیٰ کہ صرف ایک بیوی ان کے ساتھ رہ گئی جو صبح وشام ان کی خدمت بھی کرتی اور ان کو کہیں کام کاﺝ کرکے بقدر کفاف رزق کا انتظام بھی کرتی۔ یہاں پر متعدد تفسیری روایات کا ذکر کیا جاتا ہے، مگر اس میں سے کتنا کچھ صحیح ہے اور کتنا نہیں، اسے معلوم کرنے کا کوئی مستند ذریعہ نہیں۔ نُصْبٍ سے جسمانی تکالیف اور عذاب سے مالی ابتلا مراد ہے۔ اس کی نسبت شیطان کی طرف اس لئے کی گئی ہے دراں حالیکہ سب کچھ کرنے والا صرف اللہ ہی ہے، کہ ممکن ہے شیطان کے وسوسے ہی کسی ایسے عمل کا سبب بنے ہوں جس پر یہ آزمائش آئی یا پھر بطور ادب کے ہے کہ خیر کو اللہ تعالیٰ کی طرف اور شر کو اپنی یا شیطان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔
(1) اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب (عليه السلام) کی دعا قبول فرمائی اور ان سے کہا کہ زمین پر پیر مارو، جس سے ایک چشمہ جاری ہوگیا۔ اس کے پانی پینے سے اندرونی بیماریاں اور غسل کرنے سے ظاہری بیماریاں دور ہوگئیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ دو چشمے تھے، ایک سے غسل فرمایا اور دوسرے سے پانی پیا۔ لیکن قرآن کے الفاظ سے پہلی بات کی تائید ہوتی ہے۔ یعنی ایک ہی چشمہ تھا۔