വിശുദ്ധ ഖുർആൻ പരിഭാഷ - ഉർദു വിവർത്തനം - മുഹമ്മദ് ജുനാകരി

പേജ് നമ്പർ:close

external-link copy
31 : 33

وَمَنْ یَّقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِهَاۤ اَجْرَهَا مَرَّتَیْنِ ۙ— وَاَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِیْمًا ۟

اور تم میں سے جو کوئی اللہ کی اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گی اور نیک کام کرے گی ہم اسے اجر (بھی) دوہرا دیں گے[1] اور اس کے لئے ہم نے بہترین روزی تیار کر رکھی ہے. info

[1] یعنی جس طرح گناہ کا وبال دگنا ہوگا، نیکیوں کا اجر بھی دوہرا ہوگا۔ جس طرح نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا إِذًا لأَذَقْنَاكَ ضِعْفَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ (بني إسرائيل۔75) (پھر تو ہم بھی آپ کو دوہرا عذاب دنیا کا کرتے اور دوہرا ہی موت کاﹿ۔

التفاسير:

external-link copy
32 : 33

یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا ۟ۚ

اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو[1] ، اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وه کوئی برا خیال کرے[2] اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو.[3] info

[1] یعنی تمہاری حیثیت اور مرتبہ عام عورتوں کا سا نہیں ہے۔ بلکہ اللہ نے تمہیں رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کی زوجیت کا جو شرف عطا فرمایا ہے، اس کی وجہ سے تمہیں ایک امتیازی مقام حاصل ہے اور رسول (صلى الله عليه وسلم) کی طرح تمہیں بھی امت کے لئے ایک نمونہ بننا ہے چنانچہ انہیں ان کے مقام و مرتبے سے آگاہ کرکے انہیں کچھ ہدایات دی جا رہی ہیں۔ اس کی مخاطب اگرچہ ازواج مطہرات ہیں جنہیں امہات المومنین قرار دیا گیا ہے، لیکن انداز بیان سے صاف ظاہر ہے کہ مقصد پوری امت مسلمہ کی عورتوں کو سمجھانا اور متنبہ کرنا ہے۔ اس لئے یہ ہدایات تمام مسلمان عورتوں کے لئے ہیں۔
[2] اللہ تعالیٰ نے جس طرح عورت کے وجود کے اندر مرد کے لئے جنسی کشش رکھی ہے (جس کی حفاظت کے لئے بھی خصوصی ہدایات دی گئی ہیں تاکہ عورت مرد کے لئے فتنے کا باعث نہ بنے) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے عورتوں کی آواز میں بھی فطری طور پر دلکشی، نرمی اور نزاکت رکھی ہے جو مرد کو اپنی طرف کھیچنتی ہے۔ بنابریں اس آواز کے لئے بھی یہ ہدایت دی گئی کہ مردوں سے گفتگو کرتے وقت قصداً ایسا لب و لہجہ اختیار کرو کہ نرمی اور لطافت کی جگہ قدرے سختی اور روکھا پن ہو۔ تاکہ کوئی بدباطن تمہاری طرف مائل نہ ہو اور اس کے دل میں برا خیال پیدا نہ ہو۔
[3] یعنی یہ روکھاپن، صرف لہجے کی حد تک ہی ہو، زبان سے ایسا لفظ نہ نکالنا جو معروف قاعدے اور اخلاق کے منافی ہو۔ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ کہہ کر اشارہ کردیا کہ یہ بات اور دیگر ہدایات، جو آگے آ رہی ہیں، متقی عورتوں کے لئے ہیں، کیونکہ انہیں ہی یہ فکر ہوتی ہے کہ ان کی آخرت برباد نہ ہوجائے۔ جن کے دل خوف الٰہی سے عاری ہیں، انہیں ان ہدایات سے کیا تعلق؟ اور وہ کب ان ہدایات کی پروا کرتی ہیں؟

التفاسير:

external-link copy
33 : 33

وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰی وَاَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَاٰتِیْنَ الزَّكٰوةَ وَاَطِعْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ؕ— اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًا ۟ۚ

اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو[1] اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اﻇہار نہ کرو[2] اور نماز ادا کرتی رہو اور زکوٰة دیتی رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو[3]۔ اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ اے نبی کی گھر والیو[4]! تم سے وه (ہر قسم کی) گندگی کو دور کردے اور تمہیں خوب پاک کردے. info

[1] یعنی ٹک کر رہو اور بغیر ضروری حاجت کے گھر سے باہر نہ نکلو۔ اس میں وضاحت کردی گئی ہے کہ عورت کا دائرہ عمل امور سیاست وجہاں بانی نہیں، معاشی جھمیلے بھی نہیں، بلکہ گھر کی چاردیواری کے اندر رہ کر امور خانہ داری سرانجام دینا ہے۔
[2] اس میں گھر سے باہر نکلنے کے آداب بتلا دیئے کہ اگر باہر جانے کی ضرورت پیش آئے تو بناؤ سنگھار کرکے یا ایسے انداز سے، جس سے تمہارا بناؤ سنگھار ظاہر ہو، مت نکلو۔ جیسے بےپردہ ہو کر، جس سے تمہارا سر، چہرہ، بازو اور چھاتی وغیرہ لوگوں کو دعوت نظارہ دے۔ بلکہ بغیر خوشبو لگائے، سادہ لباس میں ملبوس اور باپردہ باہر نکلو تَبَرُّجٌ بےپردگی اور زیب وزینت کے اظہار کو کہتے ہیں۔ قرآن نے واضح کردیا ہے کہ یہ تبرج، جاہلیت ہے، جو اسلام سے پہلے تھی اور آئندہ بھی، جب کبھی اسے اختیار کیا جائے گا، یہ جاہلیت ہی ہوگی، اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، چاہے اس کا نام کتنا ہی خوش نما، دل فریب رکھ لیا جائے۔
[3] پچھلی ہدایات، برائی سے اجتناب سے متعلق تھیں، یہ ہدایات نیکی اختیار کرنے سے متعلق ہیں۔
[4] اہل بیت سے کون مراد ہیں؟ اس کی تعیین میں کچھ اختلاف ہے۔ بعض نے ازواج مطہرات کو مراد لیا ہے، جیسا کہ یہاں قرآن کریم کے سیاق سے واضح ہے۔ قرآن نے یہاں ازواج مطہرات ہی کو اہل البیت کہا ہے۔ قرآن کے دوسرے مقامات پر بھی بیوی کو اہل بیت کہا گیا ہے۔ مثلاً سورۂ ھود، آیت 73 میں۔ اس لئے ازواج مطہرات کا اہل بیت ہونا نص قرآنی سے واضح ہے۔ بعض حضرات، بعض روایات کی رو سے اہل بیت کا مصداق صرف حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حضرت حسن وحسین (رضي الله عنهم) کو مانتے ہیں اور ازواج مطہرات کو اس سے خارج سمجھتے ہیں، جب کہ اول الذکر، ان اصحاب اربعہ کو اس سے خارج سمجھتے ہیں۔ تاہم اعتدال کی راہ اور نقطہ متوسط یہ ہے کہ دونوں ہی اہل بیت ہیں۔ ازواج مطہرات تو اس نص قرانی کی وجہ سے اور داماد واولاد ان روایات کی رو سے جو صحیح سند سے ثابت ہیں جن میں نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) نے ان کو اپنی چادر میں لے کر فرمایا کہ اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ بھی میرے اہل بیت سے ہیں یا یہ دعا ہے کہ یا اللہ ان کوبھی ازواج مطہرات کی طرح، میرے اہل بیت میں شامل فرما دے۔ اس طرح یہ تمام دلائل میں بھی تطبیق ہوجاتی ہے۔ (مزید تفصیل کے لئے دیکھئے فتح القدیر، للشوکانی)۔

التفاسير:

external-link copy
34 : 33

وَاذْكُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِكُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ وَالْحِكْمَةِ ؕ— اِنَّ اللّٰهَ كَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا ۟۠

اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور رسول کی احادیﺚ پڑھی جاتی ہیں ان کا ذکر کرتی رہو[1] ، یقیناً اللہ تعالیٰ لطف کرنے واﻻ خبردار ہے. info

[1] یعنی ان پر عمل کرو۔ حکمت سے مراد، احادیث ہیں۔ اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے بعض علما نے کہا ہے کہ حدیث بھی قرآن کی طرح ثواب کی نیت سے پڑھی جاسکتی ہے۔علاوہ ازیں یہ آیت بھی ازواج مطہرات کے اہل بیت ہونے پر دلالت کرتی ہے، اس لئے وحی کا نزول، جس کا ذکر اس آیت میں ہے، ازواج مطہرات کے گھروں میں ہی ہوتا تھا، بالخصوص حضرت عائشہ (رضی الله عنها) کے گھر میں۔ جیسا کہ احادیث میں ہے۔

التفاسير:

external-link copy
35 : 33

اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآىِٕمِیْنَ وَالصّٰٓىِٕمٰتِ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَهُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّالذّٰكِرٰتِ ۙ— اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا ۟

بےشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں[1] مومن مرد اور مومن عورتیں فرماں برداری کرنے والے مرد اور فرمانبردار عورتیں راست باز مرد اور راست باز عورتیں صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں، خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں، روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں اپنی شرمگاه کی حفاﻇت کرنے والے مرد اور حفاﻇت کرنے والیاں بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں ان (سب کے) لئے اللہ تعالیٰ نے (وسیع) مغفرت اور بڑا ﺛواب تیار کر رکھا ہے. info

[1] حضرت ام سلمہ (رضی الله عنها) اور بعض دیگر صحابیات نے کہا کہ کیا بات ہے، اللہ تعالیٰ ہر جگہ مردوں سے ہی خطاب فرماتا ہے، عورتوں سے نہیں، جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (مسند احمد 6 / 301، ترمذی، نمبر3211) اس میں عورتوں کی دل داری کا اہتمام کردیا گیا ہے ورنہ تمام احکام میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شامل ہیں سوائے ان مخصوص احکام کے جو صرف عورتوں کے لئے ہیں۔ اس آیت اور دیگر آیات سے واضح ہے کہ عبادت واطاعت الٰہی اور اخروی درجات و فضائل میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے۔ دونوں کے لئے یکساں طور پر یہ میدان کھلا ہے اور دونوں زیادہ سے زیادہ نیکیاں اور اجر وثواب کما سکتے ہیں۔ جنس کی بنیاد پر اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کی جائے گی۔ علاوہ ازیں مسلمان اور مومن کا الگ الگ ذکر کرنے سے واضح ہے کہ ان دونوں میں فرق ہے۔ ایمان کا درجہ اسلام سے بڑھ کر ہے جیسا کہ قرآن وحدیث کے دیگر دلائل بھی اس پر دلالت کرتے ہیں۔

التفاسير: