വിശുദ്ധ ഖുർആൻ പരിഭാഷ - ഉർദു വിവർത്തനം - മുഹമ്മദ് ജുനാകരി

പേജ് നമ്പർ:close

external-link copy
181 : 3

لَقَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ فَقِیْرٌ وَّنَحْنُ اَغْنِیَآءُ ۘ— سَنَكْتُبُ مَا قَالُوْا وَقَتْلَهُمُ الْاَنْۢبِیَآءَ بِغَیْرِ حَقٍّ ۙۚ— وَّنَقُوْلُ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ ۟

یقیناً اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا قول بھی سنا جنہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فقیر ہے اور ہم تونگر ہیں(1) ان کے اس قول کو ہم لکھ لیں گے۔ اور ان کا انبیا کو بلا وجہ قتل کرنا بھی(2)، اور ہم ان سے کہیں گے کہ جلنے واﻻ عذاب چکھو! info

(1) جب اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دی اور فرمایا «مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا»( البقرۃ: 245) ”کون ہے جو اللہ کو قرض حسن دے“، تو یہود نے کہا اے محمد ج! تیرا رب فقیر ہوگیا ہے کہ اپنے بندوں سے قرض مانگ رہا ہے؟ جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (ابن کثیر)
(2) یعنی مذکورہ قول جس میں اللہ کی شان میں گستاخی ہے اور اسی طرح ان کے (اسلاف) کا انبیاء ﻹ کو ناحق قتل کرنا، ان کے یہ سارے جرائم اللہ کی بارگاہ میں درج ہیں، جن پر وہ جہنم کی آگ میں داخل ہوں گے۔ٍ

التفاسير:

external-link copy
182 : 3

ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْكُمْ وَاَنَّ اللّٰهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ ۟ۚ

یہ تمہارے پیش کرده اعمال کا بدلہ ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ﻇلم کرنے واﻻ نہیں. info
التفاسير:

external-link copy
183 : 3

اَلَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ عَهِدَ اِلَیْنَاۤ اَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُوْلٍ حَتّٰی یَاْتِیَنَا بِقُرْبَانٍ تَاْكُلُهُ النَّارُ ؕ— قُلْ قَدْ جَآءَكُمْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِیْ بِالْبَیِّنٰتِ وَبِالَّذِیْ قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوْهُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ۟

یہ وه لوگ ہیں جنہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ کسی رسول کو نہ مانیں جب تک وه ہمارے پاس ایسی قربانی نہ ﻻئے جسے آگ کھا جائے۔ آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم سچے ہو تو مجھ سے پہلے تمہارے پاس جو رسول دیگر معجزوں کے ساتھ یہ بھی ﻻئے جسے تم کہہ رہے ہو تو پھر تم نے انہیں کیوں مار ڈاﻻ؟(1) info

(1) اس میں یہود کی ایک اور بات کی تکذیب کی جا رہی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ عہد لیا ہے کہ تم صرف اس رسول کو ماننا جس کی دعا پر آسمان سے آگ آئے اور قربانی وصدقات کو جلا دالے۔ مطلب یہ تھا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کے ذریعے سے اس معجزے کا چونکہ صدور نہیں ہوا۔ اس لئے بحکم الٰہی آپ (صلى الله عليه وسلم) کی رسالت پر ایمان لانا ہمارے لئے ضروری نہیں ہے حالانکہ پہلے نبیوں میں ایسے نبی بھی آئے کہ جن کی دعا سے آسمان سے آگ آتی اور اہل ایمان کے صدقات اور قربانیوں کو کھا جاتی۔ جو ایک طرف اس بات کی دلیل ہوتی کہ اللہ کی راہ میں پیش کردہ صدقہ یا قربانی بارگاہ الٰہی میں قبول ہوگئی۔ دوسری طرف اس بات کی دلیل ہوتی کہ یہ نبی برحق ہے۔ لیکن ان یہودیوں نے ان نبیوں اور رسولوں کی بھی تکذیب ہی کی تھی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو پھر تم نے ایسے پیغمبروں کو کیوں جھٹلایا اور انہیں قتل کیا جو تمہاری طلب کردہ نشانی ہی لے کر آئے تھے؟“۔

التفاسير:

external-link copy
184 : 3

فَاِنْ كَذَّبُوْكَ فَقَدْ كُذِّبَ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ جَآءُوْ بِالْبَیِّنٰتِ وَالزُّبُرِ وَالْكِتٰبِ الْمُنِیْرِ ۟

پھر بھی اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلائیں تو آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے گئے ہیں جو روشن دلیلیں صحیفے اور منور کتاب لے کر آئے.(1) info

(1) نبی (صلى الله عليه وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) یہودیوں کی ان کٹ حجتیوں سے بددل نہ ہوں۔ ایسا معاملہ صرف آپ (صلى الله عليه وسلم) کے ساتھ نہیں کیا جا رہا ہے۔ آپ (صلى الله عليه وسلم) سے پہلے آنے والے پیغمبروں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو چکا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
185 : 3

كُلُّ نَفْسٍ ذَآىِٕقَةُ الْمَوْتِ ؕ— وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ؕ— فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ؕ— وَمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ ۟

ہر جان موت کا مزه چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تم اپنے بدلے پورے پورے دیئے جاؤ گے، پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے بے شک وه کامیاب ہوگیا، اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کی جنس(1) ہے. info

(1) اس آیت میں ایک تو اس اٹل حقیقت کا بیان ہے کہ موت سے کسی کو مفر نہیں۔ دوسرا یہ کہ دنیا میں جس نے، اچھا یا برا، جو کچھ کیا ہوگا، اس کو اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ تیسرا، کامیابی کا معیار بتلایا گیا ہے کہ کامیاب اصل میں وہ ہے جس نے دنیا میں رہ کر اپنے رب کو راضی کر لیا جس کے نتیجے میں جہنم سے دور اور جنت میں داخل کر دیا گیا۔ چوتھا یہ کہ دنیا کی زندگی سامان فریب ہے، جو اس سے دامن بچا کر نکل گیا، وہ خوش نصیب اور جو اس کے فریب میں پھنس گیا، وہ ناکام ونامراد ہے۔

التفاسير:

external-link copy
186 : 3

لَتُبْلَوُنَّ فِیْۤ اَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ ۫— وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْۤا اَذًی كَثِیْرًا ؕ— وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ ۟

یقیناً تمہارے مالوں اور جانوں سے تمہاری آزمائش کی جائے گی(1) اور یہ بھی یقین ہے کہ تمہیں ان لوگوں کی جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے اور مشرکوں کی بہت سی دکھ دینے والی باتیں بھی سننی پڑیں گی اور اگر تم صبر کر لو اور پرہیزگاری اختیار کرو تو یقیناً یہ بہت بڑی ہمت کا کام ہے.(2) info

(1) اہل ایمان کو ان کے ایمان کے مطابق آزمانے کا بیان ہے۔ جیسا کہ سورۃ البقرۃ کی آیت میں گزر چکا ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک واقعہ بھی آتا ہے کہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی نے ابھی اسلام کا اظہار نہیں کیا تھا اور جنگ بدر بھی نہیں ہوئی تھی کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) حضرت سعد بن عبادۃ (رضي الله عنه) کی عیادت کے لئے بنی حارث بن خزرج میں تشریف لے گئے۔ راستے میں ایک مجلس میں مشرکین، یہود اور عبداللہ بن ابی وغیرہ بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ (صلى الله عليه وسلم) کی سواری سے جو گرد اٹھی، اس نے اس پر بھی ناگواری کا اظہار کیا اور آپ (صلى الله عليه وسلم) نے انہیں ٹھہر کر قبول اسلام کی دعوت بھی دی جس پر عبداللہ بن ابی نے گستاخانہ کلمات بھی کہے۔ وہاں بعض مسلمان بھی تھے، انہوں نے اس کے برعکس آپ (صلى الله عليه وسلم) کی تحسین فرمائی، قریب تھا کہ ان کے مابین جھگڑا ہو جائے، آپ (صلى الله عليه وسلم) نے ان سب کو خاموش کرایا، پھر آپ (صلى الله عليه وسلم) حضرت سعد (رضي الله عنه) کے پاس پہنچے تو انہیں بھی یہ واقعہ سنایا جس پر انہوں نے فرمایا کہ عبداللہ بن ابی یہ باتیں اس لئے کرتا ہے کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کے مدینہ آنے سے قبل، یہاں کے باشندگان کو اس کی تاج پوشی کرنی تھی، آپ (صلى الله عليه وسلم) کے آنے سے اس کی سرداری کا یہ حسین خواب ادھورا رہ گیا جس کا اسے سخت صدمہ ہے اور اس کی یہ باتیں اس کے اس بغض وعناد کا مظہر ہیں۔ اس لئے آپ۔ درگزر ہی سے کام لیں۔ (صحيح البخاري كتاب التفسير ملخصًا)
(2) اہل کتاب سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں۔ یہ نبی (صلى الله عليه وسلم) ، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مختلف انداز سے طعن وتشنیع کرتے رہتے تھے۔ اسی طرح مشرکین عرب کا حال تھا۔ علاوہ ازیں مدینہ میں آنے کے بعد منافقین بالخصوص ان کا رئیس عبداللہ بن ابی بھی آپ (صلى الله عليه وسلم) کی شان میں استخفاف کرتا رہتا تھا۔ آپ کے مدینہ آنے سے قبل اہل مدینہ اپنا سردار بنانے لگے تھے اور اس کے سر پر تاج سیادت رکھنے کی تیاری مکمل ہو چکی تھی کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) کے آنے سے اس کا یہ سارا خواب بکھر کر رہ گیا، جس کا اسے شدید صدمہ تھا چنانچہ انتقام کے طور پر بھی یہ شخص آپ کے خلاف سب وشتم کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا (جیسا کہ صحیح بخاری کے حوالے سے اس کی ضرورت تفصیل گزشتہ حاشیہ میں ہی بیان کی گئی ہے) ان حالات میں مسلمانوں کو عفوو درگزر اور صبر اور تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ داعیان حق کا اذیتوں اور مشکلات سے دوچار ہونا اس راہ حق کے ناگزیر مرحلوں میں سے ہے اور اس کا علاج صبر فی اللہ، استعانت باللہ اور رجوع الی اللہ کے سوا کچھ نہیں (ابن کثیر)

التفاسير: