(1) یہ سب سے پہلی وحی ہے جو نبی (صلى الله عليه وسلم) پر اس وقت آئی جب آپ (صلى الله عليه وسلم) غار حرا میں مصروف عبادت تھے۔ فرشتے نے آکر کہا، پڑھ، آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا، میں تو پڑھا ہوا ہی نہیں ہوں، فرشتے نے آپ (صلى الله عليه وسلم) کو پکڑ کر زور سے بھینچا، اور کہا پڑھ، آپ (صلى الله عليه وسلم) نے پھر وہی جواب دیا۔ اس طرح تین مرتبہ اس نے آپ (صلى الله عليه وسلم) کو بھینچا۔ ( تفصیل کے لئے دیکھئے صحیح بخاری، بدء الوحی، مسلم، الایمان، باب بدء الوحی ) اقْرَأْ جو تیری طرف وحی کی جاتی ہے وہ پڑھ۔ خَلَقَ، جس نے تمام مخلوق کو پیدا کیا۔
(1) یہ بطور تاکید فرمایا اور اس میں بڑے بلیغ انداز سے اس اعتذار کا بھی ازالہ فرما دیا، جو آپ (صلى الله عليه وسلم) نے پیش کیا کہ میں تو قاری ہی نہیں۔ اللہ نے فرمایا، اللہ بہت کرم والا ہے پڑھ، یعنی انسانوں کی کوتاہیوں سے درگزر کرنا اس کا وصف خاص ہے۔
(1) قَلَمٌ کے معنی ہیں قطع کرنا، تراشنا، قلم بھی پہلے زمانے میں تراش کر ہی بنائے جاتے تھے، اس لئے آلۂ کتابت کو قلم سے تعبیر کیا۔ کچھ علم تو انسان کے ذہن میں ہوتا ہے، کچھ کا اظہار زبان کے ذریعے سے ہوتا ہے اور کچھ انسان قلم سے کاغذ پر لکھ لیتا ہے۔ ذہن وحافظہ میں جو ہوتا ہے، وہ انسان کے ساتھ ہی چلا جاتا ہے۔ زبان سے جس کا اظہار کرتا ہے، وہ بھی محفوظ نہیں رہتا۔ البتہ قلم سے لکھا ہوا، اگر وہ کسی وجہ سے ضائع نہ ہو تو ہمیشہ محفوظ رہتا ہے، اسی قلم کی بدولت تمام علوم، پچھلے لوگوں کی تاریخیں اور اسلاف کا علمی ذخیرہ محفوظ ہے۔ حتیٰ کہ آسمانی کتابوں کی حفاظت کا بھی ذریعہ ہے۔ اس سے قلم کی اہمیت محتاج وضاحت نہیں رہتی۔ اسی لئے اللہ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور اس کو تمام مخلوقات کی تقدیر لکھنے کا حکم دیا۔