ಪವಿತ್ರ ಕುರ್‌ಆನ್ ಅರ್ಥಾನುವಾದ - ಉರ್ದು ಅನುವಾದ - ಮುಹಮ್ಮದ್ ಜುನಾಗಡಿ

ಪುಟ ಸಂಖ್ಯೆ:close

external-link copy
14 : 9

قَاتِلُوْهُمْ یُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَیْدِیْكُمْ وَیُخْزِهِمْ وَیَنْصُرْكُمْ عَلَیْهِمْ وَیَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ ۟ۙ

ان سے تم جنگ کرو اللہ تعالیٰ انہیں تمہارے ہاتھوں عذاب دے گا، انہیں ذلیل ورسوا کرے گا، تمہیں ان پر مدد دے گا اور مسلمانوں کے کلیجے ٹھنڈے کرے گا۔ info
التفاسير:

external-link copy
15 : 9

وَیُذْهِبْ غَیْظَ قُلُوْبِهِمْ ؕ— وَیَتُوْبُ اللّٰهُ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ ؕ— وَاللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ ۟

اور ان کے دل کا غم وغصہ دور کرے گا(1) ، اور وه جس کی طرف چاہتا ہے رحمت سے توجہ فرماتا ہے۔ اللہ جانتا بوجھتا حکمت واﻻ ہے۔ info

(1) یعنی جب مسلمان کمزور تھے تو یہ مشرکین ان پر ظلم و ستم کرتے تھے جس کی وجہ سے مسلمانوں کے دل ان کی طرف سے بڑے دکھی اور مجروح تھے، جب تمہارے ہاتھوں وہ قتل ہونگے اور ذلت و رسوائی ان کے حصے میں آئے گی تو فطری بات ہے کہ اس سے مظلوم اور ستم رسیدہ مسلمانوں کے کلیجے ٹھنڈے اور دلوں کا غصہ فرو ہوگا۔

التفاسير:

external-link copy
16 : 9

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَكُوْا وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَلَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلَا رَسُوْلِهٖ وَلَا الْمُؤْمِنِیْنَ وَلِیْجَةً ؕ— وَاللّٰهُ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ۟۠

کیا تم یہ سمجھے بیٹھے ہو کہ تم چھوڑ دیئے جاؤ گے(1) حاﻻنکہ اب تک اللہ نے تم میں سے انہیں ممتاز نہیں کیا جو مجاہد ہیں(2) اور جنہوں نے اللہ کے اور اس کے رسول کے اور مومنوں کے سوا کسی کو دلی دوست نہیں بنایا(3)۔ اللہ خوب خبردار ہے جو تم کر رہے ہو۔ info

(1) یعنی بغیر امتحان اور آزمائش کے۔
(2) گویا جہاد کے ذریعے امتحان لیا گیا۔
(3) ”وَلِيجَةٌ“، گہرے اور دلی دوست کو کہتے ہیں مسلمانوں کو چونکہ اللہ اور رسول کے دشمنوں سے محبت کرنے اور دوستانہ تعلقات رکھنے سے منع کیا گیا تھا لہذا یہ بھی آزمائش کا ایک ذریعہ تھا، جس سے مخلص مومنوں کو دوسروں سے ممتاز کیا گیا۔
(4) مطلب یہ ہے کہ اللہ کو پہلے ہی ہرچیز کا علم ہے۔ لیکن جہاد کی حکمت یہ ہے کہ اس سے مخلص اور غیر مخلص، فرماں بردار اور نافرمان بندے نمایاں ہو کر سامنے آجاتے، جنہیں ہر شخص دیکھ اور پہچان لیتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
17 : 9

مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِیْنَ عَلٰۤی اَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ ؕ— اُولٰٓىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ ۖۚ— وَفِی النَّارِ هُمْ خٰلِدُوْنَ ۟

ﻻئق نہیں کہ مشرک اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کو آباد کریں۔ درآں حالیکہ وه خود اپنے کفر کے آپ ہی گواه ہیں(1) ، ان کے اعمال غارت واکارت ہیں، اور وه دائمی طور پر جہنمی ہیں۔(2) info

(1) مَسَاجِدَ اللهِ سے مراد مسجد حرام ہے جمع کا لفظ اس لئے استعمال کیا گیا کہ یہ تمام مساجد کا قبلہ و مرکز ہے یا عربوں میں واحد کے لئے بھی جمع کا استعمال جائز ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے گھر (یعنی مسجد حرام) کو تعمیر یا آباد کرنا، یہ ایمان والوں کا کام ہے نہ کہ ان کا جو کفر و شرک کا ارتکاب اور اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ جیسے وہ تلبیہ میں کہا کرتے تھے: «لَبَّيْكَ لا شَرِيكَ لَكَ، إِلا شَرِيكًا هُوَ لَكَ ، تَمْلِكُهُ وَمَا مَلَكَ» ( صحيح مسلم- باب التلبية) یا اس سے مراد وہ اعتراف ہے جو ہر مذہب والا کرتا ہے کہ میں یہودی، نصرانی، صابی یا مشرک ہوں۔(فتح القدیر)
(2) یعنی ان کے وہ عمل جو بظاہر نیک لگتے ہیں، جیسے طواف و عمرہ اور حاجیوں کی خدمت وغیرہ۔ کیونکہ ایمان کے بغیر یہ اعمال ایسے درخت کی طرح ہیں جو بےثمر ہیں یا ان پھولوں کی طرح ہیں جن میں خو شبو نہیں ہے۔

التفاسير:

external-link copy
18 : 9

اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَی الزَّكٰوةَ وَلَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ ۫— فَعَسٰۤی اُولٰٓىِٕكَ اَنْ یَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِیْنَ ۟

اللہ کی مسجدوں کی رونق وآبادی تو ان کے حصے میں ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں، نمازوں کے پابند ہوں، زکوٰة دیتے ہوں، اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے ہوں، توقع ہے کہ یہی لوگ یقیناً ہدایت یافتہ ہیں۔(1) info

(1) جس طرح حدیث میں بھی ہے نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا: «إِذَا رَأَيْتُمُ الرَّجُلَ يَعْتَادُ الْمَسْجِدَ، فَاشْهَدُوا لَهُ بِالإِيمَانِ» (ترمذي ، تفسير سورة التوبة) ”جب تم دیکھو کہ ایک آدمی مسجد میں پابندی سے آتا ہے تو تم اس کے ایمان کی گواہی دو“۔ قرآن کریم میں یہاں بھی ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کے بعد جن اعمال کا ذکر کیا گیا ہے، وہ نماز زکٰو ۃ اور خشیت الٰہی ہے، جس سے نماز، زکٰو ۃ اور تقویٰ کی اہمیت واضح ہے۔

التفاسير:

external-link copy
19 : 9

اَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَآجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَجٰهَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ؕ— لَا یَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللّٰهِ ؕ— وَاللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ ۟ۘ

کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلا دینا اور مسجد حرام کی خدمت کرنا اس کے برابر کر دیا ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان ﻻئے اور اللہ کی راه میں جہاد کیا، یہ اللہ کے نزدیک برابر کے نہیں(1) اور اللہ تعالیٰ ﻇالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔(2) info

(1) مشرکین حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی دیکھ بھال کا کام جو کرتے تھے، اس پر انہیں بڑا فخر تھا اور اس کے مقابلے میں وہ ایمان و جہاد کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے جس کا اہتمام مسلمانوں کے اندر تھا۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا کیا تم سقایت حاج اور عمارت مسجد حرام کو ایمان باللہ اور جہاد فی سبیل اللہ کے برابر سمجھتے ہو؟ یاد رکھو اللہ کے نزدیک یہ برابر نہیں، بلکہ مشرک کا کوئی عمل بھی قبول نہیں، چاہے وہ صورۃً خیر ہی ہو۔ جیسا کہ پہلی آیت کے جملے «حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ»( البقرۃ:217) میں واضح کیا جا چکا ہے۔ بعض روایت میں اس کا سبب نزول مسلمانوں کی آپس میں ایک گفتگو کو بتلایا گیا ہے کہ ایک روز منبر نبوی کے قریب کچھ مسلمان جمع تھے اس میں سے ایک نے کہا کہ اسلام لانے کے بعد میرے نزدیک سب سے بڑا عمل حاجیوں کو پانی پلانا ہے۔ دوسرے نے کہا مسجد حرام کو آباد کرنا ہے۔ تیسرے نے کہا بلکہ جہاد فی سبیل اللہ ان تمام عملوں سے بہتر ہے جو تم نے بیان کیے ہیں۔ حضرت عمر (رضي الله عنه) نے جب انہیں اس طرح باہم تکرار کرتے ہوئے سنا تو انہیں ڈانٹا اور فرمایا کہ منبر رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کے پاس آوازیں اونچی مت کرو۔ یہ جمعہ کا دن تھا۔ راوی حدیث حضرت نعمان بن بشیر (رضي الله عنه) کہتے ہیں کہ جمعہ کے بعد نبی (صلى الله عليه وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی آپس کی اس گفتگو کی بابت استفسار کیا، جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (صحيح مسلم كتاب الإمارة، باب فضل الشهادة في سبيل الله) جس میں گو یا یہ واضح کردیا گیا کہ ایمان باللہ ایمان بالآخرت اور جہاد فی سبیل اللہ سب سے زیادہ اہمیت وفضیلت والے عمل ہیں۔ گفتگو کے حوالے سے اصل اہمیت وفضیلت تو جہاد کی بیان کرنی تھی لیکن ایمان باللہ کے بغیر چونکہ کوئی بھی عمل مقبول نہیں اس لیے پہلے اسے بیان کیا گیا۔ بہرحال اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ جہاد فی سبیل اللہ سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں۔ دوسرا یہ معلوم ہوا کہ اس کا سبب نزول مشرکین کے مزعومات فاسدہ کے علاوہ خود مسلمانوں کا بھی اپنے اپنے طور پر بعض عملوں کو بعض پر زیادہ اہمیت دینا تھا جب کہ یہ کام شارع کا ہے نہ کہ مومنوں کا۔ مومنوں کا کام تو ہر اس بات پر عمل کرنا ہے جو اللہ اور رسول کی طرف سے انہیں بتلائی جائے۔
(2) یعنی یہ لوگ چاہے کیسے بھی دعوے کریں۔ حقیقت میں ظالم ہیں یعنی مشرک ہیں، اس لئے کہ شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔ اس ظلم کی وجہ سے یہ ہدایت الٰہی سے محروم ہیں۔ اس لئے ان کا اور مسلمانوں کا، جو ہدایت الٰہی سے بہرہ ور ہیں، آپس میں کوئی مقابلہ نہیں ہے۔

التفاسير:

external-link copy
20 : 9

اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ ۙ— اَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللّٰهِ ؕ— وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفَآىِٕزُوْنَ ۟

جو لوگ ایمان ﻻئے، ہجرت کی، اللہ کی راه میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد کیا وه اللہ کے ہاں بہت بڑے مرتبہ والے ہیں، اور یہی لوگ مراد پانے والے ہیں۔ info
التفاسير: