(1) جب رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کو خلعت نبوت سے نوازا گیا اور آپ نےتوحید، قیامت وغیرہ کا بیان فرمایا اور قرآن کی تلاوت فرمائی تو کفار ومشرکین باہم ایک دوسرے سے پوچھتے کہ یہ قیامت کیا واقعی ممکن ہے؟ جیسا کہ یہ شخص دعویٰ کر رہا ہے یا یہ قرآن واقعی اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے جیسا کہ محمد (صلى الله عليه وسلم) کہتا ہے۔ استفہام کے ذریعے سے اللہ نے پہلے ان چیزوں کی وہ حیثیت نمایاں کی جو ان کی ہے۔ پھر خود ہی جواب دیا کہ۔۔۔
(1) یعنی جس بڑی خبر کی بابت ان کے درمیان اختلاف ہے، اس کے متعلق استفسار ہے۔ اس بڑی خبر سے بعض نے قرآن مجید مراد لیا ہے کافر اس کے بارے میں مختلف باتیں کرتے تھے، کوئی اسے جادو، کوئی کہانت، کوئی شعر اور کوئی پہلوں کی کہانیاں بتلاتا تھا۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد قیامت کا برپا ہونا اور دوبارہ زندہ ہونا ہے۔ اس میں بھی ان کے درمیان کچھ اختلاف تھا۔ کوئی بالکل انکار کرتا تھا کوئی صرف شک کا اظہار۔ بعض کہتے ہیں کہ سوال کرنے والےمومن وکافر دونوں ہی تھے، مومنین کا سوال تو اضافہ یقین اور ازدیاد بصیرت کے لئے تھا اور کافروں کا استہزا اور تمسخر کے طور پر۔
(1) یہ ڈانٹ اور زجر ہےکہ عنقریب سب کچھ معلوم ہو جائے گا۔ آگے اللہ تعالیٰ اپنی کاریگری اور عظیم قدرت کا تذکرہ فرما رہا ہے تاکہ توحید کی حقیقت ان کے سامنے واضح ہو اور اللہ کا رسول انہیں جس چیز کی دعوت دے رہا تھا، اس پر ایمان لانا ان کے لئے آسان ہو جائے۔
(1) سُبَاتٌ کے معنی قطع کرنے کے ہیں۔ رات بھی انسان وحیوان کی ساری حرکتیں منقطع کر دیتی ہے تاکہ سکون ہو جائے اور لوگ آرام کی نیند سو لیں۔ یا مطلب ہے کہ رات تمہارے اعمال کاٹ دیتی ہے یعنی عمل کے سلسلے کو ختم کر دیتی ہے۔ عمل ختم ہونے کا مطلب آرام ہے۔
(1) مُعْصِرَاتٌ وہ بدلیاں جو پانی سے بھری ہوئی ہے لیکن ابھی برسی نہ ہوں۔ جیسے الْمَرْأَةُ الْمُعْتَصِرَةُ، اس عورت کو کہتے ہیں جس کی ماہواری قریب ہو، ثَجَّاجًا کثرت سے بہنے والا پانی۔
(1) بعض نے اس کا مفہوم یہ بھی بیان کیا ہے کہ ہر امت اپنے رسول کے ساتھ میدان محشر میں آئے گی۔ یہ دوسرا نفخہ ہوگا، جس میں سب لوگ قبروں سے زندہ اٹھ کر نکل آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ آسمان سےپانی نازل فرمائے گا، جس سے انسان کھیتی کی طرح اگ آئے گا۔ انسان کی ہر چیز بوسیدہ ہو جائے گی، سوائے ریڑھ کی ہڈی کے آخری سرے کے۔ اسی سے قیامت والے دن تمام مخلوقات کی دوبارہ ترکیب ہوگی۔ ( صحیح بخاری، تفسیر سورۂ عم ) ۔
(1) سَرَابٌ، وہ ریت جو دور سے پانی محسوس ہوتی ہو۔ پہاڑ بھی سراب کی طرح صرف دور سے نظر آنے والی چیز بن کر رہ جائیں گے۔ اور اس کے بعد بالکل ہی معدوم ہو جائیں گے، ان کا کوئی نشان باقی نہیں رہے گا۔ بعض کہتے ہیں کہ قرآن میں پہاڑوں کی مختلف حالتیں بیان کی گئی ہیں، جن میں جمع وتطبیق کی صورت یہ ہے کہ پہلے انہیں ریزہ ریزہ کر دیا جائے گا فَدُكَّتَا دَكَّةً وَاحِدَةً ( الحاقة: 14 ) 2- وہ دھنی ہوئی روئی کی طرح ہو جائیں گے۔ كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوشِ ( القارعة: 5) 3- وہ گرد وغبار ہو جائیں گے۔ فَكَانَتْ هَبَاءً مُنْبَثًّا ( الواقعة :6)۔ 4- ان کو اڑا دیا جائے گا يَنْسِفُهَا رَبِّي نَسْفًا (طه:105) اور پانچویں حالت یہ ہے کہ وہ سراب ہو جائیں گے۔ یعنی لا شَيْءَ جیسا کہ اس مقام پر ہے۔ ( فتح القدیر ) ۔
(1) گھات ایسی جگہ کو کہتے ہیں، جہاں چھپ کر دشمن کا انتظار کیا جاتا ہے تاکہ وہاں سے گزرے تو فوراً اس پر حملہ کر دیا جائے۔ جہنم کے داروغے بھی جہنمیوں کے انتظار میں اسی طرح بیٹھے ہیں یا خود جہنم اللہ کے حکم سے کفار کے لئے گھات لگائے بیٹھی ہے۔
(1) عذاب بڑھانے کا مطلب ہے کہ اب یہ عذاب دائمی ہے۔ جب ان کے چمڑے گل جائیں گے تو دوسرے بدل دیئے جائیں گے۔ ( النساء:56 ) جب آگ بجھنے لگے گی، تو پھر بھڑ کا دی جائے گی۔ بنی اسرائیل:97)۔