ಪವಿತ್ರ ಕುರ್‌ಆನ್ ಅರ್ಥಾನುವಾದ - ಉರ್ದು ಅನುವಾದ - ಮುಹಮ್ಮದ್ ಜುನಾಗಡಿ

ಪುಟ ಸಂಖ್ಯೆ:close

external-link copy
96 : 5

اُحِلَّ لَكُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهٗ مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِلسَّیَّارَةِ ۚ— وَحُرِّمَ عَلَیْكُمْ صَیْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا ؕ— وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْۤ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ ۟

تمہارے لئے دریا کا شکار پکڑنا اور اس کا کھانا حلال کیا گیا ہے(1) ۔ تمہارے فائده کے واسطے اور مسافروں کے واسطے اور خشکی کا شکار پکڑنا تمہارے لئے حرام کیا گیا ہے جب تک تم حالت احرام میں رہو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو جس کے پاس جمع کئے جاؤ گے۔ info

(1) ”صَيْدٌ“ سے مراد زندہ جانور اورطَعَامُهُ سے مراد وہ مردہ (مچھلی وغیرہ) ہے جسے سمندر یا دریا باہر پھینک دے یا پانی کے اوپر آجائے۔ جس طرح کہ حدیث میں بھی وضاحت ہے کہ سمندر کا مردار حلال ہے۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو۔ تفسیر ابن کثیر اور نیل الاوطار وغیرہ )

التفاسير:

external-link copy
97 : 5

جَعَلَ اللّٰهُ الْكَعْبَةَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ وَالْهَدْیَ وَالْقَلَآىِٕدَ ؕ— ذٰلِكَ لِتَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَاَنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ ۟

اللہ نے کعبہ کو جو ادب کا مکان ہے لوگوں کے قائم رہنے کا سبب قرار دے دیا اور عزت والے مہینہ کو بھی اور حرم میں قربانی ہونے والے جانور کو بھی اور ان جانوروں کو بھی جن کے گلے میں پٹے ہوں(1) یہ اس لئے تاکہ تم اس بات کا یقین کر لو کہ بےشک اللہ تمام آسمانوں اور زمین کے اندر کی چیزوں کا علم رکھتا ہے اور بےشک اللہ سب چیزوں کو خوب جانتا ہے۔ info

(1) کعبہ کو البیت الحرام اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کی حدود میں شکار کرنا، درخت کاٹنا وغیرہ حرام ہیں۔ اسی طرح اس میں اگر باپ کے قاتل سے بھی سامنا ہو جاتا تو اس سے تعرض نہیں کیا جاتا تھا۔ اسے”قِيَامًا لِلنَّاسِ“ (لوگوں کے قیام اور گزران کا باعث) قرار دیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ اس کے ذریعے سے اہل مکہ کا نظم وانصرام بھی صحیح ہے اور ان کے معاشی ضروریات کی فراہمی کا ذریعہ بھی ہے۔ اسی طرح حرمت والے مہینے (رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم) اور حرم میں جانے والے جانور (ھدی اور قلائد) بھی قِيَامًا لِلنَّاسِ ہیں کہ تمام چیزوں سے بھی اہل مکہ کو مذکورہ فوائد حاصل ہوتے تھے۔

التفاسير:

external-link copy
98 : 5

اِعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ وَاَنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۟ؕ

تم یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ سزا بھی سخت دینے واﻻ ہے اور اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور بڑی رحمت واﻻ بھی ہے۔ info
التفاسير:

external-link copy
99 : 5

مَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ ؕ— وَاللّٰهُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا تَكْتُمُوْنَ ۟

رسول کے ذمہ تو صرف پہنچانا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سب جانتا ہے جو کچھ تم ﻇاہر کرتے ہو اور جو کچھ پوشیده رکھتے ہو۔ info
التفاسير:

external-link copy
100 : 5

قُلْ لَّا یَسْتَوِی الْخَبِیْثُ وَالطَّیِّبُ وَلَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِیْثِ ۚ— فَاتَّقُوا اللّٰهَ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ۟۠

آپ فرما دیجیئے کہ ناپاک اور پاک برابر نہیں گو آپ کو ناپاک کی کثرت بھلی لگتی(1) ہو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اے عقل مندو! تاکہ تم کامیاب ہو۔ info

(1) ”خَبِيثٌ“ (ناپاک) سے مراد حرام، یا کافر یا گناہ گار یا ردی۔ ”طیب“ (پاک) سے مراد حلال، یا مومن یا فرماں بردار اور عمدہ چیز ہے یا یہ سارے ہی مراد ہوسکتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جس چیز میں خبث (ناپاکی) ہوگی وہ کفر ہو، فسق وفجور ہو، اشیا واقوال ہوں، کثرت کے باوجود وہ ان چیزوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے جن میں پاکیزگی ہو۔ یہ دونوں کسی صورت میں برابر نہیں ہوسکتے۔ اس لئے خبث کی وجہ سے اس چیز کی منفعت اور برکت ختم ہوجاتی ہے جب کہ جس چیز میں پاکیزگی ہوگی اس سے اس کی منفعت اور برکت میں اضافہ ہوگا۔

التفاسير:

external-link copy
101 : 5

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْـَٔلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ ۚ— وَاِنْ تَسْـَٔلُوْا عَنْهَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْ ؕ— عَفَا اللّٰهُ عَنْهَا ؕ— وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ ۟

اے ایمان والو! ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ﻇاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں اور اگر تم زمانہٴ نزول قرآن میں ان باتوں کو پوچھو گے تو تم پر ﻇاہر کردی جائیں گی(1) سواﻻت گزشتہ اللہ نے معاف کردیئے اور اللہ بڑی مغفرت واﻻ بڑے حلم واﻻ ہے۔ info

(1) یہ ممانعت نزول قرآن کے وقت تھی۔ خود نبی (صلى الله عليه وسلم) بھی صحابہ (رضي الله عنهم) کو زیادہ سوالات کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے۔ ایک حدیث میں آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ”مسلمانوں میں وہ سب سے بڑا مجرم ہے جس کے سوال کرنے کی وجہ سے کوئی چیز حرام کردی گئی درآں حالیکہ اس سے قبل وہ حلال تھی“۔ (صحيح البخاري نمبر 7289، وصحيح مسلم، كتاب الفضائل باب توقيره صلی اللہ عليه وسلم وترك إكثار سؤاله)

التفاسير:

external-link copy
102 : 5

قَدْ سَاَلَهَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْ ثُمَّ اَصْبَحُوْا بِهَا كٰفِرِیْنَ ۟

ایسی باتیں تم سے پہلے اور لوگوں نے بھی پوچھی تھیں، پھر ان باتوں کے منکر ہوگئے۔(1) info

(1) کہیں اس کوتاہی کے مرتکب تم بھی نہ ہو جاؤ۔ جس طرح ایک مرتبہ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے“ ایک شخص نے سوال کیا؟ کیا ہر سال؟ آپ (صلى الله عليه وسلم) خاموش رہے، اس نے تین مرتبہ سوال دہرایا، پھر آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا کہ ”اگر میں ہاں کہہ دیتا تو حج ہر سال فرض ہوجاتا اور اگر ایسا ہوجاتا تو ہر سال حج کرنا تمہارے لئے ممکن نہ ہوتا“۔ (صحيح مسلم، كتاب الحج حديث نمبر 412، ومسند أحمد، سنن أبي داود، نسائي، ابن ماجه) اسی لئے بعض مفسرین نے ”عَفَا ٱللَّهُ عَنۡهَا“ کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا ہے کہ جس چیز کا تذکرہ اللہ نے اپنی کتاب میں نہیں کیا ہے، پس وہ ان چیزوں میں سے ہے جن کو اللہ نے معاف کردیا ہے۔ پس تم بھی ان کی بابت خاموش رہو، جس طرح وہ خاموش رہا۔ (ابن کثیر) ایک حدیث میں نبی (صلى الله عليه وسلم) نے اس مفہوم کو بایں الفاظ بیان فرمایا: ”ذَرُونِي مَا تُرِكْتُمْ فَإِنَّمَا أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَثْرَةُ سُؤَالِهِمْ، وَاخْتِلافُهُمْ عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ“ (صحيح مسلم، كتاب وباب مذكور) ”تمہیں جن چیزوں کی بابت نہیں بتایا گیا، تم مجھ سے ان کی بابت سوال مت کرو، اس لئے کہ تم سے پہلی امتوں کی ہلاکت کا سبب ان کا کثرت سوال اور اپنے انبیاء سے اختلاف بھی تھا۔“

التفاسير:

external-link copy
103 : 5

مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنْ بَحِیْرَةٍ وَّلَا سَآىِٕبَةٍ وَّلَا وَصِیْلَةٍ وَّلَا حَامٍ ۙ— وَّلٰكِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰهِ الْكَذِبَ ؕ— وَاَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ ۟

اللہ تعالیٰ نے نہ بحیره کو مشروع کیا ہے اور نہ سائبہ کو اور نہ وصیلہ کو اور نہ حام کو(1) لیکن جو لوگ کافر ہیں وه اللہ تعالیٰ پر جھوٹ لگاتے ہیں اور اکثر کافر عقل نہیں رکھتے۔ info

(1) یہ ان جانوروں کی قسمیں ہیں جو اہل عرب اپنے بتوں کی نذر کر دیا کرتے تھے۔ ان کی مختلف تفسیریں کی گئی ہیں۔ حضرت سعید بن مسیب (رحمۃ اللہ علیہ) سے صحیح بخاری میں اس کی تفسیر حسب ذیل نقل کی گئی ہے۔”بَحِيرَةٍ“: وہ جانور، جس کا دودھ دوہنا چھوڑ دیا جاتا اور کہا جاتا کہ یہ بتوں کے لئے ہے۔ چنانچہ کوئی شخص اس کے تھنوں کو ہاتھ نہ لگاتا۔ ”سَآئِبَة“: وہ جانور، جسے وہ بتوں کے لئے آزاد چھوڑ دیتے تھے، اسے نہ سواری کے لئے استعمال کرتے نہ باربرداری کے لئے۔ ”وَصِيلَةٍ“: وہ اونٹنی، جس سے پہلی مرتبہ مادہ پیدا ہوتی اور اس کے بعد پھر دوبارہ بھی مادہ ہی پیدا ہوتی۔ (یعنی ایک مادہ کے بعد دوسری مادہ مل گئی، ان کے درمیان کسی نر سے تفریق نہیں ہوئی) ایسی اونٹنی کو بھی وہ بتوں کے لئے آزاد چھوڑ دیتے تھے اور ”حَامٍ“: وہ نر اونٹ، جس کی نسل سے کئی بچے ہوچکے ہوتے۔ (اور نسل کافی بڑھ جاتی) تو اس سے بھی باربرداری یا سواری کا کام نہ لیتے اور بتوں کے لئے چھوڑ دیتے اور اسے وہ حامی کہتے۔ اسی روایت میں یہ حدیث بھی بیان کی گئی ہے کہ سب سے پہلے بتوں کے جانور آزاد چھوڑنے والا شخص عمروبن عامر خزاعی تھا۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) فرماتے ہیں کہ میں نے اسے جہنم میں انتڑیاں کھینچتے ہوئے دیکھا (صحيح بخاري- تفسير سورة المائدة) آیت میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو اس طرح مشروع نہیں کیا ہے، کیونکہ اس نے تو نذر ونیاز صرف اپنے لئے خاص کر رکھی ہے۔ بتوں کے لئے نذرونیاز کے طریقے مشرکوں نے ایجاد کئے ہیں اور بتوں اور معبودان باطل کے نام پر جانور چھوڑنے اور نذر نیاز پیش کرنے کا یہ سلسلہ آج بھی مشرکوں میں بلکہ بہت سے نام نہاد مسلمانوں میں بھی قائم و جاری ہے۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ۔

التفاسير: