ಪವಿತ್ರ ಕುರ್‌ಆನ್ ಅರ್ಥಾನುವಾದ - ಉರ್ದು ಅನುವಾದ - ಮುಹಮ್ಮದ್ ಜುನಾಗಡಿ

ಪುಟ ಸಂಖ್ಯೆ:close

external-link copy
102 : 4

وَاِذَا كُنْتَ فِیْهِمْ فَاَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلٰوةَ فَلْتَقُمْ طَآىِٕفَةٌ مِّنْهُمْ مَّعَكَ وَلْیَاْخُذُوْۤا اَسْلِحَتَهُمْ ۫— فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْیَكُوْنُوْا مِنْ وَّرَآىِٕكُمْ ۪— وَلْتَاْتِ طَآىِٕفَةٌ اُخْرٰی لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَكَ وَلْیَاْخُذُوْا حِذْرَهُمْ وَاَسْلِحَتَهُمْ ۚ— وَدَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ تَغْفُلُوْنَ عَنْ اَسْلِحَتِكُمْ وَاَمْتِعَتِكُمْ فَیَمِیْلُوْنَ عَلَیْكُمْ مَّیْلَةً وَّاحِدَةً ؕ— وَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِنْ كَانَ بِكُمْ اَذًی مِّنْ مَّطَرٍ اَوْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤی اَنْ تَضَعُوْۤا اَسْلِحَتَكُمْ ۚ— وَخُذُوْا حِذْرَكُمْ ؕ— اِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّهِیْنًا ۟

جب تم ان میں ہو اور ان کے لئے نماز کھڑی کرو تو چاہئے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ اپنے ہتھیار لئے کھڑی ہو، پھر جب یہ سجده کر چکیں تو یہ ہٹ کر تمہارے پیچھے آجائیں اور وه دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی وه آجائے اور تیرے ساتھ نماز ادا کرے اور اپنا بچاؤ اور اپنے ہتھیار لئے رہے، کافر چاہتے ہیں کہ کسی طرح تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے سامان سے بے خبر ہو جاؤ تو وہ تم پر اچانک دھاوا بول دیں(1) ، ہاں اپنے ہتھیار اتار رکھنے میں اس وقت تم پر کوئی گناه نہیں جب کہ تمہیں تکلیف ہو یا بوجہ بارش کے یا بسبب بیمار ہو جانے کے اور اپنے بچاؤ کی چیزیں ساتھ لئے رہو، یقیناً اللہ تعالیٰ نے منکروں کے لئے ذلت کی مار تیار کر رکھی ہے۔ info

(1) اس آیت میں صلٰوۃ الخوف کی اجازت بلکہ حکم دیا جا رہا ہے۔ صلٰوۃ الخوف کے معنی ہیں، خوف کی نماز۔ یہ اس وقت مشروع ہے جب مسلمان اور کافروں کی فوجیں ایک دوسرے کے مقابل جنگ کے لئے تیار کھڑی ہوں اور ایک لمحے کی بھی غفلت مسلمانوں کے لئے سخت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ ایسے حالات میں اگر نماز کا وقت ہو جائے تو صلٰوۃ الخوف پڑھنے کا حکم ہے، جس کی مختلف صورتیں حدیث میں بیان کی گئی ہیں۔ مثلاً فوج دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ ایک حصہ دشمن کے بالمقابل کھڑا رہا تاکہ کافروں کو حملہ کرنے کی جسارت نہ ہو اور ایک حصے نے آکر نبی (صلى الله عليه وسلم) کے پیچھے نماز پڑھی۔ جب یہ حصہ نماز سے فارغ ہو گیا تو یہ پہلے کی جگہ مورچہ زن ہوگیا اور مورچہ زن حصہ نماز کے لئے آگیا، بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ نے دونوں حصوں کو ایک ایک رکعت نماز پڑھائی، اس طرح آپ (صلى الله عليه وسلم) کی دو رکعت اور باقی فوجیوں کی ایک ایک رکعت ہوئی، بعض میں آتا ہے کہ دو دو رکعات پڑھائیں، اس طرح آپ کی چار رکعت اور فوجیوں کی دو دو رکعت ہوئیں اور بعض میں آتا ہے کہ ایک رکعت پڑھ کر التحیات کی طرح بیٹھے رہے، فوجیوں نے کھڑے ہو کر اپنے طور پر ایک رکعت اور پڑھ کر دو رکعات پوری کیں اور دشمن کے سامنے جا کر ڈٹ گئے۔ دوسرے حصے نے آکر نبی (صلى الله عليه وسلم) کے پیچھے نماز پڑھی، آپ (صلى الله عليه وسلم) نے انہیں بھی ایک رکعت پڑھائی اور التحیات میں بیٹھ گئے اور اس وقت تک بیٹھے رہے جب تک فوجیوں نے دوسری رکعت پوری نہیں کر لی۔ پھر ان کے ساتھ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے سلام پھیر دیا۔ اس طرح آپ (صلى الله عليه وسلم) کی بھی دو رکعت اور فوج کے دنوں حصوں کی بھی دو رکعات ہوئیں (دیکھئے کتب حدیث )۔

التفاسير:

external-link copy
103 : 4

فَاِذَا قَضَیْتُمُ الصَّلٰوةَ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِكُمْ ۚ— فَاِذَا اطْمَاْنَنْتُمْ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ ۚ— اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا ۟

پھر جب تم نماز ادا کر چکو تو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہو(1) اور جب اطمینان پاؤ تو نماز قائم کرو!(2) یقیناً نماز مومنوں پر مقرره وقتوں پر فرض ہے۔(3) info

(1) مراد یہی خوف کی نماز ہے اس میں چونکہ تخفیف کر دی گئی ہے، اس لئے اس کی تلافی کے لئے کہا جا رہا ہے کہ کھڑے، بیٹھے، لیٹے اللہ کا ذکر کرتے رہو۔
(2) اس سے مراد ہے کہ جب خوف اور جنگ کی حالت ختم ہو جائے تو پھر نماز کو اس کے اس طریقے کے مطابق پڑھنا ہے جو عام حالات میں پڑھی جاتی ہے۔
(3) اس میں نماز کو مقرر وقت میں پڑھنے کی تاکید ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بغیر شرعی عذر کے دو نمازوں کو جمع کرنا صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس طرح کم از کم ایک نماز غیر وقت میں پڑھی جائے گی جو اس آیت کے خلاف ہے۔

التفاسير:

external-link copy
104 : 4

وَلَا تَهِنُوْا فِی ابْتِغَآءِ الْقَوْمِ ؕ— اِنْ تَكُوْنُوْا تَاْلَمُوْنَ فَاِنَّهُمْ یَاْلَمُوْنَ كَمَا تَاْلَمُوْنَ ۚ— وَتَرْجُوْنَ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا یَرْجُوْنَ ؕ— وَكَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا ۟۠

ان لوگوں کا پیچھا کرنے سے ہارے دل ہو کر بیٹھ نہ رہو!(1) اگر تمہیں بے آرامی ہوتی ہے تو انہیں بھی تمہاری طرح بے آرامی ہوتی ہے اور تم اللہ تعالیٰ سے وه امیدیں رکھتے ہو، جو امیدیں انہیں نہیں(2)، اور اللہ تعالیٰ دانا اور حکیم ہے۔ info

(1) یعنی اپنے دشمن کے تعاقب کرنے میں کمزوری مت دکھاؤ، بلکہ ان کی خلاف بھرپور جدوجہد کرو اورگھات لگا کر بیٹھو !۔
(2) یعنی زخم تو تمہیں بھی اورانہیں بھی دونوں کو پہنچے ہیں لیکن ان زخموں پر تمہیں تو اللہ سے اجر کی امید ہے لیکن وہ اس کی امید نہیں رکھتے۔ اس لئے اجر آخرت کے حصول کے لئے جو محنت وکاوش تم کرسکتے ہو، وہ کافر نہیں کر سکتے۔

التفاسير:

external-link copy
105 : 4

اِنَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىكَ اللّٰهُ ؕ— وَلَا تَكُنْ لِّلْخَآىِٕنِیْنَ خَصِیْمًا ۟ۙ

یقیناً ہم نے تمہاری طرف حق کے ساتھ اپنی کتاب نازل فرمائی ہے تاکہ تم لوگوں میں اس چیز کے مطابق فیصلہ کرو جس سے اللہ نے تم کو شناسا کیا ہے(1) اور خیانت کرنے والوں(2) کے حمایتی نہ بنو۔ info

(1) ان آیات (104 سے 113تک) کی شان نزول میں بتلایا گیا ہے کہ انصار کے قبیلہ بنی ظفر میں ایک شخص طعمہ یا بشیر بن ابیرق نے ایک انصاری کے زرہ چرالی، جب اس کا چرچا ہوا اور اس کو اپنی چوری کے بے نقاب ہونے کا خطرہ محسوس ہوا تو اس نے وہ زرہ ایک یہودی کے گھر پھینک دی اوربنی ظفر کے کچھ آدمیوں کو ساتھ لے کر نبی (صلى الله عليه وسلم) کی خدمت میں پہنچ گیا، ان سب نے کہا کہ زرہ چوری کرنے والا فلاں یہودی ہے۔ یہودی نبی (صلى الله عليه وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا کہ بنی ابیرق نے زرہ چوری کر کے میرے گھر پھینک دی ہے۔ بنی ظفر اور بنی ابیرق (طعمہ یا بشیر وغیرہ) ہشیار تھے اور نبی (صلى الله عليه وسلم) کو باور کراتے رہے کہ چور یہودی ہی ہے اور وہ طعمہ پرالزام لگانے میں جھوٹا ہے، نبی (صلى الله عليه وسلم) بھی ان کی چکنی چپڑی باتوں سے متاثر ہوگئے اور قریب تھا کہ اس انصاری کو چوری کے الزام سے بری کر کے یہودی پر چوری کی فرد جرم عائد فرما دیتے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی۔ جس سے ایک بات یہ معلوم ہوئی کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) بھی بہ حیثیت ایک انسان کے غلط فہمی میں پڑ سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ آپ عالم الغیب نہیں تھے، ورنہ آپ (صلى الله عليه وسلم) پر فوراً صورتِ حال واضح ہو جاتی۔ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر (صلى الله عليه وسلم) کی حفاظت فرماتا ہے اور اگر کبھی حق کے پوشیدہ رہ جانے اور اس سے ادھر ادھر ہو جانے کا مرحلہ آجائے تو فوراً اللہ تعالیٰ اسے متنبہ فرما دیتا ہے اور اس کی اصلاح فرما دیتا ہے جیسا کہ عصمت انبیا کا تقاضا ہے۔ یہ وہ مقام عصمت ہے جو انبیا کے علاوہ کسی اور کو حاصل نہیں۔
(2) اس سے مراد وہی بنی ابیرق ہے۔ جنہوں نے چوری خود کی لیکن اپنی چرب زبانی سے یہودی کو چور باور کرانے پر تلے ہوئے تھے۔ اگلے آیات میں بھی ان کے اور ان کے حمایتیوں کےغلط کردار کو نمایاں کرکے نبی (صلى الله عليه وسلم) کو خبردار کیا جا رہا ہے۔

التفاسير: