(1) یعنی فرعون، جس طرح دنیا میں ان کا رہبر اور پیش رو تھا، قیامت والے دن بھی یہ آگے آگے ہی ہوگا اور اپنی قوم کو اپنی قیادت میں جہنم میں لے کر جائے گا۔
(2) وِرْدٌ پانی کے گھاٹ کو کہتے ہیں، جہاں پیاسے جا کر اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ لیکن یہاں جہنم کو ورد کہا گیا ہے۔مَوْرُودٌ وہ مقام یا گھاٹ یعنی جہنم جس میں لوگ لے جائے جائیں گے یعنی جگہ بھی بری اور جانے والے بھی برے۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهَا
(1) لَعْنَۃ سے پھٹکار اور رحمت الٰہی سے دوری و محرومی ہے، گویا دنیا میں بھی وہ رحمت الٰہی سے محروم اور آخرت میں میں بھی اس سے محروم ہی رہیں گے، اگر ایمان نہ لائے۔
(2) رِفْدً انعام اور عطیے کو کہا جاتا ہے۔ یہاں لعنت کو رفد کہا گیا ہے۔ اسی لئے اسے برا انعام قرار دیا گیا مَرْفُوْد وہ انعام جو کسی کو دیا جائے۔ یہ الرفد کی تاکید ہے۔
(1) قائم سے مراد وہ بستیاں، جو اپنی چھتوں پر قائم ہیں اور حَصِیْد بمعنی محصود سے مراد وہ بستیاں جو کٹے ہوئے کھیتوں کی طرح نابود ہوگئیں۔ یعنی جن گزشتہ بستیوں کے واقعات ہم بیان کر رہے ہیں، ان میں سے بعض تو اب بھی موجود ہیں، جن کے آثار و کھنڈرات نشان عبرت ہیں اور بعض بالکل ہی صفہ ہستی سے معدوم ہو گیئں اور ان کا وجود صرف تاریخ کے صفحات پر باقی رہ گیا ہے۔
(1) ان کو عذاب اور ہلاکت سے دو چار کر کے۔
(2) کفر ومعاصی کا ارتکاب کر کے۔
(3) جب کہ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ انہیں نقصان سے بچائیں گے اور فائدہ پہنچائیں گے۔ لیکن جب اللہ کا عذاب آیا تو واضح ہوگیا کہ ان کا یہ عقیدہ فاسد تھا، اور یہ بات ثابت ہوگئی کہ اللہ کے سوا کوئی کسی کو نفع نقصان پہنچانے پر قادر نہیں۔
(1) یعنی جس طرح گزشتہ بستیوں کو اللہ تعالٰی نے تباہ اور برباد کیا، آئندہ بھی وہ ظالموں کی اسی طرح گرفت کرنے پر قادر ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا: «إِنَّ اللهَ لَيُمْلِي لِلظَّالِمِ حَتَّى إِذَا أَخَذَهُ لَمْ يُفْلِتْهُ» ”اللہ تعالٰی یقیناً ظالم کو مہلت دیتا ہے لیکن جب اس کی گرفت کرنے پر آتا ہے تو پھر اس طرح اچانک گرتا ہے کہ پھر مہلت نہیں دیتا“۔
(1) یعنی مواخذہ الٰہی میں یا ان واقعات میں جو عبرت و موعظبت کے لئے بیان کئے گئے ہیں۔
(2) یعنی حساب اور بدلے کے لئے۔
(1) گفتگو نہ کرنے سے مراد، کسی کو اللہ تعالٰی سے کسی طرح کی بات یا شفاعت کرنے کی ہمت نہیں ہوگی۔ الا یہ کہ وہ اجازت دے دے۔ طویل حدیث شفاعت میں ہے۔ رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «وَلا يَتَكَلَّمُ يَوْمَئِذٍ إِلا الرُّسُلُ وَدَعْوَى الرُّسُلِ يَوْمَئِذٍ؛ اللَّهُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ» (صحيح بخاري- كتاب الإيمان، باب فضل السجود، ومسلم، كتاب الإيمان، باب معرفة طريق الرؤية ) ”اس دن انبیاء کے علاوہ کسی کو گفتگو کی ہمت نہ ہوگی اور انبیاء کی زبان پر بھی اس دن صرف یہی ہوگا کہ یا اللہ! ہمیں بچا لے، ہمیں بچا لے“۔
(1) ان الفاظ سے بعض لوگوں کو یہ مغالطہ لگا ہے کہ کافروں کے لئے جہنم کا عذاب دائمی نہیں ہے بلکہ موقت ہے یعنی اس وقت تک رہے گا جب تک آسمان و زمین رہیں گے۔ لیکن یہ بات صحیح نہیں۔ کیونکہ یہاں «مَا دَ امَتِ السِّمٰوٰ تُ وَالْاَرْضُ» اہل عرب کے روز مرہ کی گفتگو اور محاورے کے مطابق نازل ہوا ہے۔ عربوں کی عادت تھی کہ جب کسی چیز کا دوام ثابت کرنا مقصود ہوتا تو وہ کہتے تھےکہ هَذَا دَائِمٌ دَوَامَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ (یہ چیز اسی طرح ہمیشہ رہے گی۔ جس طرح آسمان و زمین کا دوام ہے) اسی محاورے کو قرآن کریم میں استعمال کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اہل کفر و شرک جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ جس کو قرآن نے متعدد جگہ «خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا» کے الفاظ سے ذکر کیا ہے۔ ایک دوسرا مفہوم اس کا یہ بھی بیان کی گیا ہے کہ آسمان و زمین سے مراد جنس ہے۔ یعنی دنیا کے آسمان و زمین اور ہیں جو فنا ہو جائیں گے لیکن آخرت کے آسمان و زمین ان کے علاوہ اور ہوں گے، جیسا کہ قران کریم میں اس کی صراحت ہے، «يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَبَرَزُوْا لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ» (سورۃ ابراہیم:48)، ”اس دن یہ زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی بدل دئیے جائیں گے“۔ اور آخرت کے یہ آسمان وزمین، جنت اور دوزخ کی طرح ہمیشہ رہیں گے۔ اس آیت میں یہی آسمان وزمین مراد ہے نہ کہ دنیا کے آسمان وزمین جو فنا ہو جائیں گے۔ (ابن کثیر) ان دونوں مفہوموں میں سے کوئی بھی مفہوم مراد لے لیا جائے، آیت کا مفہوم واضح ہو جاتا ہے اور وہ اشکال پیدا نہیں ہوتا جو مذکور ہوا۔ امام شوکانی نے اس کے اور بھی کئی مفہوم بیان کیے ہیں جنہیں اہل علم ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ (فتح القدیر)
(2) اس استثناء کے بھی کئی مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ صحیح مفہوم یہی ہے کہ یہ استثناء ان گناہ گاروں کے لئے ہے جو اہل توحید و اہل ایمان ہوں گے۔ اس اعتبار سے اس سے ما قبل آیت میں شَقِی کا لفظ عام یعنی کافر اور عاصی دونوں کو شامل ہوگا اور «إِلا مَا شَاءَ رَبُّكَ» سے عاصی مومنوں کا استثناء ہو جائے گا اور مَا شَآءِ میں مَا، مَنْ کے معنی میں ہے۔
(1) یہ استثناء بھی عصاۃ اہل ایمان کے لئے ہے۔ یعنی دیگر جنتیوں کی طرح یہ نافرمان مومن ہمیشہ سے جنت میں نہیں رہیں ہوں گے، بلکہ ابتدا میں ان کا کچھ عرصہ جہنم میں گزرے گا اور پھر انبیاء اور اہل ایمان کی سفارش سے ان کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا، جیسا کہ احادیث صحیحہ سے یہ باتیں ثابت ہیں۔
(2) غیر مجذوذ کے معنی ہیں غیر مقطوع۔ یعنی نہ ختم ہونے والی عطاء۔ اس جملے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ جن گناہ گاروں کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا، یہ دخول عارضی نہیں، ہمیشہ کے لئے ہوگا اور تمام جنتی ہمیشہ اللہ کی عطاء اور اس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے، اور یہ ہمیشہ کیلئے جاری رہے گا۔ اس میں کبھی انقطاع نہیں ہوگا۔