(1) خُلِّفُوا کا وہی مطلب ہے جو مُرْجَوْنَ کا ہے یعنی جن کا معاملہ مؤخر اور ملتوی کر دیا گیا تھا اور پچاس دن کے بعد ان کی توبہ قبول ہوئی۔ یہ تین صحابہ تھے۔ کعب بن مالک، مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ (رضي الله عنهم) یہ تینوں نہایت مخلص مسلمان تھے۔ اس سے قبل ہر غزوے میں شریک ہوتے رہے۔ اس غزوہ تبوک میں صرف تساہلاً شریک نہیں ہوئے بعد میں انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا، تو سوچا کہ ایک غلطی (پیچھے رہنے کی) تو ہو ہی گئی ہے۔ لیکن اب منافقین کی طرح رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کی خدمت میں جھوٹا عذر پیش کرنے کی غلطی نہیں کریں گے۔ چنانچہ حاضر خدمت ہو کر اپنی غلطی کا صاف اعتراف کر لیا اور اس کی سزا کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے انکے معاملے کو اللہ تعالٰی کے سپرد کر دیا کہ وہ ان کے بارے میں کوئی حکم نازل فرمائے گا تاہم اس دوران صحابہ کرام (رضي الله عنهم) کو ان تینوں افراد سے تعلق قائم رکھنے حتٰی کے بات چیت تک کرنے سے روک دیا اور چالیس راتوں کے بعد انہیں حکم دیا گیا کہ وہ اپنی بیویوں سے بھی دور رہیں مزید دس دن گزرے تو توبہ قبول کر لی گئی اور مذکورہ آیت نازل ہوئی (اس واقعہ کی پوری تفصیل حضرت کعب بن مالک رضي الله عنه سے مروی حدیث میں موجود ہے)۔ ملاحظہ ہو ،(صحیح بخاری، کتاب المغازی باب غزوة تبوک۔ مسلم کتاب التوبة، باب حدیث توبة کعب بن مالک)
(2) یہ ان ایام کی کیفیت کا بیان ہے۔ جس سے سوشل بائیکاٹ کی وجہ سے انہیں گزرنا پڑا۔
(3) یعنی پچاس دن کے بعد اللہ نے ان کی آہ و زاری اور توبہ قبول فرمائی۔
(1) سچائی ہی کی وجہ سے اللہ تعالٰی نے ان تینوں صحابہ کی غلطی نہ صرف معاف فرما دی بلکہ ان کی توبہ کو قرآن بنا کر نازل فرما دیا۔ رضي الله عنهم ورضوا عنہ۔ اس لئے مومنین کو حکم دیا گیا کہ اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو۔ اس کا مطلب یہ ہی کہ جس کے اندر تقوٰی (یعنی اللہ کا خوف) ہوگا، وہ سچا بھی ہوگا اور جو جھوٹا ہوگا، سمجھ لو کہ اس کا دل تقویٰ سے خالی ہے۔ اسی لئے حدیث میں آتا ہے کہ مومن سے کچھ اور کوتاہیوں کا صدور تو ہو سکتا ہے لیکن وہ جھوٹا نہیں ہوتا۔
(1) جنگ تبوک میں شرکت کے لئے چونکہ عام منادی کر دی گئی تھی، اس لئے معذورین، بوڑھے اور دیگر شرعی عذر رکھنے والوں کے علاوہ۔ سب کے لئے اس میں شرکت ضروری تھی لیکن پھر بھی جو سکان مدینہ یا اطراف مدینہ میں اس جہاد میں شریک نہیں ہوئے۔ اللہ تعالٰی ان کو زجر و توبیخ کرتے ہوئے فرما رہا ہے کہ ان کو رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) سے پیچھے نہیں رہنا چاہیے تھا۔
(2) یعنی یہ بھی ان کے لئے زیبا نہیں کہ خود اپنی جانوں کا تحفظ کرلیں اور رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) کی جان کے تحفظ کا انہیں خیال نہ ہو۔ بلکہ انہیں رسول کے ساتھ رہ کر اپنے سے زیادہ ان کی تحفظ کا اہتمام کرنا چاہئے۔
(3) ذَلِكَ سے پیچھے نہ رہنے کی علت بیان کی جا رہی ہے۔ یعنی انہیں اس لئے پیچھے نہیں رہنا چایئے کہ اللہ کی راہ میں انہیں جو پیاس، تھکاوٹ، بھوک پہنچے گی یا ایسے اقدام، جن سے کافروں کے غیظ و غضب میں اضافہ ہوگا، اسی طرح دشمنوں کے آدمیوں کو قتل یا ان کو قیدی بناؤ گے، یہ سب کے سب کام عمل صالح لکھے جائیں گے یعنی عمل صالح صرف یہی نہیں ہے کہ آدمی مسجد میں یا کسی ایک گوشے میں بیٹھ کر نوافل، تلاوت، ذکر الٰہی وغیرہ کرے بلکہ جہاد میں پیش آنے والی ہر تکلیف اور پریشانی، حتیٰ کہ وہ کاروائیاں بھی جن سے دشمن کے دلوں میں خوف پیدا ہو یا غیظ بھڑکے، ان میں سے ہر ایک چیز اللہ کے ہاں عمل صالح لکھی جائے گی، اس لئے محض شوق عبادت میں بھی جہاد سے گریز صحیح نہیں، چہ جائے کہ بغیر عذر کے ہی آدمی جہاد سے جی چرائے؟
(4) اس سے مراد پیادہ، یا گھوڑوں وغیرہ پر سوار ہو کر ایسے علاقوں سے گزرنا ہے کہ ان کے قدموں کی چابوں اور گھوڑوں کی ٹاپوں سے دشمن کے دلوں پر لرزہ طاری ہو جائے اور ان کی آتش غیظ بھڑک اٹھے۔
(5) «وَلا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلا» (التوبة: 120) ”دشمن سے کوئی چیز لیتے ہیں یا ان کی خبر لیتے ہیں“ سے مراد، ان کے آدمیوں کو قتل یا قیدی کرتے ہیں یا انہیں شکست سے دو چار کرتے اور مال غنیمت حاصل کرتے ہیں۔
(1) پہاڑوں کے میدان اور پانی کی گزرگاہ کو وادی کہتے ہیں۔ مراد یہاں مطلق وادیاں اور علاقے ہیں۔ یعنی اللہ کی راہ میں تھوڑا یا زیادہ جتنا بھی خرچ کرو گے اسی طرح جتنے بھی میدان طے کرو گے، (یعنی جہاد میں تھوڑا یا زیادہ سفر کرو گے) یہ سب نیکیاں تمہارے نامہ اعمال میں درج ہونگی جن پر اللہ تعالٰی اچھا سے اچھا بدلہ عطا فرمائے گا۔
(1) بعض مفسرین کے نزدیک اس کا تعلق بھی حکم جہاد سے ہے۔ اور مطلب یہ کہ پچھلی آیت میں جب پیچھے رہنے والوں کے لئے سخت وعید اور لعنت ملامت بیان کی گئی تو صحابہ کرام (رضي الله عنهم) بڑے محتاط ہوگئے اور جب بھی جہاد کا مرحلہ آتا تو سب کے سب اس میں شریک ہونے کی کوشش کرتے۔ آیت میں انہیں حکم دیا گیا ہر جہاد اس نوعیت کا نہیں ہوتا کہ جس میں ہر شخص کی شرکت ضروری ہو (جیسا کہ تبوک میں ضروری تھا) بلکہ گروہ کی ہی شرکت کافی ہے۔ ان کے نزدیک ”لِيَتَفَقَّهُوا“ کا مخاطب پیچھے رہ جانے ولاا طائفہ ہے۔ یعنی ایک گروہ جہاد پر چلا جائے ”وَتَبْقَى طَائِفَةٌ“ (یہ مخذوف ہوگا) اور ایک گروہ پیچھے رہے، جو دین کا علم حاصل کرے۔ اور جب مجاہدین واپس آئیں تو انہیں بھی احکام دین سے آگاہ کر کے انہیں ڈرائیں۔ دوسری تفسیر اس کی یہ ہے کہ اس آیت کا تعلق جہاد سے نہیں ہے بلکہ اس میں علم دین سیکھنے کی اہمیت کا بیان، اس کی ترغیب اور طریقے کی وضاحت ہے اور وہ یہ کہ ہر بڑی جماعت یا قبیلے میں سےکچھ لوگ دین کا کا علم حاصل کرنے کے لیے اپنا گھربار چھوڑیں اور مدارس ومراکز علم میں جا کر اسے حاصل کریں اور پھر آکر اپنی قوم میں وعظ ونصیحت کریں۔ دین میں تفقہ حاصل کرنے کا مطلب اوامرونواہی کا علم حاصل کرنا ہے تاکہ اوامر الہی کو بجا لاسکے اور نواہی سے دامن کشاں رہے اور اپنی قوم کے اندر بھی امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دے۔