ការបកប្រែអត្ថន័យគួរអាន - ការបកប្រែជាភាសាអ៊ូរឌូ - ម៉ូហាំម៉ាត់ ជូណាគ្រី

លេខ​ទំព័រ:close

external-link copy
121 : 7

قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۟ۙ

کہنے لگے کہ ہم ایمان ﻻئے رب العالمین پر۔(1) info

(1) جادوگروں نے جو جادو کے فن اور اس کی اصل حقیقت کو جانتے تھے، یہ دیکھا تو سمجھ گئے کہ موسیٰ (عليه السلام) نے جو کچھ یہاں پیش کیا ہے، جادو نہیں ہے، یہ واقعی اللہ کا نمائندہ ہےاور اللہ کی مدد سے ہی اس نے یہ معجزہ پیش کیا ہے۔ جس نے آن واحد میں ہم سب کے کرتبوں پر پانی پھیر دیا۔ چنانچہ انہوں نے موسیٰ (عليه السلام) پر ایمان لانے کا اعلان کر دیا۔ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ باطل، باطل ہے چاہے اس پر کتنے ہی حسین غلاف چڑھا لیے جائیں اور حق، حق ہے چاہے اس پر کتنے ہی پردے ڈال دیئے جائیں ، تاہم حق کا ڈنکا بج کر رہتا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
122 : 7

رَبِّ مُوْسٰی وَهٰرُوْنَ ۟

جو موسیٰ اور ہارون کا بھی رب ہے۔(1) info

(1) سجدے میں گر کر انہوں نے رب العالمین پر ایمان لانے کا اعلان کیا جس سے فرعونیوں کو مغالطہ ہوسکتا تھا کہ یہ سجدہ فرعون کو کیا گیا ہے جس کی الوہیت کے وہ قائل تھے، اس لیے انہوں نے موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کا رب کہہ کر واضح کر دیا کہ یہ سجدہ ہم جہانوں کے رب کو ہی کر رہے ہیں ۔ لوگوں کے خود ساختہ کسی رب کو نہیں۔

التفاسير:

external-link copy
123 : 7

قَالَ فِرْعَوْنُ اٰمَنْتُمْ بِهٖ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَكُمْ ۚ— اِنَّ هٰذَا لَمَكْرٌ مَّكَرْتُمُوْهُ فِی الْمَدِیْنَةِ لِتُخْرِجُوْا مِنْهَاۤ اَهْلَهَا ۚ— فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ۟

فرعون کہنے لگا کہ تم موسیٰ پر ایمان ﻻئے ہو بغیر اس کے کہ میں تم کو اجازت دوں؟ بےشک یہ سازش تھی جس پر تمہارا عمل درآمد ہوا ہے اس شہر میں تاکہ تم سب اس شہر سے یہاں کے رہنے والوں کو باہر نکال دو۔ سو اب تم کو حقیقت معلوم ہوئی جاتی ہے۔(1) info

(1) یہ جو کچھ ہوا، فرعون کے لیے بڑا حیران کن اور تعجب خیز تھا، اس لیے اسے اور تو کچھ نہیں سوجھا، اس نے یہی کہہ دیا کہ تم سب آپس میں ملے ہوئے ہو اور اس کا مقصد ہمارے اقتدار کا خاتمہ ہے۔ اچھا! اس کا انجام عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا۔

التفاسير:

external-link copy
124 : 7

لَاُقَطِّعَنَّ اَیْدِیَكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ مِّنْ خِلَافٍ ثُمَّ لَاُصَلِّبَنَّكُمْ اَجْمَعِیْنَ ۟

میں تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹوں گا۔ پھر تم سب کو سولی پر لٹکا دوں گا۔(1) info

(1) یعنی دایاں پاؤں اور بایاں ہاتھ یا بایاں پاؤں اور دایاں ہاتھ، پھر یہی نہیں،سولی پر چڑھا کر تمہیں نشان عبرت بھی بنا دوں گا۔

التفاسير:

external-link copy
125 : 7

قَالُوْۤا اِنَّاۤ اِلٰی رَبِّنَا مُنْقَلِبُوْنَ ۟ۚ

انہوں نے جواب دیا کہ ہم (مر کر) اپنے مالک ہی کے پاس جائیں گے۔(1) info

(1) اس کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ اگر تو ہمارے ساتھ ایسا معاملہ کرے گا تو تجھے بھی اس بات کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ تجھے اس جرم کی سخت سزا دے گا، اس لیے کہ ہم سب کو مرکر اسی کے پاس جانا ہے، اس کی سزا سے کون بچ سکتا ہے؟ گویا فرعون کے عذاب دنیا کے مقابلے میں اسے عذاب آخرت سے ڈرایا گیا ہے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ موت تو ہمیں آنی ہی آنی ہے، اس سے کیا فرق پڑے گا کہ موت سولی پر آئے یا کسی اور طریقے سے؟

التفاسير:

external-link copy
126 : 7

وَمَا تَنْقِمُ مِنَّاۤ اِلَّاۤ اَنْ اٰمَنَّا بِاٰیٰتِ رَبِّنَا لَمَّا جَآءَتْنَا ؕ— رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّتَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ ۟۠

اور تو نے ہم میں کونسا عیب دیکھا ہے بجز اس کے کہ ہم اپنے رب کے احکام پر ایمان لے آئے(1) ، جب وه ہمارے پاس آئے۔ اے ہمارے رب! ہمارے اوپر صبر کا فیضان فرما(2) اور ہماری جان حالت اسلام پر نکال۔(3) info

(1) یعنی تیرے نزدیک ہمارا یہی عیب ہے ۔ جس پر تو ہم سے ناراض ہوگیا ہے اور ہمیں سزا دینے پر تل گیا ہے۔ دراں حالیکہ یہ سرے سے عیب ہی نہیں ہے۔ یہ تو خوبی ہے، بہت بڑی خوبی، کہ جب حقیقت ہمارے سامنے واضح ہوکر آگئی تو ہم نے اس کے مقابلے میں تمام دنیاوی مفادات ٹھکرا دیئے اور حقیقت کو اپنا لیا۔ پھر انہوں نے اپنا روئے سخن فرعون سے پھیر کر اللہ کی طرف کرلیا اور اس کی بارگاہ میں دست بدعا ہوگئے۔
(2) تاکہ ہم تیرے اس دشمن کے عذاب کو برداشت کر لیں، اور حق میں متصلب اور ایمان پر ثابت قدم رہیں۔
(3) اس دنیاوی آزمائش سے ہمارے اندر ایمان سے انحراف آئے نہ کسی اور فتنے میں ہم مبتلا ہوں۔

التفاسير:

external-link copy
127 : 7

وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰی وَقَوْمَهٗ لِیُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَیَذَرَكَ وَاٰلِهَتَكَ ؕ— قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبْنَآءَهُمْ وَنَسْتَحْیٖ نِسَآءَهُمْ ۚ— وَاِنَّا فَوْقَهُمْ قٰهِرُوْنَ ۟

اور قوم فرعون کے سرداروں نے کہا کہ کیا آپ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کو یوں ہی رہنے دیں گے کہ وه ملک میں فساد کرتے پھریں(1) ، اور وه آپ کو اور آپ کے معبودوں کو ترک کئے رہیں(2)۔ فرعون نے کہا کہ ہم ابھی ان لوگوں کے بیٹوں کو قتل کرنا شروع کر دیں گے اور عورتوں کو زنده رہنے دیں گے اور ہم کو ان پر ہر طرح کا زور ہے۔(3) info

(1) یہ ہر دور کے مفسدین کا شیوہ رہا ہے کہ وہ اللہ والوں کو فسادی اور ان کی دعوت ایمان وتوحید کو فساد سے تعبیر کرتے ہیں۔ فرعونیوں نے بھی یہی کہا۔
(2) فرعون کو بھی اگرچہ دعوائے ربوبیت تھا ”فَقَالَ أَنَا۠ رَبُّكُمُ ٱلۡأَعۡلَىٰ“ [النازعات: 24]. ”میں تمہارا بڑا رب ہوں“ (وہ کہا کرتا تھا) لیکن دوسرے چھوٹے چھوٹے معبود بھی تھے جن کے ذریعے سے لوگ فرعون کا تقرب حاصل کرتے تھے ۔
(3) ہمارے اس انتظام میں یہ رکاوٹ نہیں ڈال سکتے۔ قتل ابناء کا یہ پروگرام فرعونیوں کے کہنے سے بنایا گیا اس سے قبل بھی، جب موسیٰ علیہ السلام کی ولادت نہیں ہوئی تھی، موسیٰ علیہ السلام کے بعد از ولادت خاتمے کے لیے اس نے بنی اسرائیل کے نومولود بچوں کو قتل کرنا شروع کیا تھا، اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی ولادت کے بعد ان کو بچانے کی یہ تدبیر کی کہ موسیٰ علیہ السلام کو خود فرعون کے محل میں پہنچوا کر اسی کی گود میں ان کی پرورش کروائی۔

التفاسير:

external-link copy
128 : 7

قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِهِ اسْتَعِیْنُوْا بِاللّٰهِ وَاصْبِرُوْا ۚ— اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ ۙ۫— یُوْرِثُهَا مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ ؕ— وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ ۟

موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا اللہ تعالیٰ کا سہارا حاصل کرو اور صبر کرو، یہ زمین اللہ تعالیٰ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے وه مالک بنا دے اور اخیر کامیابی ان ہی کی ہوتی ہے جو اللہ سے ڈرتے ہیں۔(1) info

(1) جب فرعون کی طرف سے دوبارہ اس ظلم کا آغاز ہوا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ سے مدد حاصل کرنے اور صبر کرنے کی تلقین کی اور تسلی دی کہ اگر تم صحیح رہے تو زمین کا اقتدار بالآخر تمہیں ہی ملے گا۔

التفاسير:

external-link copy
129 : 7

قَالُوْۤا اُوْذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِیَنَا وَمِنْ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا ؕ— قَالَ عَسٰی رَبُّكُمْ اَنْ یُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَیَسْتَخْلِفَكُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ كَیْفَ تَعْمَلُوْنَ ۟۠

قوم کے لوگ کہنے لگے کہ ہم تو ہمیشہ مصیبت ہی میں رہے، آپ کی تشریف آوری سے قبل بھی(1) اور آپ کی تشریف آوری کے بعد بھی(2)۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ بہت جلد اللہ تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے گا اور بجائے ان کے تم کو اس سرزمین کا خلیفہ بنا دے گا پھر تمہارا طرز عمل دیکھے گا۔(3) info

(1) یہ اشارہ ہے ان مظالم کی طرف جو ولادت موسیٰ علیہ السلام سے قبل ان پر ہوتے رہے۔ (2) جادوگروں کے واقعے کے بعد ظلم وستم کا یہ نیا دور ہے، جو موسیٰ علیہ السلام کے آنے کے بعد شروع ہوا۔
(3) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تسلی دی کہ گھبراؤ نہیں، بہت جلد اللہ تمہارے دشمن کو ہلاک کرکے، زمین میں تمہیں اقتدار عطا فرمائے گا۔ اور پھر تمہاری آزمائش کا ایک نیا دور شروع ہوگا۔ ابھی تو تکلیفوں کے ذریعے سے آزمائے جارہے ہو، پھر انعام واکرام کی بارش کرکے اور اختیار واقتدار سے بہرہ مند کرکے تمہیں آزمایا جائے گا۔

التفاسير:

external-link copy
130 : 7

وَلَقَدْ اَخَذْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَنَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ ۟

اور ہم نے فرعون والوں کو مبتلا کیا قحط سالی میں اور پھلوں کی کم پیداواری میں، تاکہ وه نصیحت قبول کریں۔(1) info

(1) ”آلَ فِرْعَوْنَ“ سے مراد، فرعون کی قوم ہے۔ اور ”سِنِينَ“ سے قحط سالی۔ یعنی بارش کے فقدان اور درختوں میں کیڑے وغیرہ لگ جانے سے پیداوار میں کمی۔ مقصد اس آزمائش سے یہ تھا کہ اس ظلم اور استکبار سے باز آجائیں جس میں وہ مبتلا تھے۔

التفاسير: