ការបកប្រែអត្ថន័យគួរអាន - ការបកប្រែជាភាសាអ៊ូរឌូ - ម៉ូហាំម៉ាត់ ជូណាគ្រី

លេខ​ទំព័រ:close

external-link copy
31 : 29

وَلَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ بِالْبُشْرٰی ۙ— قَالُوْۤا اِنَّا مُهْلِكُوْۤا اَهْلِ هٰذِهِ الْقَرْیَةِ ۚ— اِنَّ اَهْلَهَا كَانُوْا ظٰلِمِیْنَ ۟ۚۖ

اور جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس بشارت لے کر پہنچے کہنے لگے کہ اس بستی والوں کو ہم ہلاک کرنے والے ہیں(1) ، یقیناً یہاں کے رہنے والے گنہگار ہیں. info

(1) یعنی حضرت لوط (عليه السلام) کی دعا قبول فرمالی گئی اور اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو ہلاک کرنے کے لیے بھیج دیا۔ وہ فرشتے پہلے حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے پاس گئے اور انہیں اسحاق (عليه السلام) ویعقوب (عليه السلام) کی خوش خبری دی اور ساتھ ہی بتلایا کہ ہم لوط (عليه السلام) کی بستی ہلاک کرنے آئے ہیں۔

التفاسير:

external-link copy
32 : 29

قَالَ اِنَّ فِیْهَا لُوْطًا ؕ— قَالُوْا نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَنْ فِیْهَا ؗ— لَنُنَجِّیَنَّهٗ وَاَهْلَهٗۤ اِلَّا امْرَاَتَهٗ ؗ— كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ ۟

(حضرت ابراہیم علیہ السلام نے) کہا اس میں تو لوط (علیہ السلام) ہیں، فرشتوں نے کہا یہاں جو ہیں ہم انہیں بخوبی جانتے ہیں(1) ۔ لوط (علیہ السلام) کو اور اس کے خاندان کو سوائے اس کی بیوی کے ہم بچالیں گے، البتہ وه عورت پیچھے ره جانے والوں میں سے ہے.(2) info

(1) یعنی ہمیں علم ہے کہ اخیار اور مومن کون ہیں اور اشرار کون؟۔
(2) یعنی ان پیچھے رہ جانے والوں میں سے، جن کو عذاب کے ذریعے سے ہلاک کیا جانا ہے وہ چونکہ مومنہ نہیں تھی بلکہ اپنی قوم کی طرف دار تھی، اس لیے اسے بھی ہلاک کر دیا گیا۔

التفاسير:

external-link copy
33 : 29

وَلَمَّاۤ اَنْ جَآءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِیْٓءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَّقَالُوْا لَا تَخَفْ وَلَا تَحْزَنْ ۫— اِنَّا مُنَجُّوْكَ وَاَهْلَكَ اِلَّا امْرَاَتَكَ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ ۟

پھر جب ہمارے قاصد لوط (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو وه ان کی وجہ سے غمگین ہوئے اور دل ہی دل میں رنج کرنے لگے(1) ۔ قاصدوں نے کہا آپ نہ خوف کھایئے نہ آزرده ہوں، ہم آپ کو مع آپ کے متعلقین کے بچالیں گے مگر آپ کی(2) بیوی کہ وه عذاب کے لیے باقی ره جانے والوں میں سے ہوگی. info

(1) سِيءَ بِهِمْ کے معنی ہیں۔ ان کے پاس ایسی چیز آئی جو انہیں بری لگی اور اس سے ڈر گئے۔ اس لیے کہ لوط (عليه السلام) نے ان فرشتوں کو، جو انسانی شکل میں آئے تھے، انسان ہی سمجھا۔ ڈرے اپنی قوم کی عادت بد اور سرکشی کی وجہ سے کہ ان خوبصورت مہمانوں کی آمد کا علم اگر انہیں ہوگیا تو وہ ان سے زبردستی بےحیائی کا ارتکاب کریں گے، جس سے میری رسوائی ہوگی۔ ضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا یہ کنایہ ہے عاجزی سے۔ جیسے ضَاقَتْ يَدُهُ (ہاتھ کا تنگ ہونا) کنایہ ہے فقر سے۔ یعنی ان خوش شکل مہمانوں کو بدخصلت قوم سے بچانے کی کوئی تدبیر انہیں نہیں سوجھی، جس کی وجہ سے وہ غمگین اور دل ہی دل میں پریشان تھے۔
(2) فرشتوں نے حضرت لوط (عليه السلام) کی اس پریشانی اور غم وحزن کی کیفیت کو دیکھا تو انہیں تسلی دی، اور کہا کہ آپ کوئی خوف اور حزن نہ کریں، ہم اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں۔ ہمارا مقصد آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو، سوائے آپ کی بیوی کے، نجات دلانا ہے۔

التفاسير:

external-link copy
34 : 29

اِنَّا مُنْزِلُوْنَ عَلٰۤی اَهْلِ هٰذِهِ الْقَرْیَةِ رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ ۟

ہم اس بستی والوں پر آسمانی عذاب نازل کرنے والے ہیں(1) اس وجہ سے کہ یہ بےحکم ہو رہے ہیں. info

(1) اس آسمانی عذاب سے وہی عذاب مراد ہے جس کے ذریعے سے قوم لوط کو ہلاک کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ جبرائیل (عليه السلام) نے ان کی بستیوں کو زمین سے اکھیڑا آسمان کی بلندیوں تک لے گئے، پھر ان کو ان ہی پر الٹا دیا گیا، اس کے بعد کھنگر پتھروں کی بارش ان پر ہوئی اور اس جگہ کو سخت بدبودار بحیرہ (چھوٹے سمندر) میں تبدیل کر دیا گیا۔ (ابن کثیر)

التفاسير:

external-link copy
35 : 29

وَلَقَدْ تَّرَكْنَا مِنْهَاۤ اٰیَةً بَیِّنَةً لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ۟

البتہ ہم نے اس بستی کو صریح عبرت کی نشانی بنا دیا(1) ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں.(2) info

(1) یعنی پتھروں کے وہ آثار، جن کی بارش ان پر ہوئی سیاہ بدبودار پانی اور الٹی ہوئی بستیاں، یہ سب عبرت کی نشانیاں ہیں۔ مگر کن کے لیے؟ دانش مندوں کے لیے۔
(2) اس لیے کہ وہی معاملات پر غور کرتے، اسباب وعوامل کا تجزیہ کرتے اور نتائج وآثار کو دیکھتے ہیں لیکن جو لوگ عقل وشعور سے بےبہرہ ہوتے ہیں، انہیں ان چیزوں سے کیا تعلق؟ وہ تو ان جانوروں کی طرح ہیں جنہیں ذبج کے لیے بوچڑ خانے لے جایا جاتا ہے لیکن انہیں اس کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ اس میں مشرکین مکہ کے لیے بھی تعریض ہے کہ وہ بھی تکذیب کا مظاہرہ کر رہے ہیں جو عقل ودانش سے بےبہرہ لوگوں کا وطیرہ ہے۔

التفاسير:

external-link copy
36 : 29

وَاِلٰی مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا ۙ— فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَارْجُوا الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ ۟

اور مدین کی طرف(1) ہم نے ان کے بھائی شعیب (علیہ السلام) کو بھیجا انہوں نے کہا اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو قیامت کے دن کی توقع رکھو(2) اور زمین میں فساد نہ کرتے پھرو.(3) info

(1) مدین حضرت ابراہیم (عليه السلام) کے بیٹے کا نام تھا، بعض کے نزدیک یہ ان کے پوتے کا نام ہے، بیٹے کا نام مدیان تھا۔ ان ہی کے نام پر اس قبیلے کا نام پڑ گیا، جو ان ہی کی نسل پر مشتمل تھا۔ اسی قبیلہ مدین کی طرف حضرت شعیب (عليه السلام) کو نبی بنا کر بھیجا گیا۔ بعض کہتے ہیں کہ مدین شہر کا نام تھا، یہ قبیلہ یا شہر لوط (عليه السلام) کی بستی کے قریب ہی تھا۔
(2) اللہ کی عبادت کے بعد، انہیں آخرت کی یاد دہانی کرائی گئی یا تو اس لیے کہ وہ آخرت کے منکر تھے یا اس لیے کہ وہ اسے فراموش کیے ہوئے تھے اور معصیتوں میں مبتلا تھے اور جو قوم آخرت کو فراموش کر دے، وہ گناہوں میں دلیر ہوتی ہے۔ جیسے آج مسلمانوں کی اکثریت کا حال ہے۔
(3) ناپ تول میں کمی اور لوگوں کو کم دینا، یہ بیماری ان میں عام تھی اور ارتکاب معاصی میں بھی انہیں باک نہیں تھا، جس سے زمین فساد سے بھر گئی تھی۔

التفاسير:

external-link copy
37 : 29

فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ ۟ؗ

پھر بھی انہوں نے انہیں جھٹلایا آخر انہیں زلزلے نے پکڑ لیا اور وه اپنے گھروں میں بیٹھے کے بیٹھے مرده ہو کر ره گئے.(1) info

(1) حضرت شعیب (عليه السلام) کے وعظ ونصیحت کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا بالآخر بادلوں کے سائے والے دن، جبرائیل (عليه السلام) کی ایک سخت چیخ سے زمین زلزلے سے لرز اٹھی، جس سے ان کے دل ان کی آنکھوں میں آگئے اور ان کی موت واقع ہوگئی اور وہ گھٹنوں کے بل بیٹھے کے بیٹھے رہ گئے۔

التفاسير:

external-link copy
38 : 29

وَعَادًا وَّثَمُوْدَاۡ وَقَدْ تَّبَیَّنَ لَكُمْ مِّنْ مَّسٰكِنِهِمْ ۫— وَزَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَكَانُوْا مُسْتَبْصِرِیْنَ ۟ۙ

اور ہم نے عادیوں اور ﺛمودیوں کو بھی غارت کیا جن کے بعض مکانات تمہارے سامنے ﻇاہر ہیں(1) اور شیطان نے انہیں ان کی بداعمالیاں آراستہ کر دکھائی تھیں اور انہیں راه سے روک دیا تھا باوجودیکہ یہ آنکھوں والے اور ہوشیار تھے.(2) info

(1) قوم عاد کی بستی۔ احقاف، حضر موت (یمن) کے قریب اور ثمود کی بستی، حجر، جسے آج کل مدائن صالح کہتے ہیں، حجاز کے شمال میں ہے۔ ان علاقوں سے عربوں کے تجارتی قافلے آتے جاتے تھے، اس لیے یہ بستیاں ان کے لیے انجان نہیں، بلکہ ظاہر تھیں۔
(2) یعنی تھے وہ عقل مند اور ہوشیار۔ لیکن دین کے معاملے میں انہوں نے اپنی عقل و بصیرت سے کچھ کام نہیں لیا، اس لیے یہ عقل اور سمجھ ان کے کام نہ آئی۔

التفاسير: