(1) یعنی ایسی چیزوں سے اللہ کی پاکیزگی جو اس کے لائق نہیں ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلى الله عليه وسلم) اس کے جواب میں پڑھا کرتے تھے، سُبْحَانَ رَبِّيَ الأَعْلَى (مسند أحمد، 1/ 232 ۔ أبو داود، كتاب الصلاة، باب الدعاء في الصلاة، وقال الألباني صحيح ) ۔
(1) یعنی نیکی اور بدی کی۔ اس طرح ضروریات زندگی کی۔ یہ ہدایت حیوانات کو بھی عطا فرمائی۔ قَدَرٌ کا مفہوم ہے۔ اشیا کی جنسوں، ان کی انواع وصفات اور خصوصیات کا اندازہ فرما کر انسان کی بھی ان کی طرف رہنمائی فرما دی تاکہ انسان ان سے استفادہ کر سکے۔
(1) حضرت جبرائیل (عليه السلام) وحی لے کر آتے تو آپ اسے جلدی جلدی پڑھتے تاکہ بھول نہ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اس طرح جلدی نہ کریں۔ نازل شدہ وحی ہم آپ کو پڑھوائیں گے یعنی آپ کی زبان پر جاری کر دیں گے، پس آپ اسے بھولیں گے نہیں۔ مگر جسے اللہ چاہے گا، لیکن اللہ نے ایسا نہیں چاہا، اس لئے آپ کو سب کچھ یاد ہی رہا۔ بعض نے کہا کہ اس کا مفہوم ہے کہ جن کو اللہ منسوخ کرنا چاہے گا وہ آپ کو بھلوا دے گا۔ ( فتح القدیر ) ۔
(1) یہ عام ہے، جہر قرآن کا وہ حصہ بھی ہے جسے رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم) یاد کر لیں، اور جو آپ کے سینے سے محو کر دیا جائے، وہ مخفی ہے۔ اس طرح جہر اونچی آواز سےپڑھے، خفی پست آواز سےپڑھے، خفی، چھپ کر عمل کرے اور جہر ظاہر، ان سب کو اللہ جانتا ہے۔
(1) یہ بھی عام ہے۔ مثلاً آپ پر وحی آسان کر دیں گے تاکہ اس کو یاد کرنا اور اس پر عمل کرنا آسان ہو جائے۔ ہم آپ کی اس طریقے کی طرف رہنمائی کریں گے جو آسان ہوگا۔ ہم جنت والا عمل آپ کے لئے آسان کر دیں گے، ہم آپ کے لئے ایسے افعال واقوال آسان کر دیں گے جن میں خیر ہو اور ہم آپ کے لئے ایسی شریعت مقرر کریں گے، جو سہل، مستقیم اور متعدل ہوگی، جس میں کوئی کجی، عسر اور تنگی نہیں ہوگی۔
(1) یعنی وعظ ونصیحت وہاں کریں جہاں محسوس ہو کہ فائدہ مند ہوگی۔ یہ وعظ ونصیحت اور تعلیم کے لئے ایک اصول اور ادب بیان فرما دیا۔ ( ابن کثیر ) امام شوکانی کے نزدیک مفہوم یہ ہے کہ آپ نصیحت کرتے رہیں، چاہے فائدہ دے یا نہ دے۔ کیونکہ انذار وتبلیغ دونوں صورتوں میں آپ کے لئے ضروری تھی۔ یعنی أَوْ لَمْ تَنْفَعْ یہاں محذوف ہے۔
(1) ان کے برعکس جو لوگ صرف اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے لئے عارضی طور پر جہنم میں رہ گئے ہوں گے انہیں اللہ تعالیٰ ایک طرح کی موت دے دے گا۔ حتیٰ کہ وہ آگ میں جل کر کوئلہ ہو جائیں گے، پھر اللہ تعالیٰ انبیا وغیرہ کی سفارش سے ان کو گروہوں کی شکل میں نکالے گا، ان کو جنت کی نہر میں ڈالا جائے گا، جنتی بھی ان پر پانی ڈالیں گے، جس سے وہ اس طرح جی اٹھیں گے جیسے سیلاب کے کوڑے پردانہ اگ آتا ہے ۔ (صحيح مسلم، كتاب الإيمان، باب إثبات الشفاعة وإخراج الموحدين من النار)۔