(1) یعنی ایسے لوگوں کی تو قدر افزائی کی ضرورت ہے نہ کہ ان سے بےرخی برتنے کی۔ ان آیات سے یہ بات معلوم ہوئی کہ دعوت وتبلیغ میں کسی کو خاص نہیں کرنا چاہئے بلکہ اصحاب حیثیت اور بےحیثیت، امیر اور غریب، آقا وغلام، مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے سب کو یکساں حیثیت دی جائے اور سب کو مشترکہ خطاب کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا اپنی حکمت بالغہ کے تحت، ہدایت سے نواز دے گا۔ ( ابن کثیر ) ۔
(1) سَفَرَةٍ، سَافِرٌ کی جمع ہے، یہ سفارت سے ہے۔ مراد یہاں وہ فرشتے ہیں جو اللہ کی وحی اس کےرسولوں تک پہنچاتے ہیں۔ یعنی اللہ اور اس کےرسول کے درمیان سفارت کا کام کرتے ہیں۔ یہ قرآن ایسے سفیروں کے ہاتھوں میں ہےجو اسے لوح محفوظ سے نقل کرتے ہیں۔
(1) یعنی خلق کے اعتبار سے وہ کریم یعنی شریف اور بزرگ ہیں اور افعال کے اعتبار سے وہ نیکو کار اور پاکباز ہیں۔ یہاں سے یہ بات معلوم ہوئی کہ حامل قرآن ( حافظ اور عالم ) کو بھی اخلاق وکردار اور افعال واطوار میں كِرَامٍ بَرَرَةٍ کا مصداق ہونا چاہئے۔ (ابن کثیر) حدیث میں بھی سَفَرَةٍ کا لفظ فرشتوں کے لئے استعمال ہوا ہے۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا جو قرآن پڑھتا ہے اور وہ اس کا ماہر ہے، وہ السَّفَرَةُ الكِرَامُ الْبَرَرَةُ ( فرشتوں ) کے ساتھ ہوگا اور جو قرآن پڑھتا ہے، لیکن مشقت کےساتھ۔ ( یعنی ماہرین کی طرح سہولت اور روانی سےنہیں پڑھتا ) اس کے لئے دوگنا اجر ہے۔ (صحيح بخاري، تفسير سورة عبس مسلم، كتاب الصلاة، باب فضل الماهر بالقرآن....)۔
(1) اس سے وہ انسان مراد ہے جو بغیر کسی سند اور دلیل کے قیامت کی تکذیب کرتا ہے۔ قُتِلَ بمعنی لُعِنَ اور مَا أَكْفَرَهُ ! فعل تعجب ہے، کس قدر ناشکرا ہے۔ آگے اس انسان کفور کو غور وفکر کی دعوت دی جا رہی ہے کہ شاید وہ اپنے کفر سے باز آجائے۔
(1) یعنی جس کی پیدائش ایسے حقیر قطرۂ آب سے ہوئی ہے، کیا اسے تکبر زیب دیتا ہے؟
(2) اس کا مطلب ہے کہ اس کے مصالح نفس اسے مہیا کیے، اس کو دو ہاتھ دو پیر اوردو آنکھیں اور دیگر آلات وخواص عطا کیے۔
(1) یا اپنے اقربا اور احباب سے بے نیاز اور بے پروا کر دے گا۔ حدیث میں آتا ہے ۔ نبی (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا کہ سب لوگ میدان محشر میں ننگے بدن، ننگے پیر، پیدل اور غیر مختون ہوں گے۔ حضرت عائشہ (رضی الله عنها) نے پوچھا، اس طرح شرم گاہوں پر نظر نہیں پڑے گی ؟ آپ (صلى الله عليه وسلم) نے اس کے جواب میں یہی آیت تلاوت فرمائی۔ یعنی لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ ( الترمذي تفسير سورة عبس، النسائي، كتاب الجنائز، باب البعث) اس کی وجہ بعض کے نزدیک یہ ہے کہ انسان اپنے گھر والوں سے اس لئےبھاگے گا تاکہ وہ اس کی وہ تکلیف اور شدت نہ دیکھیں جس میں وہ مبتلا ہوگا۔ بعض کہتے ہیں، اس لئے کہ انہیں علم ہوگا کہ وہ کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے اور ان کے کچھ کام نہیں آسکتے۔ (فتح القدیر ) ۔